پاکستان کسی بھی افغان گروپ کی حمایت کرنے کے بجائے افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے حقیقت پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور کسی ایک گروپ کی حمایت کرنے کے بجائے اسے غیر جانبدارانہ حیثیت میں افغانستان میں امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔ پاکستان ماضی میں بھی ایسے دعوے کرتا رہا ہے مگر عالمی برادری خصوصاً افغانستان اور امریکہ نے پاکستان کی غیر جانبداری کے اس دعوے کو شرفِ قبولیت نہیں بخشا۔ اب افغانستان میں وسیع تر مفادات رکھنے والے ممالک تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان افغان مسئلے کے حل کے لئے امن مذاکرات میں ایک مخلص سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس وقت افغانستان کے بارے میں کئی طرح کے امن مذاکرات چل رہے ہیں۔ سب سے اہم مذاکرات قطر کے شہر دوحہ میں ہو رہے ہیں‘ جہاں افغان طالبان اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے 29 جون 2019ء کو بات چیت کے ساتویں رائونڈ میں دوبارہ شرکت کی۔ اس سے ایک ہفتہ قبل چین نے افغان طالبان کے رہنمائوں کو امن پروسیس پر تبادلہ خیال کے لئے بیجنگ مدعو کیا تھا۔ روس بھی 2017ء سے امن مذاکرات میں بہت متحرک رہا ہے۔ اس نے فروری اور اپریل 2017ء میں خطے کے ممالک کے ساتھ دو مرتبہ مشاورتی عمل کا انعقاد کیا تھا۔ اس نے نومبر 2018ئ، فروری 2019ء اور 28-29 مئی 2019ء کو افغان رہنمائوں اور طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کے تین رائونڈز کا بندوبست کیا۔ ان اجلاسوں میں کابل حکومت کو باقاعدہ شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی‘ مگر اس کے روس میں متعین سفیر نے مئی 2019ء میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی تھی۔ شروع میں افغان حکومت نے روس میں ہونے والی بات چیت پر سخت تنقید کی تھی۔
پاکستان نے 24-23 جون 2019ء کو بھوربن میں افغان سیاسی جماعتوں اور عسکری گروپوں کے مابین بات چیت کے انتظامات کیے‘ جنہیں لاہور پروسیس کا نام دیا گیا۔ یہ افغان گروپوں کے درمیان مذاکرات تھے‘ جس میں پاکستان نے صرف میزبان کا کردار ادا کیا تھا۔فی الحال افغان طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو یکسر مسترد کر دیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں امن اور امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کا حقیقی فیصلہ تو امریکہ نے کرنا ہے؛ چنانچہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے۔ کابل حکومت طالبان کی مذاکرات نہ کرنے کی اس پالیسی کو ایک استثنیٰ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ایک منفرد بات یہ ہوئی کہ کابل حکومت نے دوحہ میں طالبان سے بات چیت کے لئے ایک وفد تشکیل دیا‘ جس میں 240 خواتین و حضرات شامل تھے۔ طالبان نے وفد کے اتنے بڑے سائز کو دیکھ کر اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
امریکی حکومت کی سر توڑ کوشش ہے کہ اس سال کے خاتمے سے پہلے پہلے امن معاہدہ ہو جائے تاکہ امریکہ کے لئے موسم بہار 2020ء تک افغانستان سے اپنے فوجیوں کے محفوظ انخلا کا کوئی بندوبست ہو جائے۔ اس طرح صدر ٹرمپ کے لئے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو نومبر 2020ء میں دوسری مدت کے صدارتی الیکشن کی مہم کا حصہ بنانے کا موقع مل جائے؛ تاہم امریکہ کسی سیز فائر کے بغیر نہیں نکلنا چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ طالبان اپنی عسکری کارروائیاں روک دیں تو امریکی افواج طالبان حملوں کے خوف سے آزاد ہو کر یہاں سے نکل سکیں۔
امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین کوئی سیاسی مفاہمت ہو جائے تاکہ افغانستان کسی دوسری خانہ جنگی میں نہ الجھ کر رہ جائے۔ ایسا معاہدہ تبھی ممکن ہے جب طالبان اور افغان حکومت براہ راست مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے۔ اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ طالبان موجودہ سیاسی اور آئینی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ وہ شراکت اقتدار کے لئے اطمینان بخش حد تک موجودہ آئین کو تبدیل کرنا چاہیں گے۔
اگر امریکہ افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کرتا ہے تو تین اہم سوال سامنے آئیں گے۔ کیا کابل میں مقیم قیادت اور طالبان کوئی ایسا سیاسی بندوبست کر لیں گے جو قابل عمل بھی ہو؟ کیا طالبان سیاسی مفاہمت کی اہمیت کا ادراک کر لیں گے اور غیر طالبان سیاسی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہوں گے؟ اب افغان امور میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والے روس اور چین کا رد عمل کیسا ہو گا؟
سب سے زیادہ انحصار افغان نیشنل آرمی اور پولیس کی صلاحیتوں پر ہو گا کہ یہ دونوں فورسز کس حد تک طالبان کا دبائو برداشت کر سکتی ہیں۔ اب تک ان کا پیشہ ورانہ ٹریک ریکارڈ گڈ مڈ ہے مگر وہ کسی بیرونی مالی اور عسکری سپورٹ کے بغیر طالبان کے خلاف کوئی طویل جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسی طرح طالبان کو بھی یہ یقین نہیں ہے کہ آیا وہ تمام مخالفین کو شکست دے کر پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم کر سکیں گے۔
اس صورت میں بھاری جانی اور معاشی نقصانات کا احتمال ہے۔ دوسرا بڑا خدشہ یہ ہے کہ طالبان کا کوئی گروہ یا کابل حکومت میں شامل بعض عناصر اس امن پروسیس کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش نہ شروع کر دیں۔ایک اور مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ روس اور چین اب افغانستان کے داخلی استحکام میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ علاقائی انتظامات کے تحت وہاں داخلی امن اور سماجی و معاشی ترقی کی کوششوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ روس اور چین مستحکم افغانستان چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان سے بھی تعاون حاصل کر سکتے ہیں‘ اور کسی متفقہ سیاسی مفاہمت کی صورت میں وہ سہولت کار کے طور پر افغانستان کی داخلی جماعتوں کو اسکی پاسداری کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ہمیں اسی تناظر میں 28-27 جون کے افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان کا جائزہ لینا ہو گا۔ ان کا سیاسی مستقبل اب خطرے میں ہے جس کی ایک وجہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن اور طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ مفاہمت کے بارے میں بے یقینی کی فضا ہے۔ دوسری وجہ افغانستان سے امریکی افواج کا ممکنہ انخلا ہے۔ وہ ان مشکل چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے پاکستان کی سفارتی سپورٹ کے خواہاں ہیں۔ اس دورے سے دونوں ممالک میں دو طرفہ اعتماد کی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ اشرف غنی چاہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ اور حتمی مفاہمت کے لئے ان کی مدد کرے۔ امریکہ کے اس خطے سے نکلنے کے بعد افغانستان کو پاکستان کی معاشی اور سفارتی مدد اور تعاون کی ضرورت پڑے گی۔
پاکستان نے ان امن مذاکرات میں سہولت کاری کے ذریعے ایک معقول پالیسی اپنائی ہے اور طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں ملوث ہونے سے گریز بھی کیا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کو صرف ایک ہمسایہ ملک کے طور پر بھی دیکھے جس کے ساتھ اسے مثبت تعلقات رکھنا ہوں گے اور اسے اس امر سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ وہاں کس کی حکومت قائم ہے۔
پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے‘ اور اس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دے۔ ماضی میں یہ باہمی تجارت اکثر کشیدگی اور علاقائی سیاست کی نذر ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ تجارت اور افغانستان میں معاشی تعمیر و ترقی کے عمل کو ہر طرح کی سیاست سے پاک کرے۔ تلخی اور عدم اعتماد کی فضا سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک تجارت، معاشی تعلقات اور نسلی روابط کی اہمیت پر توجہ مرکوز کریں۔
پاکستان کیلئے یہ تعلقات اس لئے بھی اہم ہیں کہ اس طرح اس کی شمالی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی، اسے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اس کا سنٹرل ایشیا کے ساتھ محفوظ زمینی لنک قائم ہو سکے گا۔ حالیہ کثیر جہتی مذاکراتی عمل سے بھارت بالکل ہی خارج ہو گیا ہے اور جیسے ہی طالبان، غیر طالبان فورسز کے ساتھ حکومتی عمل میں شامل ہوں گے وہاں بھارت کا کردار مزید محدود ہو جائے گا۔پاکستان افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ وہاں کے داخلی تنازعات سے خود کو دور رکھے، مذاکراتی عمل کے فروغ میں اپنا غیر جانب دارانہ کردار برقرار رکھے اور افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں ایک متحرک کردار ادا کرے۔