صدر ٹرمپ کے دو روزہ دورئہ انڈیا میں دو متحارب رجحان نظر آئے۔ ایک جانب تو انڈیا کی حکومت نے اس دورے کو خوشگوار بنانے کے لیے بہت وسیع پیمانے پر انتظامات کیے تھے ‘جبکہ دوسری جانب دہلی کے کچھ علاقوں میں‘صدر ٹرمپ کی شہر میں موجودگی کے دوران‘ انتہائی شدید نوعیت کے فسادات جاری تھے۔ دہلی فسادات کا ہدف مسلمان تھے اور انہیں اس دوران جان و مال کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
صدر ٹرمپ کا سرکاری دورہ تو ان فسادات سے متاثر نہیں ہوا‘ کیونکہ جن علاقوں میں انہیں جانا تھا انہیں سکیورٹی اداروں نے اچھی طرح محفوظ بنا رکھا تھا جبکہ صدر خود بھی ان فسادات کے متعلق خاموش رہے۔ صدر ٹرمپ کا دورہ ان امریکی کاوشوں کا حصہ ہے جن کا مقصد انڈیا کے ساتھ دفاع اور سکیورٹی معاملات میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ انڈیا اور امریکا نا صرف سکیورٹی معاملات میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں‘ بلکہ دونوں ملک ایشیا پیسفک اور بحر ہند کے علاقوں میں بھی تعاون بڑھا رہے ہیں۔ امریکا کا خیال ہے کہ طاقتور انڈیا نا صرف جنوبی ایشیا اور بحرہند کے خِطوں میں سکیورٹی اور استحکام کے لیے اہمیت کا حامل ہے‘ بلکہ ایشیا پیسفک اور سائوتھ چائنہ سی کے علاقے میں بھی امریکی مفادات کاتحفظ کر سکتا ہے۔ سائوتھ چائنہ سی میں امریکا کچھ چھوٹے جزائر پر چین کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ اس خطے میں چین کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے تیار نہیں ۔
ایشیا پیسفک اور سائوتھ چائنہ سی کے حوالے سے امریکی پالیسی میں انڈیا بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ اس کی وجہ چین کے ساتھ انڈیا کے مسائل اور خطے میں نمایاں چینی پوزیشن کو چیلنج کرنے کی اس کی خواہش ہے۔صدر ٹرمپ کے دورے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں خطے میں سکیورٹی اور تزویراتی معاملات میں تعاون بڑھانے کے بارے میں بات کی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو خطے میں اپنے اپنے سکیورٹی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اہم خیال کرتے ہیں۔ انڈیا چاہتا ہے کہ امریکا اسے جدید ہتھیار اور سازوسامان مہیا کرے‘ انڈیا امریکا سے میزائل شیلڈ نظام کے حصول کے امکانات بھی بڑھاناچاہتا ہے۔ امریکا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں تجویز کیے جانے والی توسیع کے بعد یہاں مستقل نشست کے معاملے پر انڈیا کی حمایت کرے گا۔اس کے علاوہ امریکا نیو کلیئر سپلائی گروپ میں انڈیا کے شمولیت کے لیے بھی اسے حمایت فراہم کرے گا۔
تعاون کی اس موجودہ شکل کی جڑیں 2005ء میں ہونے والے فریم ورک فار انڈو ۔یو ایس ڈیفنس تک پھیلی ہیں۔ اس فریم ورک کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین سکیورٹی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کا فروغ تھا۔ بعد ازاں امریکا نے اس امر پر بھی رضامندی کا اظہار کیا کہ وہ ایسے نیوکلیائی ری ایکٹرز کے لیے ایندھن فراہم کرے گا جو پر امن مقاصدیعنی بجلی پیدا کرنے کے لیے چلائے جائیں گے۔ اس کے بعد ہونے والے اہم معاہدوں میں ڈیفنس ٹیکنالوجی اینڈ ٹریڈ انیشی ا یٹو 2012 ء اور انڈو یو ایس ڈکلریشن آن ڈیفنس کوآپریشن2014ء شامل ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران پاکستان دو پہلوئوں سے سامنے آیا۔ اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا دونوں کو خوش کرنے کی کوشش کی‘ تاہم دورے کے اختتام پر انہوں نے پاکستان کے متعلق انڈیا کے منفی نقطہ نظر کی حمایت کر دی۔پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقے اس وقت بڑے خوش ہوئے جب اپنی پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے بارے بات کی۔ جہاں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور انڈیا کے مابین مذاکرات ضروری ہیں وہیں انہوں نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کی اپنی پیشکش کا اعادہ بھی کیا۔ انہوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے ہیں اور پاکستان دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے افغان طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے لیے بھی پاکستانی کردار کو سراہا۔ انڈیا کے اکثر لیڈروں نے ٹرمپ کے پاکستان کی حمایت میں دیے گئے بیانات پر بڑے پیچ و تاپ کھائے۔دوسری جانب صدر ٹرمپ نے انڈین رہنمائوں اور میڈیا کو راضی کرنے کے لیے دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں دہشت گردی سے متعلق انڈیا کے پاکستان بارے مؤقف کی تائید بھی کر دی۔'' سرحد پار دہشت گردی‘‘ کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے انڈیا کی اس بات سے بھی اتفاق کر لیا کہ'' پاکستان کو اپنی سرزمین دہشت گرد حملوں میں استعمال کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘‘۔ مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ''26/11کے ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملوں کے منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘‘۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ''تمام دہشت گرد گروہوں بشمول القاعدہ‘ داعش‘ جیش محمد‘ لشکر طیبہ‘ حزب المجاہدین‘ حقانی نیٹ ورک‘ تحریک طالبان پاکستان‘ ڈی کمپنی اور ان سے وابستہ افراد کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں‘‘۔مشترکہ اعلامیے میں شامل بیان سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کامیابیوں سے مطمئن نہیں۔ اس بیان میں جن گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اب پاکستان میں فعال نہیں رہے۔ داعش تو پاکستان میں کبھی موجود ہی نہیں رہی۔ حافظ سعید کو پاکستانی عدالت پہلے ہی سزا سنا چکی ہے‘ جس سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان نے جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ کے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ ٹی ٹی پی افغانستان سے آپریٹ کرتی ہے اور انڈیا کی خفیہ ایجنسی را ء اسے مالی مدد مہیا کرتی ہے۔ پاکستان میں کسی ''ڈی کمپنی‘‘ کا وجود نہیں ہے اور حقانی نیٹ ورک اب افغانستان سے چلایا جا رہا ہے۔تاہم اس بیان میں انڈیا میں فروری2007ء میں سمجھوتا ایکسپریس میں ہونے والے بم دھماکوں کا کوئی ذکر نہیں‘ جس میں ہلاک ہونے والے مسافروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اس حملے میں ملوث انڈین شہریوں کو انڈین حکومت کھلی چھوٹ دے چکی ہے ۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے بارے انڈیا کے مؤقف کی توثیق اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں‘ تاہم انہوں نے اس حوالے سے براہِ راست بیان جاری کرنے سے گریز کیا ‘کیونکہ امریکا کو افغانستان میں امن اور وہاں سے اپنی افواج نکالنے کے لیے پاکستان کی مدد درکار ہے۔پاکستان نے افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی اور اب امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات کا آغاز کرانے میں بھی کردار ادا کرے۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو براہِ راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ انہوں نے پاکستان پر بالواسطہ دبائو ڈالنے کے لیے انڈیا کو استعمال کیا‘ اس سے انڈیا کا اُلو بھی سیدھا ہو گیا۔ کشمیر کے بارے میں ٹرمپ کے مؤقف اور خیالات کو مشترکہ اعلامیے میں جگہ نہیں ملی ‘کیونکہ انڈین حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ اس سے یہ بات بھی کھل گئی ہے کہ صدر ٹرمپ کشمیر کے مسئلے پر بیان بازی سے آگے نہیں بڑھنے والے۔
پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ صدر ٹرمپ سے کہے کہ وہ کشمیر پر اپنی ثالثی کے بیانات کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کریں۔ امریکا کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور انڈیا کے مابین مذاکرات کرانے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے قرارداد منظور کرا سکتا ہے‘ لیکن ایسا ہونے کا امکان کم ہے‘ کیونکہ صدر ٹرمپ انڈیا کوایشیا پیسفک اور چین مخالف اپنے ایجنڈے میں اپنے تزویراتی اتحادی کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت صرف موجودہ افغان امن عمل اور اس حوالے سے ہے کہ یہ انڈیا کے ساتھ روایتی جنگ میں نہ اُلجھے۔