"HAC" (space) message & send to 7575

وائرس اور عالمی سیاست

کورونا وائرس نے دنیا کے بہت سے ممالک میں نا صرف مقامی سطح پرسنگین چیلنجز کوجنم دیا ہے ‘بلکہ عالمی سیاست پر بھی اس کے مضمرات سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔اب تک عالمی سیاست دنیا کے طاقتور ممالک کے مابین مخاصمت اور مسابقت کے گرد گھومتی تھی۔ دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی امریکہ اور سوویت یونین کے مابین مسابقت ختم ہو گئی‘ تاہم بعد از سرد جنگ دنیا نے عالمی سیاست میں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز کا ظہور ہوتا دیکھا۔ ان میں سے سب سے زیادہ توجہ امریکہ اور چین کے مابین جاری مسابقت نے حاصل کی۔ کورونا وائرس نے عالمی سیاست میں طاقتور افواج اور معیشت رکھنے والے ممالک کی ترجیحی حیثیت کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ اس وبا نے ظاہر کر دیا ہے کہ چین‘ امریکہ اور متعدد یورپی ممالک اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور عسکری و معاشی طاقت کے باوجودکس قدر کمزور ہیں۔ جب وائرس نے پوری قوت سے ان پر حملہ کیا تو ان بڑی ریاستوں کو بھی لاچاری و بے بسی کا تجربہ ہوا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سیاست میں اب آفات کی عالمی جہت کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اب ‘یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ قدرتی آفات ریاست کے اندر موجود مختلف گروہوں کے علاوہ عالمی سطح پرمختلف ممالک کے مابین تعلقات کی نوعیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔
یہ وائرس دنیا کے لیے شاید اتنا خطرناک ثابت نہ ہو جتنا نیو کلیئر ہتھیار خطرناک ہیں تاہم اس کے چیلنجز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی وجہ سے ممالک کے اندر سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا ہوگا‘ بلکہ اگر مختلف ممالک نے اس کے پھیلائو کا الزام ایک دوسرے پر دھرنا شروع کر دیا تو اس کے سبب ان ممالک کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔ کچھ امریکی رہنما تو کورونا وائرس کو چینی وائرس یا ووہان وائرس کہہ کر پکار رہے ہیں۔لا محالہ چینی رہنمائوں نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین وہ پہلا ملک تھا جو اس وبا کا شکار ہواتاہم اس وبا کے ماخذ کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اک بار یہ وبا قابو میں آ گئی تو اس حوالے سے جنم لینے والا بیانیہ عالمی تعلقات کی سمت متعین کرے گا۔وائرس نے عالمی تعلقات کے ایک اہم پہلو گلوبلائزیشن کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ابلاغ اور سفری سہولیات نے بعد از سرد جنگ دنیا کو گلوبل ولیج میں بدل دیاتھا اور دنیا بھر میں کامیاب معیشت کی بنیادیں اس باہمی رسائی اور لبرل معاشی فریم ورک پر استوار تھیں جس میں افراد‘ خیالات ‘ اشیا اور خدمات کی نقل و حرکت میں خطے اور ملکوں کی سرحدیں رکاوٹ نہ بنیں۔ گلوبلائزیشن کی سب سے قیمتی متاع آزاد تجارت ‘ نجی شعبے کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ اور معاشی معاملات میں ریاستی مداخلت کا کم ترین سطح پر ہونا شامل ہے۔اس کے سبب غیرحکومتی اداروں کا کردارکسی بھی ملک کے اندر اور ریاستوں کی جغرافیائی سرحدوں سے آگے بڑھ کر اہمیت کا حامل ہو جاتاہے۔ معاشی آزادی کے مغربی ماڈل کے ان تصورات یا بالفاظ دِگر گلوبلائزیشن پر پہلا حملہ عالمی دہشت گردی نے کیا جس کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے مخصوص علاقے سے آنے والے لوگوں اور خیالات کی ترسیل پر روک لگائی ۔مغربی ممالک نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت کی ‘جس کے باعث کچھ ترقی پذیر ممالک‘ خصوصاً مسلمان اکثریت والے ملکوں (افغانستان‘ پاکستان‘ ایران‘ عراق‘ شام‘ لیبیا‘ یمن اور صومالیہ) کو شدید زک پہنچی۔ 
اب وائرس دہشت گردی سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ انسانیت پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر ایشیا سے پھوٹنے کے بعد اب اس نے یورپ کے کچھ ممالک اور امریکہ کو ہدف بنا لیا ہے اور اب اس کی شدت میں کہیں زیادہ تیزی آ چکی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں شہروں اور قصبوں میں لاک ڈائون اور عالمی سطح پر سفری پابندیوں کے سبب مختلف ممالک کی جغرافیائی حدود کے اندر افراد و اشیا کی نقل و حرکت محدود ہونے سے گلوبلائزیشن کی ناپائیدار فطرت کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے اور دنیا کے گلوبل ویلج بن جانے کے تصور کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ یہ ایک عارضی دھچکا ہے اور دنیا گلوبلائزیشن اور اکیسویں صدی میں معاشی آزادی کی اپنی پرانی روش پر دوبارہ لوٹ جائے گی۔اگلے ایک آدھ ماہ میں امکان ہے کہ وائرس پر قابو پا لیا جائے یا اس کے نقصانات کو کم کیا جا سکے گا‘ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کے اثرات دنیا کو طویل عرصہ تک متاثر کریں گے‘ خصوصاً کم ترقی یافتہ اور نسبتاً غریب ممالک آئندہ کئی برسوں تک ان بد اثرات سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک میں جہاں غربت کا پھیلائو بہت زیادہ اور ترقی کم ہے وہاں اس وائرس سے پیدا ہونے والے چیلنجز مزید بڑھ جائیں گے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنی نوکریوں سے محروم ہو چکی ہے یا ان کی کمرشل سرگرمیاں شہروں اور قصبوں میں جاری لاک ڈائون کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح بڑھے گی اوران کی آمدنی مسدود ہو جائے گی۔ سب سے زیادہ منفی اثرات کا شکار ہونے والا طبقہ دیہاڑی دار اور ان لوگوں کا ہے ‘جن کا سارا انحصار سڑک کنارے لگائے جانے والے کارباری بندوبست پر تھا۔ اکثرممالک جو فلاحی ریاست کے تصور پر کاربند نہ تھے وہ یا تو ان لوگوں کی مدد کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے یا وہ اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر اگلے ایک آدھ ماہ میں صورتحال نارمل بھی ہو جائے تو بھی ایسے لوگوں کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ وہ اپنی سابقہ کمرشل سرگرمیوں کی جانب با آسانی لوٹ سکیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ریاست اور سماج کندھے سے کندھا ملا کر چلیں اور ایسے لوگوں کو معاشی مدد دیں‘ تاکہ یہ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سرگرمیاں بحال کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اگر اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اندرونی طور پر سیاسی بے یقینی و عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے ممالک کو عالمی امداد کی ضرورت ہوگی کہ انہیں اس وائرس کی وجہ سے جس انسانی المیے کا سامنا ہے وہ اس سے نجات پا سکیں۔ جہاں ان ممالک کو اپنی ہاں بحالی و معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے عالمی مدد درکار ہوگی وہیں ان ممالک کے لیے یہ ممکن نہیں ہو سکے گا کہ یہ اپنے پرانے قرضے اور سودچُکا سکیں۔عالمی معاشی نظام‘ خصوصاً لین دین کے نظام کا دوبارہ جائزہ لے کر اس کی اس طرح تشکیل نو کرنے کی ضرورت ہے ‘جو ان ممالک کو دوبارہ قرضوں کے ایک نئے بحران میں پھنسنے نہ دیں۔
وائرس کی اس وبا نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلا دیا ہے کہ کسی بھی ریاست کے تحفظ کے لیے صرف عسکری قوت کا ہونا کافی نہیں۔ سکیورٹی کے تصور کو وسیع کر کے اس میں غیر عسکری چیلنجز کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ اگر فطرت یا انسان کے اپنے ہاتھ سے جنم لینے والی آفات کی جانب توجہ نہ دی گئی تو یہ ریاستیں گر سکتی یا شدید نوعیت کے اندرونی خلفشار کا شکار ہو سکتی ہیں ۔ کوئی وبا‘ سیلاب اور سائیکلون اور قحط کسی بھی ریاست یا سماج کو منہ کے بل گرا سکتے ہیں۔ اسی طرح اندرونی تنازعات اور مخاصمتیں‘ لسانی یا مذہبی تنازعات یا ریاست و عوام کے مابین بڑے پیمانے پر پھیلا احساسِ اجنبیت کسی بھی ملک کو مفلوج کر سکتا ہے؛ ایسے میں ریاست اپنے شہریوں کے لیے بنیادی وظائف کی ادائیگی میں بھی ناکام ہو جائے گی۔ کسی بھی ملک کا اندرونی خلفشار صرف اس ملک کا اندرونی معاملہ نہیں رہے گا اور اس کے گرنے کا اثر لامحالہ ہمسایہ ممالک پر پڑے گا۔ 
اس لیے اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ایک نیا سماجی یا انسانی سکیورٹی کا نظام تشکیل دیا جائے اور ایسے ممالک کی مدد کی جائے کہ وہ اپنے عوام کو کم از کم سماجی و سیاسی سکیورٹی فراہم کر سکیں۔ اس وسیع کام کے لیے یقینا عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔
بعد از کورونا وائرس دور میں ہمیں عالمی تعلقات کا گھیرا بھی دوبارہ طے کرنا ہوگا۔وہ قدیم چیلنج جس میں انسانیت کو صرف ہتھیاروں والی جنگ کے عفریت سے محفوظ رکھنا حقیقی ہدف تھا اب دہرا ہو گیا ہے اور اس میں قدرتی آفات اور وبائوں کے خطرے کے ساتھ سماجی و انسانی خطرات اور سوشیو اکنامک محرومیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔روایتی عسکری چیلنجز کے مقابلے میں یہ گلوبل معاملات ہیں اور عسکری تنازعات سے کہیں زیادہ خطرناک اثرات کے حامل ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں