"HAC" (space) message & send to 7575

لاک ڈاؤن سے حاصل شدہ اسباق

بظاہر یوں لگتا ہے کہ پاکستانیوں نے کورونا وائرس کے منفی اثرات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں کیونکہ اب تک کسی نے بھی ان کی زندگیوں میں در آنے والی اس ابنارمیلٹی کے جلد ختم ہونے کے بارے میں کوئی واضح امید نہیں دلائی۔جوں جوں کورونا وائرس کے متاثرین اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے توں توں دو متحارب رجحا نات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنی صحت کے بارے میں پوری طرح چوکنا ہو کر تمام تر حفاظتی اقدامات کی پابندی کر رہے ہیں‘ اس کے برعکس دوسرا رجحان خطرے کے وجود سے یکسر انکار کا ہے۔یہ رویہ غریب اور دیہاڑی دار طبقے میں نسبتاًزیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے ‘شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ دن میں کام کرکے جو کماتے ہیں اسی سے شام میں ان کے گھروں میں چولہا جلتا ہے۔
ایک مہینہ پہلے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بہت بڑے پیمانے پر لوگوں میں نقد رقم اور راشن تقسیم کیا تھا۔ جولائی کے وسط تک یہ دونوں چیزیں ختم ہو چکی ہوں گی ‘کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک بار پھر پیسے اور راشن کی تقسیم کا بندوبست کریں گی؟ایسی گمبھیر صورتحال میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مختلف شہروں اور قصبوں میں سلیکٹو لاک ڈائون نافذ کیا ہے۔ اس سلیکٹو لاک ڈائون کے بارے میں حکومتی دلیل ہے کہ عید الفطر سے قبل ملک بھر میں جاری عمومی لاک ڈائون ختم کرنے کے نتیجے میںکورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ لوگوں نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ حفاظتی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ عیدسے پہلے اس وائرس سے ہونے والی روزانہ اموات کی شرح35سے 40 افراد فی دن تھی جو عید کے بعد بڑھ کر ایک 130 روزانہ پر پہنچ چکی ہے۔اگر نئے سامنے آنے والے مریضوں کی یہی رفتار برقرار رہی تو پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کیلئے جون کے مہینے کے بعد نئے مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ حزب مخالف کی بڑی جماعتوں نے کورونا سے متاثرہ لوگوں کی مدد کیلئے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔یہ جماعتیں حکومت پر الزام لگاتی ہیں کہ اس نے عید سے قبل لوگوں کو جو کھلی چھوٹ دی اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ خود حکومت بھی اس صورتحال سے اضطراب کا شکار دکھائی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے سلیکٹو لاک ڈائون زیادہ قوت سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب تک پاکستان اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے کہ کورونا وبا سے بچائو کیساتھ وہ اپنی قومی معیشت اور عام لوگوں کی روز مرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے کیاکرے ؟ اس مسئلے سے جڑے تمام تر مسائل حل کرنے میں مشکلات اس لیے بھی دوچند دکھائی دیتی ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے مابین تعلقات اتنے خراب ہیں کہ یہ دونوں ہمہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ حکومت جو بھی قدم اٹھاتی ہے اپوزیشن اس پر اعتراض کرتی ہے اور جو کچھ اپوزیشن کہتی ہے اسے قبول کرنے کیلئے حکومت کسی صورت تیار نہیں دکھائی دیتی۔ اس کھینچا تانی نے عوام کو کنفیوژ کر دیا ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت اگر کسی ایسے پہلو پر بات کرتی ہے جس میں امید کی کوئی رمق دکھائی دیتی ہے تو اس کے مقابل اپوزیشن جماعتیں بالکل الٹی بات کرتی ہیں اور وہ پاکستان میں اس وبا کے پھیلائو کی ذمہ داری حکومتی پالیسیوں پر ڈال دیتی ہیں۔عوام الناس حکومتی پالیسیوں کا اندازہ صرف سرکاری بیانات یا ہسپتالوں میں دستیاب سہولیات کی بنیاد پر ہی نہیں کرتے۔ اس حوالے سے عوام کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ پولیس‘ نیم فوجی دستے اور فوج لاک ڈائون کا نفاذ کرانے کیلئے کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں اور لاک ڈائون کے نفاذ کیلئے یہ ادارے لوگوں سے کس طرح پیش آتے ہیں؟
موجودہ لاک ڈائون کے نفاذ کے دوران لوگوں کیلئے مددگار یا ہمدردانہ رویے کی کہانیوں کی نسبت برے سلوک کی کہانیاں کہیں زیادہ ہیں۔ جب کسی شخص کو کوئی سکیورٹی ڈیوٹی دی جاتی ہے تو لوگوں کو حدود و قیود میں رکھنے کیلئے ایسے شخص کا رویہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہ مشکل کہیں کہیں سکیورٹی ڈیوٹی کرنے والے افراد کے مہذب رویے کی مثالیں ملتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان لوگوں کو عوام کے مسائل کی کوئی پروا نہیں ہے۔اس حوالے سے سرکار کا کہنا ہے کہ اگر سختی نہ کی جائے تو لوگ ضروری حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ شاید یہی وہ انداز ہے جس پر ہمارا سیاسی نظام چلتا ہے:اوپر سے ملنے والے احکامات کے نفاذ کیلئے سختی اور عوام کے اندر قانون کی پاسداری نہ کرنے کا رویہ۔ یہ رویہ بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ سماجی آگاہی اور ایسے احکامات کے نفاذ سے قبل مقامی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں ان احکامات کے نفاذ کے سسٹم میں شامل کیا جائے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے اشخاص لوگوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور انہیں بخوبی ان کے مسائل و معاملات کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے لاک ڈائون کے نفاذ جیسے سخت کام کسی نہ کسی حد تک انسانی سطح پر پہنچ سکتے ہیں‘ تاہم اس کے لیے پالیسی سازوں اور اس پالیسی کا نفاذ کرنے والوں کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ پورے سسٹم کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کر کے کمیونٹی کی شمولیت والے سسٹم پر انحصار بڑھانا لازمی ہے۔
مقامی حکومتوں کا نظام مفلوج ہو چکا ہے اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی تک عوام کی رسائی آسانی سے ہونا ممکن نہیں کہ لوگ اس نئی طرز کے لاک ڈائون کے حوالے سے پیدا ہونے والے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس پہنچ سکیں یا اپنی شکایات ان تک پہنچا سکیں ۔دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی بہت ہی مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ اس کڑے وقت نے پاکستان کے سیاسی و سماجی نظام کی اچھائیاں اور برائیاں سطح پر لا پھینکی ہیں۔ ایسے خدا خوفی رکھنے والے نیک دل لوگ بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس وبا سے متاثر ہونے والوں کو مفت خوراک اور طبی سہولیات مہیا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈاکٹر اور طبی عملہ پورے جی جان سے اپنی زندگیاں دائو پر لگا کر لوگوں کو خدمات مہیا کرنے میں جٹا ہوا ہے۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مصنوعی قلت پیدا کرکے کورونا مریضوں کو درکار دوائوں کی قیمتیں بڑھائی ہیں اور لمبی دیہاڑیاں لگائی ہیں۔
کورونا وائرس کے ساتھ مقابلہ کرتے پاکستان کی کوششوں کے مثبت و منفی اسباق ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان اسباق کا جائزہ لیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کسی بھی مصیبت یا بحران کے وقت میں ہمارا سماج کس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ سماجی امور کے ماہرین اور نفسیات دانوں کو ان چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس مطالعہ کا مقصد کسی پر تنقید یا سماج کے کسی طبقے کو یا حکومت کوگزشتہ چار ماہ میں ہوئی ہر بری چیز کیلئے مورد الزام ٹھہرانا نہیںہونا چاہیے۔ ریاست اور سماج کے رویوں کا غیر جانبدارنہ مطالعہ ہمیں اس قابل بنا سکتا ہے کہ ہم اپنے سماجی عمل‘ خصوصاً اپنے نظام تعلیم میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ہمارے لیے مددگار ثابت ہوں۔ بعد از کورونا دور میں جو چیز سب سے زیادہ ترجیح کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسان و انسانی فلاح کو ہمیں سب سے زیادہ اہمیت دینی پڑے گی۔ ہمیں عوام کیلئے صحت اور تعلیم کی سہولیات پر کہیں زیادہ وسائل صرف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ پاکستان کے اچھے شہری بن سکیں۔ اس سلسلے میں مذہب‘ نسل‘ صنف اور خطے کی کوئی تفریق روا نہیں ہونی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں