"HAC" (space) message & send to 7575

پی ڈی ایم کی سیاست اور تحریک انصاف کے اختیارات

اپوزیشن اتحاد ‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ستمبر 2020ء میں وفاقی حکومت کو ختم کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی۔ پی ڈی ایم والوں نے مختلف شہروں میں جلسے کئے‘ وفاقی حکومت کے جواز پر اس بنیاد پر سوال اٹھایا کہ جولائی 2018ء میں دھاندلی کی گئی اور یہ کہ عمران خان صاحب کو اقتدار میں لانے کیلئے کچھ قوتوں نے کردار ادا کیا۔ پی ڈی ایم مطالبہ کرتی ہے کہ وفاقی حکومت کی حمایت واپس لے لی جائے۔ پی ڈی ایم نے کہا کہ عمران خان 31دسمبر 2020ء تک استعفیٰ دیںب صورت دیگر انہیں سیاسی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ڈیڈ لائن کو بعد ازاں31 جنوری تک بڑھادیا گیا ‘ مگر یہ وزیر اعظم کے استعفے کے بغیر ہی گزر گئی۔ جنوری‘ فروری میں پی ڈی ایم نے اپنی حکمت عملی میں کچھ تبدیلی کی۔ اس کے رہنما ایک ادارے کی اعلیٰ قیادت پر تنقید میں کچھ نرمی لائے‘ اسمبلیوں سے استعفے پیش کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد ملتوی کیا اور مارچ میں سینیٹ کے انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے پر اتفاق کیا۔ سینیٹ انتخابات کے بعد 26 مارچ کو وہ اسلام آباد میں جمع ہوں گے تاکہ وزیر اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کریں۔ ستمبر تا جنوری پی ڈی ایم کی تحریک نے پی ٹی آئی کی حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالا اور سیاسی تنائو کو بڑھایا تاہم وہ وزیر اعظم کو ہٹانے اوران کی حامی قوتوں کو اپنی مرضی کے مطابق روکنے کا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ان ناکامیوں کی کئی وجوہ ہیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں جن کی ذاتی سیاسی حمایت صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حلقوں تک محدود ہے۔ مولانا کو ملک گیر حمایت حاصل نہیں ہے اور وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر انحصار کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت تحریک انصاف کی حکومتی پالیسیوں میں خامیوں کی نشاندہی کرنے اور عمران خان صاحب پر کڑی تنقید کرنے میں بہت بلند آہنگ ہے تاہم ان مشکلات کو دور کرنے کیلئے شاید ہی کوئی متبادل حکمت عملی پیش کرے۔ اگر گورننس اور بڑھتی مہنگائی تحریک انصاف کی حکومت کی سب سے بڑی کمزوریاں ہیں مگر پی ڈی ایم نے بھی ان مسائل کو کوئی حل عوام کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اس پہلو کو نظرانداز کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پی ڈی ایم صرف وزیراعظم کو ہٹانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ پی ڈی ایم کو عام لوگوں کی پریشانیوں کے حل کیلئے کچھ ٹھوس تجاویز پیش کرنا چاہئیں۔پی ٹی آئی کی حکومت میں اگر قیادت تبدیل ہو جائے تو کیا ہو گا؟ اگر انتخابی اصلاحات سے پہلے نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی ان معاملات میں کوئی سوچ نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی مشترکہ خواہش رکھتی ہیں۔ اس مشترکہ ایجنڈے سے آگے یہ جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں جو خالصتاً مقامی اور نسلی نقطہ نظر سے لے کر علاقائی مائنڈ سیٹ تک ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سے صرف دو سیاسی وزن رکھتی ہیں۔مسلم لیگ (ن) ملک گیر اثرورسوخ کی حامل ہے‘ البتہ اس کا گڑھ پنجاب ہے۔ اس کی رہنما مریم نواز نے توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور اپنی قیادت قائم کرنے کیلئے سخت طرز عمل اپنایا ہے اور پارٹی کی داخلی قیادت کی مقابلہ بازی نے مریم کو ایک سخت گیر رہنما بنادیا ہے۔ چونکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) مضبوط ہے ‘ اس کو کم از کم پنجاب میں اقتدار میں آنے کی بہت امید ہے۔ اس امید نے ہی مسلم لیگ کو قومی معاملات پر سخت مؤقف اختیار کرنے اور عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد قبل از وقت انتخابات کے خواہاں ہونے پر مجبور کیا ہے۔ جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد سیاسی انتظامات میں مسلم لیگ (ن) کا کچھ بھی دائو پر نہیں لگا ہوا ہے‘ لہٰذا وہ اقتدار میں واپس آنے اور اپنے قائدین کو احتساب سے بچانے کیلئے سیاسی انتظامات میں خلل ڈالنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی ایک اور اہم جماعت ہے جو وفاقی حکومت کو فوری طور پر ہٹانے کے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے مؤقف کی مکمل طور پر حامی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی 2008ء سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے اور اگلے انتخابات کے بعد بھی وہاں اقتدار میں آنے کی امید رکھتی ہے ‘ لہٰذا وہ اسمبلیوں سے استعفوں کی حمایت نہیں کرتی ہے۔پیپلز پارٹی پنجاب میں کمزور سیاسی مؤقف رکھتی ہے ؛ چنانچہ اگر الیکشن رواں سال میں ہوتے ہیں تو اس کیلئے وفاقی سطح پر اقتدار میں واپسی مشکل ہو جائے گی جبکہ پی ایم ایل (این) پنجاب میں مضبوط ہے اور اس کے آگے آنے کے امکانات زیادہ ہیں‘ مگرماضی میں پی ایم ایل (این) کی حکمرانی کے تلخ تجربے کے ساتھ پیپلز پارٹی نہیں چاہے گی کہ مسلم لیگ (ن)پنجاب یا وفاقی سطح میں برسرِ اقتدار آئے۔ پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں نے اب سینیٹ کے انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ان کے تعاون کی نوعیت انتخابات کے بعد کی مدت میں ان کے باہمی تعامل کا تعین کرے گی۔ کیا پی ایم ایل (این) سینیٹ انتخابات کیلئے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایڈجسٹ کرے گی یا وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اراکین اپنے ووٹ پی ایم ایل (این) کے امیدواروں کو دیں؟ اسی طرح کیا پیپلز پارٹی سندھ میں پی ایم ایل (این) کو سینیٹ کی کچھ نشستیں پیش کرنے پر راضی ہوگی یا پھر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو پنجاب اور سندھ میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے دیں گی؟ پھر دونوں جماعتیں سینیٹ انتخابات میں جے یو آئی (ایف) کو کس طرح ایڈجسٹ کریں گی؟ اگر یہ پارٹیاں سینیٹ انتخابات میں ایک دوسرے کو ایڈجسٹ نہیں کرتیں تو ان کا باہمی عدم اعتماد بڑھ جائے گا‘ جس کے 26 مارچ کو اسلام آباد کے مجوزہ مارچ پر اثر انداز ہونے کا اندیشہ ہے۔
سینیٹ کے انتخابات سے متعلق ایک اور عنصر یہ ہے کہ اپوزیشن اور پی ٹی آئی کی حکومت ایک دوسرے کے صوبائی اسمبلی کے ارکان کو کتنا اپنا حامی بناپاتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے ووٹ پی ایم ایل این ‘ پی پی پی کی طرف چلے جاتے ہیں تو سینیٹ الیکشن کے فوراً بعد وہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے کوشش کرسکتی ہیں۔ اگر تحریک انصاف اپوزیشن جماعتوں کے بھی ووٹ حاصل کر لیتی ہے تو ‘ عدم اعتماد کی تحریک لانے کے خیال کو یکسر ختم کردیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں حکومت گرانے میں ناکامی کے باوجود ‘ پی ڈی ایم میں مستقبل میں پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے مسائل پیچیدہ کرنے کی صلاحیت موجودہے۔ تاہم ‘ اس مرحلے پر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ سینیٹ کے انتخابات کے بعد وہ تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے میں کامیاب ہوسکیں گی یا نہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت پی ڈی ایم کے چیلنج کو غیر مؤثر بنانا چاہتی ہے تو اسے اپنی حکمرانی کی حکمت عملیوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم کو اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کے نعرے کو ترک کرنا اور حکمرانی کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ علاوہ ازیں ان اقتصادی امور پر توجہ دینا ہو گی جو لوگوں کیلئے پریشانی کا سبب ہیں۔ حکومت اور پی ڈی ایم‘ دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کی حکمت عملی ترک کریں اور پارلیمانی جمہوریت میں ایک دوسرے کے سیاسی کردار کو قبولیت بخشیں۔ اگر پی ڈی ایم اور تحریک انصاف جمہوریت اور کانسٹیٹیوشن ازم کے کاز سے مخلص ہیں تو انہیں انتخابی اصلاحات پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کے الیکشنوں کو ہارنے والی جماعت کیلئے قابلِ قبول بنایا جا سکے۔ ان کی مشترکہ توجہ کے قابل ایک اور اہم شعبہ معیشت ہے‘ علاوہ ازیں یہ معاملہ کہ ریاستی کاروباری اداروں کو کس طرح منظم کرنا ہے۔ پاکستان کے معاشرتی و اقتصادی مسائل کی وجہ سٹرکچرل اور وسائل کی کمزوریاں اور غیر مساوی تقسیم ہے۔ ان مسائل کا حل مستحکم سیاست اور بات چیت میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں