افغانستان 1979 سے کسی نہ کسی طرح کی داخلی جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ 29 فروری 2020 کو افغان طالبان اور امریکی انتظامیہ کے مابین امن معاہدے سے امید پیدا ہوئی کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا۔ اس احساس کو اس وقت تقویت ملی جب کابل حکومت اور افغان طالبان نے ستمبر 2020 میں داخلی سیاسی تصفیے کیلئے بات چیت کا آغاز کیا۔ لیکن اب افغانستان میں دیرپا امن کی امید ختم ہونے لگی ہے کیونکہ طالبان اور کابل حکومت‘ دونوں نے سیاسی تصفیے کی شرائط پر سخت مؤقف اپنا رکھے ہیں۔
اس دوران جبکہ روس‘ چین، پاکستان اور ترکی کی جانب سے طالبان اور کابل حکومت کے پالیسی موقف کو نرم کرنے کے حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں، امریکہ کی جانب سے نیا پالیسی بیان افغانستان اور پاکستان میں کافی تشویش کا باعث بنا ہے کیونکہ اس پالیسی میں کابل حکومت اور طالبان کے موقف میں نرمی لانے کے سلسلے میں کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔
امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کیلئے آخری تاریخ یکم مئی 2021ء، جو ٹرمپ انتظامیہ نے مقرر کی تھی‘ سے بڑھا کر 11 ستمبر 2021 کر دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ امریکی انخلا کی حتمی تاریخ ہے‘ اور امریکہ کو توقع ہے کہ نیٹو بھی اس تاریخ تک اپنی فوجیں نکال لے گا۔ دونوں ایک ساتھ داخل ہوئے تھے اور ایک ساتھ افغانستان چھوڑیں گے۔ امریکہ نے اپنی فوجوں کے انخلا کیلئے کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہوتا‘ تو بھی امریکہ اپنے فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔
کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات تعطل کے قریب ہیں کیونکہ فریقین نے کسی سیاسی تصفیے کیلئے خاطر خواہ لچک نہیں دکھائی۔ دو امور اس پریشانی کا سبب بنے ہیں: طالبان جنگ بندی اور افغان حکومت کی تنصیبات، افغان شہریوں اور افغان حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں پر اپنے حملے روکنے پر راضی نہیں ہوئے۔ کابل حکومت طالبان کے ساتھ بات چیت میں آسانی پیدا کرنے کیلئے کابل میں عبوری حکومت کے قیام کی تجویز سے متفق نہیں ہے۔ آگے بڑھنے کے طریق کار کے حوالے سے کابل حکومت کے اپنے نظریات‘ اپنی سوچ ہے۔ کابل حکومت عبوری حکومت کے قیام کیلئے اپنے انتظامات کے تحت نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ یہ تجویز طالبان کیلئے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر موجودہ افغان حکومت کے تحت انتخابات پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ موجودہ ووٹروں کی رجسٹریشن اور فہرست سازی میں ان علاقوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے جو طالبان کے زیر قبضہ ہیں۔ انتخابی نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں طالبان کی اگر کوئی معلومات ہے بھی تو نہایت محدود‘ لہٰذا موجودہ حکومت کے تحت انتخابات کا انعقاد حکمرانوں کو واضح فائدہ دے گا۔ طالبان چاہتے ہیں کہ عبوری مدت کیلئے اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جگہ باہمی قابلِ قبول قیادت کا انتخاب کیا جائے۔
حال ہی میں افغانستان میں داخلی امن و استحکام کے موضوع پر بات چیت کے عمل کی حوصلہ افزائی کیلئے دو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں۔ پہلی مارچ کے وسط میں ماسکو میں اور دوسری ہارٹ آف ایشیا... استنبول پروسیس کانفرنس دوشنبے‘ تاجکستان میں۔ طالبان نے ماسکو کانفرنس میں حصہ لیا۔ دونوں کانفرنسوں میں رہنماؤں نے افغانستان میں داخلی امن قائم کرنے اور طویل مدتی سیاسی سمجھوتے کی ضرورت پر زور دیا‘ لیکن کابل حکومت اور طالبان کی سوچوں میں موجود اختلافات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر مشترکہ حکمرانی اور داخلی امن کیلئے کابل حکومت اور طالبان کے مابین کوئی معاہدہ نہ ہوا ہے تو افغانستان کے شدید خانہ جنگی کے ایک اور مرحلے میں پھنس جانے کا اندیشہ ہے، جس کے پڑوسی ریاستوں بالخصوص پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان اس مسئلے پر طالبان رہنماؤں کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے؛ تاہم جب سے طالبان کو سیاسی معاملات چلانے کیلئے دوحہ جیسی محفوظ جگہ دستیاب ہوئی ہے، ان کے پاکستان سے تعلقات کم ہو گئے ہیں۔ اب ایسی سہولیات کیلئے ان کا خصوصی طور پر پاکستان پر انحصار نہیں رہا‘ لیکن امریکی حکومت پاکستان کے کردار کے حوالے سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور طالبان پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں پاکستان کی حقیقی کوششوں کے بارے میں شکوک کا شکار ہے۔ دراصل بھارت اور کابل حکومت‘ دونوں امریکہ کو پاکستان کے خلاف ورغلا رہے ہیں۔ وہ امریکہ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان اب بھی طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ چونکہ یہ موقف اپنانے سے امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی چھپانے میں مدد ملتی ہے، لہٰذا وہ پاکستان سے افغان طالبان کے ساتھ معاملات کیلئے ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ چند روز پہلے امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے آرمی چیف سے فون پر بات کی۔ بعد ازاں، اسلام آباد میں سینئر ترین امریکی سفارتکار نے آرمی چیف سے ملاقات کی۔ دونوں نے افغانستان میں ابھرتی صورتحال پر بات چیت کی۔
خدشہ ہے کہ خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے مزید افغان مہاجرین پاکستان داخل ہوں گے۔ چونکہ ستمبر کے بعد کے عرصے میں افغان حکومت طالبان کے حملوں کی مزاحمت میں مشکلات کا شکار ہے؛ چنانچہ وہ یہ دعویٰ کرکے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرے گی پاکستان طالبان کی مدد کررہا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بھارت کی جانب سے توثیق کی جائے گی جس کی اپنی الگ وجوہات ہیں۔ امریکی حکومت‘ جو ہمیشہ پاکستان کی افغانستان پالیسی پر تحفظات کا شکار رہی ہے‘ افغان حکومت اور بھارت کی افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت پر توجہ دے گی؛ چنانچہ امریکی حلقوں کی طرف سے پاکستان ایک بار پھر تنقید کی زد میں آئے گا۔
پاکستان کو چین، روس اور ترکی کے ساتھ قریبی تعاون کے ساتھ افغان ایشو پر سفارتکاری کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس سفارتی سرکٹ میں قطر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک مشترکہ نقطہ نظر پاکستان کوافغانستان، بھارت اور امریکہ کی جانب سے ڈالے گئے دبائو کا سامنا کرنے کے قابل بنائے گا۔ امریکی اور نیٹو کے ارکان سکیورٹی کے نظام اور انتظامیہ کو برقرار رکھنے کیلئے کابل کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ انخلا کے بعد کے دور میں افغانستان کو اس طرح کی مالی مدد کی ضرورت ہو گی لہٰذا امریکہ اور نیٹو ممالک کو اس سفارتی معاملے کو کابل حکومت کو اس بات پر رضامند کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے کہ درمیانی راستہ اور سازگار انداز اپنانا طالبان کے ساتھ لڑنے پر اصرار جاری رکھنے کی نسبت بہتر امکانات کا حامل ہے۔
ستمبر کے بعد کی مدت میں بھارت افغانستان میں قیام امن کے لئے کوئی بھی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس کی طالبان تک رسائی نہیں ہے جو لگتا ہے کہ خود بھی بھارت کے ساتھ کام کرنے پر رضا مند نہیں ہیں۔ بھارت کی پالیسی کابل حکومت کی حمایت کرنا ہے اور خدشہ یہ ہے کہ وہ کابل حکومت کو طالبان اور ان ممالک کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیتا رہے گا۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ بھارت افغانستان میں داخلی امن کے امکانات کو ختم کرنے کی کوششیں کرے۔ پاکستان کی سفارتی مہارت کو جلد ہی افغانستان کے بارے میں ایک نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مسئلے پر اسے چین، روس، ترکی اور قطر کے تعاون سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ پاکستان پر مزید کچھ کرنے کا دبائو ڈال کر افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ افغانستان میں امن کیلئے اسے پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔