"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان، وسطی ایشیا، امریکہ اور مسئلہ افغانستان

وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ تاشقند (15 اور 16 جولائی) کے دوران پاکستان اور ازبکستان نے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے افغانستان کی صورتحال پر بھی بات کی کیونکہ افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین داخلی کشمکش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ افغانستان کی صورتحال پر ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں‘ جیسے ازبکستان اور تاجکستان‘ کے خدشات پاکستان کے خیالات سے مختلف نہیں ہیں۔ یہ ریاستیں اور پاکستان‘ افغانستان میں پُرامن داخلی سیاسی تصفیہ چاہتے ہیں۔
پاکستان کی طرح ازبکستان اور تاجکستان بھی اپنے علاقوں میں افغانستان کے داخلی تنازع کے منفی اثرات پر پریشان ہیں۔ پہلے ہی کچھ افغان مہاجرین تاجکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر افغانستان میں موجودہ تنازع بڑھتا ہے تو اندیشہ ہے کہ چار پڑوسی ریاستوں تاجکستان، ازبکستان، ایران اور پاکستان میں بھی افغان مہاجرین بڑی تعداد میں داخل ہوں گے۔ کچھ افغان مہاجرین ترکمانستان بھی جا سکتے ہیں‘ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ زیادہ تر مہاجرین پاکستان اور ایران میں داخل ہوں گے۔ ماضی میں بھی یہی ہوا تھا۔ پاکستان کو گزشتہ چالیس برسوں کے اپنے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے افغان مہاجرین سے نمٹنے کی ضرورت ہوگی۔ انہیں کچھ خاص علاقوں‘ ریفیوجی کیمپوں تک محدود رکھنے کی ضرورت ہے‘ بجائے اس کے کہ انہیں پاکستان بھر میں کہیں بھی جانے کی اجازت دے دی جائے، جیسا کہ ماضی میں کیا گیا تھا؛ تاہم اس پالیسی پر عمل درآمد پاکستان کیلئے مشکل ہوگا۔ کچھ افغان مہاجرین کے رشتے دار پاکستانی شہری کی حیثیت سے ملک کے مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں‘ کچھ دوست اور رشتے دار یہاں بطور پناہ گزین مقیم ہیں۔ نئے مہاجرین پاکستان میں اپنے تعلق داروں کے پاس جانا چاہیں گے‘ لہٰذا نئے افغان مہاجرین کو پاک افغان سرحد کے قریب پناہ گزین کیمپوں میں محدود رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
چونکہ کابل حکومت کو افغان طالبان کے چیلنج سے نمٹنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، لہٰذا اندیشہ ہے کہ وہ اپنی ان پریشانیوں کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کردے گی۔ پہلے ہی کابل حکومت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان‘ افغان حکومت کے خلاف فوجی مہم میں افغان طالبان کی مدد کررہا ہے۔ الزام تراشی کا یہ کھیل شدت اختیار کر سکتا ہے کیونکہ کابل حکومت کے سکیورٹی مسائل میں اضافہ ہونے کے خدشات ہیں۔ بھارت ان افغان دعووں کو بین الاقوامی سطح پر پھیلائے گا کیونکہ اس سے بھارت کو کابل حکومت کی حمایت حاصل کرنے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
اب تک، امریکہ پاکستان کی طرف اعتدال پسندانہ روش برقرار رکھے ہوئے ہے؛ تاہم اگر کابل حکومت پر افغان طالبان کا دباؤ بڑھتا ہے اور وہ کابل کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو امریکہ افغانستان میں ریموٹ کنٹرول فوجی کارروائی کا سہارا لے سکتا ہے۔ ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کیلئے امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ ہنگامی صورتحال میں اپنے ڈرونز استعمال کرنے یا طیاروں کی پرواز کیلئے ایسی کوئی سہولت وہ ممکنہ طور پر بلوچستان میں چاہے گا کیونکہ یہ صوبہ افغانستان کی سرحد کے قریب ہے۔ اگر پاکستان نے ایسی سہولت فراہم کی تو اس کو افغانستان کی داخلی جنگ میں ایک امریکی اتحادی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ امریکہ کیلئے اس کے دو متبادل ہیں: تاجکستان اور ازبکستان۔ ماضی میں تاجکستان نے امریکی طیاروں کو دوشنبے کے قریب ایک ایئربیس پر ایندھن کی ری فلنگ کی اجازت دی تھی۔ امریکی طیاروں نے 2001 تا 2005 ازبکستان میں ایک ایئربیس بھی استعمال کی تھی؛ تاہم اب یہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ روس تاجکستان اور ازبکستان کے جانب سے امریکہ کو ایسی کسی بھی سہولت کی فراہمی کی مخالفت کرے گا۔ اگر امریکہ اومان یا کسی دوسرے خلیجی ملک کو ڈرون طیارے کے اڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اس کے طیاروں کو افغانستان میں اپنے اہداف تک پہنچنے کیلئے طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ ان ڈرونز کو افغانستان میں داخل ہونے کیلئے ایران یا پاکستان کے اوپر سے گزرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں فوجی سرگرمیوں کیلئے اپنا کوئی بھی ہوائی اڈا امریکہ کو دستیاب نہیں کرے گا۔ لیکن اگر افغانستان میں صورتحال بگڑتی ہے تو امریکہ اپنے طیاروں/ ڈرونز کیلئے فضائی راستہ یا افغانستان کی سرحد کے قریب ایک ایئرپورٹ کی سہولت حاصل کرنے کے حوالے سے پاکستان پر سفارتی یا معاشی دبائو ڈال سکتا ہے۔ پاکستان کو ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ امریکہ اور افغانستان بھارت کی مدد سے پاکستان کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مہم بھی چلاسکتے ہیں۔ پاکستان نے اب تک افغانستان میں اندرونی تنازع کے بارے میں غیر جانب دارانہ روش برقرار رکھی ہے۔ اس نے طالبان کو امریکہ اور بعد ازاں کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ترغیب دی‘ تاہم کابل حکومت اور امریکہ کو یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے طالبان کو کابل حکومت کی شرائط قبول کرنے پر مجبور کرے گا۔ پاکستان کا طالبان پر محدود اثرورسوخ ہے۔ یہ ان پر کسی قسم کی شرائط مسلط نہیں کرسکتا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب امریکہ اور نیٹو نے اپنی افواج واپس بلا لی ہیں اور افغان طالبان کو اپنی فتح قریب نظر آرہی ہے۔ ایسے مرحلے پر حقیقت میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی سوچ ہی صورتحال بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ افغان طالبان مستقبل کے کسی بھی سیٹ اپ میں اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھیوں کو جگہ نہیں دیں گے؛ تاہم اگر امریکہ اشرف غنی کی قربانی دینے پر رضامند ہو جائے یاغنی رضاکارانہ طور پر حکومت چھوڑنے پر آمادہ ہو جائیں تو حالات میں بہتری آسکتی ہے، لیکن حتمی کامیابی کی ضمانت پھر بھی نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان افغانستان میں امن کا حامی ہے کیونکہ پاکستان ماضی سے سبق حاصل کر چکا ہے کہ افغانستان میں پارٹنرشپ کی پالیسی مدد نہیں دیتی۔ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ اس سے وسطی ایشیا، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھانے میں مدد ملے گی۔
جو بھی ہو، پاکستان کو پروپیگنڈا کرکے شکست خوردہ کابل حکومت کی حمایت کیلئے ڈرایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے خلاف افغان پروپیگنڈا یہاں ان شدت پسند عناصر کی مدد کرتا ہے جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ اسے ان کی مدد کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ وہ ان کی حمایت نہیں کررہا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں 25 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیررجسٹرڈ مہاجرین مقیم ہیں۔ یہ سبھی کابل حکومت کی حمایت نہیں کرتے۔ ان میں سے بیشتر افغانستان میں امن چاہتے ہیں چاہے وہاں کوئی بھی حکمران ہو۔
پاکستان افغانستان کی داخلی صورتحال کے حوالے سے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے؛ البتہ اگر کابل حکومت پھر بھی پاکستان کو پارٹنرشپ کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے تو یہ کابل حکومت کی پالیسیوں میں موجود خامیوں پر پردہ ڈالنے کی بیکار کوشش کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ کابل حکومت کو افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد والی ریاستوں‘ بشمول چین اور روس‘ کے تعاون سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغان طالبان کے ساتھ مل کر امن اور استحکام تلاش کیا جا سکے۔ کوئی دوسری حکمت عملی افغانستان میں تنازع کو شدید کردے گی، افغان عوام کے مصائب کو کئی گنا بڑھا دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں