"HAC" (space) message & send to 7575

عالمی سیاست کے موجودہ مسائل

20 جنوری 2021 کو جو بائیڈن کے امریکہ کا صدر بننے سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کی انتظامیہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی سے الگ راستہ اختیار کرے گی اور عالمی سطح پر امریکی امیج اور کردار کو بہتر بنانے کیلئے کام کرے گی۔ ایسا نہیں ہو سکا‘ کیونکہ صدر بائیڈن نے اپنے پیشرو سے وراثت میں ملنے والی خارجہ پالیسی کے کچھ اہم معاملات کو آگے بڑھایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین اور اس کے عالمی اقتصادی رابطے کیلئے وضع کئے گئے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو‘ کے بارے میں سخت رویہ اپنایا۔ یہ پالیسی پچھلے ایک سال کے دوران مزید سخت ہو گئی ہے کیونکہ امریکہ اب چین کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کیلئے اس خطے میں اور خطے سے باہر کے ممالک کو پروان چڑھا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا دسمبر کے وسط میں جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک کا دورہ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ یہ اقدام برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے ساتھ تجدیدِ شراکت داری کے علاوہ ہے۔ چین پر امریکی تنقید بنیادی طور پر سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے حالات پر مرتکز ہے۔ امریکی کانگریس نے چین کے خلاف کچھ پابندیوں کی منظوری دی جن کے بارے میں امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایغوروں کے حقوق سے انکار کی وجہ سے ہیں۔ دوسرا مسئلہ جو امریکہ نے اٹھایا‘ ہانگ کانگ میں سیاسی آزادی کا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں نے ہانگ کانگ میں سخت قوانین کے نفاذ پر اعتراض کیا ہے۔ وہ حالیہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں؛ تاہم چین اور امریکہ کے مابین تجارتی اور سرمایہ کارانہ روابط کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ کی ایک حد بھی ہے۔ چین نے امریکہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور کئی امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی چین میں سرمایہ کاری ہے۔ یہ دوطرفہ تجارت کے علاوہ ہے۔ چینی اشیا امریکی منڈیوں میں دستیاب ہیں؛ تاہم چین اور امریکہ کے مابین سخت بات چیت جاری رہتی ہے جو انکے تعلقات میں سنگین سفارتی تناؤ کا باعث ہے۔
روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بھی مسائل کا تسلسل ہے۔ موجودہ کشیدگی بنیادی طور پر یوکرائن کی وجہ سے ہے۔ روس نے وہاں اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے یوکرائن کے ساتھ اپنی سرحد پر بڑی تعداد میں فوجی تعینات کررکھے ہیں۔ یوکرائن کا مسئلہ فروری 2014 میں شروع ہوا جب کچھ روسی فوجیوں نے یوکرائن کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا‘ جہاں غالب آبادی کا پس منظر روسی ہے۔ بعد ازاں روس نے کریمیا پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے روس اور یوکرائن کے مابین سفارتی اور فوجی کشیدگی برقرار ہے اور یوکرائن نے خود کو مزید روسی مداخلت سے بچانے کیلئے مغرب کی سفارتی مدد طلب کرلی ہے۔ امریکہ نے روس کو یوکرائن میں کسی بھی فوجی مداخلت کے خلاف سخت وارننگ دی ہے۔ اس نے روس سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ یوکرائن کی سرحد سے اپنی فوجیں واپس بلائے۔ یوکرائن کی جانب سے روس کی دبنگ پالیسیوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کے ایک حصے کے طور پر یورپی‘ امریکی سکیورٹی نیٹ ورک میں شمولیت کی کوششوں پر روس نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وہ یوکرائن کے مغرب کی جانب جھکائو کو نیٹو تنظیم کو روس کی سرحد تک لانے کی امریکی عالمی سیاست کا حصہ سمجھتا ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے اگر یوکرائن نیٹو میں شامل ہو جائے یا اس کے ساتھ مضبوط سکیورٹی تعلقات استوار کر لے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ مشرقی یورپ میں نیٹو کی سرگرمیاں ترک کر دے، اور یوکرائن آنے کی بات نہ کرے۔
چین اور روس پر امریکی دباؤ نے ان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ چین اور روس کے صدور نے 15 دسمبر 2021 کو ایک آن لائن کانفرنس کی تھی جس میں دونوں نے اپنے خلاف امریکی پالیسیوں پر اظہار خیال کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ چین اور روس امریکی سفارتی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔
روس اور چین کا یہ بھی خیال ہے کہ دسمبر 2021 میں امریکی صدر کی جانب سے منعقدہ ورچوئل ڈیموکریسی سمٹ انہیں الگ تھلگ کرنے اور امریکی جمہوری اقدار کو عام کرنے کی ایک کوشش تھی۔ دونوں ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے ساتھ سفارتی روابط اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کریں گے۔ یہ بھی توقع ہے کہ چین ایشیا اور افریقہ میں اقتصادی شراکت داری بڑھانے کے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو پر زیادہ توجہ دے گا۔
امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے اور ایران کے خلاف امریکہ اور اقوام متحدہ کی پابندیاں جاری ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ کا ایران اور یورپی ریاستوں کے درمیان جاری مذاکرات کے ساتھ ایک سمجھدارانہ تعلق ہے تاکہ 2015 کے ایران امریکہ معاہدے کو بحال کرنے کی کوئی راہ نکالی جا سکے۔ یاد رہے کہ 2015 کا یہ جوہری معاہدہ صدر ٹرمپ نے 2017 میں منسوخ کر دیا تھا۔ ان مذاکرات کا آٹھواں دور 27 دسمبر 2021 کو شروع ہوا تھا۔ اگر یورپی ریاستوں‘ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور ایران کے درمیان یورینیم کو ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ کرنے کی ایرانی خواہش پر قابو پانے کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو توقع ہے کہ امریکہ 2015 کے ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے پر متفق ہو جائے گا‘ تاہم ایران نے ہچکچاتے ہوئے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو اپنی یورینیم افزودگی کی سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے نئے کیمرے نصب کرنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ امریکہ کو پختہ ضمانت درکار ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔ دوسری جانب ایران 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرانے کے حوالے سے بامعنی مذاکرات کے لیے اپنے خلاف اقوام متحدہ اور امریکہ کی پابندیوں کو واپس لینے پر اصرار کرتا ہے۔
ایرانی جوہری مسئلے کا ایک اسرائیلی پہلو بھی ہے۔ اسرائیل اکثر ایران کی جوہری تنصیبات کیخلاف فوجی کارروائی کی بات کرتا ہے۔ اسرائیل کی متحدہ عرب امارات اور بحرین تک رسائی ایران کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف فوجی کارروائی کی تو خلیجی خطے میں امن و استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ صورتحال یورپی ریاستوں کی طرف سے جوہری مسئلے کے سفارتی حل کی کوششوں کو ناکام بنا دے گی۔ 2021 کے اواخر میں امریکہ، چین، روس، ایران اور اسرائیل کے معاملات‘ اور خلیجی خطے میں کشیدگی کے سنگین مسائل موجود تھے۔ یہ اندیشہ نہیں کہ ان معاملات کی وجہ سے کوئی عالمی سطح کا فوجی تصادم ہو جس میں ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف چین اور روس ہوں؛ تاہم ان کے درمیان مسلسل کشیدگی عالمی امن اور استحکام کیلئے اچھی خبر نہیں۔
چین کے ساتھ پاکستان کے فعال تعلقات اور چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ جسے امریکی پالیسی ساز مسترد کرتے ہیں‘ کی وجہ سے اس طرح کی پریشان کن عالمی اور علاقائی صورتحال پاکستان کو امریکی دباؤ کے سامنے ایکسپوز کرتی ہے۔ امریکہ کی بالواسطہ حکمت عملی ہے کہ وہ پاکستان پر اقتصادی، سیاسی اور خارجہ پالیسی کے ایشوز، خاص طور پر انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی طرف سے پاکستانی سرزمین کے استعمال، افغانستان، اقلیتوں، اور سیاسی آزادی جیسے معاملات اٹھا کر دباؤ ڈالتا ہے۔ پاکستان کی بحران زدہ معیشت اسے قرض دہندگان کے مطالبات کے سامنے بھی ایکسپوز کرتی ہے، جس کی وجہ سے غیر مغربی بڑی طاقتوں کے ساتھ وسیع تعلقات کا تجربہ کرنا اس کے لئے ایک مشکل کام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں