اگر ہم گزشتہ بیس برس کی عالمی سیاست کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صرف ان ممالک نے ہی نمایاں ترقی کی ہے جنہوں نے معیشت کے میدان میںسخت محنت کی ہے۔ ان ممالک نے سب سے زیادہ توجہ انسانی وسائل کی ترقی پر دی اور ان کا سارا فوکس علم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی پر رہا۔ جن ممالک نے اس حکمت عملی کو اختیار نہیں کیا انہیں سماجی اور معاشی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
آج کی دنیا سرد جنگ والے دور سے بہت آگے نکل گئی ہے اور اس کا آغاز 1989-90ء میں مشرقی یورپ کے ممالک کی آزادی اور دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ہوا تھا۔ سرد جنگ کے بعد ایک ایسے دور کا آغاز ہوگیا جس میں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر سامنے آیا‘ جو اس کامیابی کو مغربی لبرل جمہوریت کی فتح سے تعبیر کرتا تھا جس میں سرمایہ دارانہ معیشت عالمگیریت کے نام سے منصۂ شہود پر آئی۔جب یہ بین الاقوامی نظام اکیسویں صدی میں داخل ہوا تو امریکی عروج اور بالادستی کو پہلے تو بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں شدید دھچکا لگا اور پھر عالمی نظام میں طاقت کے توازن میں بتدریج تبدیلی نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔ امریکی بالا دستی اس لیے روبہ زوال ہوئی کیونکہ دنیا ایک ایسی کثیر قطبی سمت میں گامزن ہو گئی جہاں طاقت کے کئی مراکز تھے اور جنہیں عالمی امور نمٹانے میں متحرک کرنے کی ضرورت تھی۔
امریکا نے اپنی طاقت ور ترین عسکری اور معاشی قوت کی حیثیت برقرار رکھی۔ تاہم اس کی عالمی بالا دستی قائم رکھنے کی استعداد بری طرح متاثر ہوئی چنانچہ اپنے عالمی ایجنڈا کو بروئے کار لانے کے لیے اسے طاقت کے نئے مراکز کو بھی اپنی سپورٹ میں متحرک کرنا پڑا۔ یہیں سے سرد جنگ کے بعد کا دور شروع ہوتا ہے جس نے تین دیگر اصول بھی متعین کردیے۔ اب عالمی سیاست کا فوکس معاشی امور کی طرف مڑگیا جن میں اقتصادی روابط‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ بین العلاقائی اور بین الا اقوامی تعاون شامل تھا۔ مختلف ممالک نے اپنے اندر سے ہی طاقت پکڑنا شروع کر دی اور صرف اسی ریاست کو نمایاں اہمیت حاصل ہوئی جس کی معیشت مستحکم‘ وسعت پذیر تھی اور جن ممالک میں داخلی سطح پر سماجی اور سیاسی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ عہد حاضر کی عالمی سیاست کا ایک اور طرئہ امتیاز جامع سکیورٹی کا تصور ہے۔ بالفاظ دیگر ریاستی سرحدوں کے عسکری تحفظ کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ انسانی ترقی اور سماجی بہتری کی طرف بھی بھرپور توجہ دیں گے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی داخلی ہم آہنگی اور استحکام کے لیے بنیادی سروسز مہیا کرے جس کے نتیجے میں ریاست کی بیرونی دبائو برداشت کرنے کی استطاعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک اہم تبدیلی یہ بھی ہوئی ہے کہ دنیا کی توجہ شمالی امریکا اور یورپ سے ہٹ کر ایشیا اور بالخصوص ایشیا پیسیفک ریجن کی طر ف مرکوز ہو گئی ہے۔ ایشیائی ریجن میں وہ ممالک شامل ہیں جنہوں نے معیشت کے میدان میں پچھلے تین عشروں میں نمایاں ترقی کی ہے۔
سرد جنگ کے بعد کے دور میںتبدیل شدہ سیاسی صورت حال کو برقرار رکھنے میں جس اہم فیکٹر نے کردار ادا کیا ہے وہ عالمی امور میں چین کا روز افزوں کردار ہے۔ ایسا تبھی ممکن ہو سکا جب چین نے 1978ء کے بعد اپنی داخلی معیشت کے خدو خال میں بنیادی تبدیلیاں کیں اور ڈینگ ژیاؤ پنگ نے 1978ء میںچین کو چار طرح کی جدیدیت کی راہ پر گامزن کیا اور اس کے نتیجے میںمائو، چو این لائی عہد کے معاشی منصوبوں میں شاندار ترقی دیکھنے کو ملی۔ اس اساسی تبدیلی کے بعد چین کی داخلی معیشت میں نمایاں بہتری نظر آئی اور اس کی ساری توجہ انسانی فلاح و بہبود کی طرف مڑگئی جس نے اس کی آبادی کو ترقی کے ہتھیار میں تبدیل کر دیا۔
چین نے معاشی ترقی کی غرض سے مختلف ریجن کے ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ یہ2013ء کا زمانہ تھا جب صدر شی جن پنگ نے دنیا کے سامنے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا تصور پیش کیا تھا۔ چین نے بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ سڑکوں‘ ریل لنکس اور بحری روٹس کا وسیع تر نیٹ ورک تعمیر کیا تاکہ مختلف ممالک کی جغرافیائی سرحدو ں کے آر پار اشیائے صرف‘ سروسز‘ ٹیکنالوجی اور عوام کی آسان آمد و رفت اور نقل و حمل کو ممکن بنایا جا سکے۔ ان 6روٹس کا حقیقی مقصد معاشی تعاون اور ترقی کے لیے تجارت‘ سرمایہ کاری کے علاوہ علم اور ٹیکنالوجی کے ایکسچینج کی مدد سے انٹر ریجن اشتراکِ عمل کو فروغ دینا تھا۔ مختلف ریجنز کی ریاستوں کو معاشی اشتراک اور تعاون کے ذریعے ایک دوسر ے کے قریب لانے کے لیے یہ ایک منفرد حکمت عملی تھی جو سرد جنگ کے دور کی انٹر ریجن تعاون کی حکمت عملی سے یکسر مختلف اور منفرد نظر آئی۔ جوں ہی کسی ملک کی معیشت‘ انسانی فلاح و بہبود اورباقی دنیا کے ساتھ معاشی تعلقات کو اہمیت حاصل ہوئی تو ساری توجہ چین اور ایشیا پیسفک ریجن میں واقع ممالک کی جانب مبذول ہوگئی جنہوں نے انسانی وسائل کی ترقی اور معاشی میدان میں ناقابلِ یقین پراگرس دکھائی تھی۔ چین کی اہمیت اور ایشیا پیسیفک ریجن کے ممالک کی نمایاں معاشی ترقی نے بہت سے تجزیہ کاروں کو 21ویں صدی کو 'چین کی صدی‘ یا 'ایشیا کی صدی‘ کہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
چین نے عالمی سیاست میں نمایاں مقام کے حصول کے لیے معاشی اشتراک اور تعاون کی پالیسی اپنائی جس کا ایک مقصد اپنی معیشت کو بہتر بنانے میں ان ممالک کا ہاتھ پکڑنا بھی تھا۔ اس پالیسی سے امریکا کو شدید تکلیف ہوئی کیونکہ امریکی قیادت اسے عالمی سیاست میں امریکا کے مقام اور کردار کے لیے ایک سنگین چیلنج سمجھنے لگی۔ چنانچہ اس نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت‘ آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل ایک نیا گروپ تشکیل دیا۔ برطانیہ نے بھی اس گروپ کو سپورٹ کرنے پر اتفاق رائے کیا ہے جس کا مقصد چین کا گھیرائو کرنا ہے۔ ان اقداما ت کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھارت اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیا پیسفک ریجن میں واقع ممالک میں اپنی دلچسپی میں بہت اضافہ کر لیا ہے۔ چین کے خلاف بھارت کے اپنے مفادات اور تحفظات ہیں چنانچہ وہ اس چین مخالف عالمی سیاست میں ان کی اعانت کر رہا ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم روٹ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ہے جس کا آغاز 2015 ء میں ہوا تھا۔ اس کوریڈور کی تکمیل ہونے سے چین کو سنکیانگ ریجن کی سڑک کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی ممکن ہو جائے گی جسے بڑی تیزی سے ایک بین الاقوامی بندرگا ہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں اس پروجیکٹ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سی پیک چین اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے منفعت بخش پروجیکٹ ہے۔ اس کی مخالفت کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے اس کوریڈور اور اس سے منسلک ڈیویلپمنٹ پروجیکٹس کو تیزی سے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم کام یہ ہے کہ اس سے جڑے موجودہ اور مستقبل کے پروجیکٹس کی وسیع پیمانے پر پبلسٹی کی جائے تاکہ پاکستان کے عوام کوآگاہی ہو سکے کہ یہ کوریڈور پاکستان کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔آخری بات یہ کہ جن جن علاقوں سے سی پیک کی سڑکیں گزریں گی وہاں کے مقامی باسیوں کی سپورٹ حاصل کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام کو اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ جان لینا چاہیے کہ مستقبل میں اس کوریڈور کے معاشی فوائد سے سب سے زیادہ وہی مستفید ہوں گے۔ مقامی آبادی خاص طور پر گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل فوری طور پر حل کرنے پر توجہ دی جائے۔ مقامی سپورٹ کے بغیر اس پروجیکٹ کی راہ میں بہت سے مشکلات پیدا ہوں گی۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے منسلک تما م پروجیکٹس کی تکمیل کے لیے مقامی سپورٹ ناگزیر ہے۔