"HAC" (space) message & send to 7575

عالمی نظام میں پاکستان کے آپشنز

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں عالمی سیاست پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور کثیر جہتی ہو چکی ہے۔ سیاست کے بہت سے پرانے تصورات جو سرد جنگ کے دور کی سیاست کی وضاحت کرتے تھے اب بے کار ہو چکے ہیں۔ تاہم‘ بہت سے رہنما اور تجزیہ کار سفارتی محاورے کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں جو آج کی عالمی سیاست میں عملی اہمیت کھو چکے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک جو بین الاقوامی نظام پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں انہیں ان تبدیلیوں کو سمجھنے اور نئے مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سیاست میں کسی ملک کی اہمیت کا معیار سرد جنگ کے دنوں سے مختلف ہو چکا ہے۔ اگر کوئی ملک عالمی سیاست میں کسی اقدام کے ساتھ ایک فعال کھلاڑی بننا چاہتا ہے تو اس کی قیادت کو ان اوصاف کی آبیاری کے لیے کام کرنا چاہیے جو موجودہ بین الاقوامی نظام میں کسی ملک کی مطابقت کو بڑھاتے ہیں۔اکیسویں صدی کی مختلف عالمی سیاست کی جڑیں سرد جنگ کے خاتمے اور دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح کا متزلزل عالمی طاقت کا ڈھانچہ رفتہ رفتہ ایک کثیر قطبی دنیا میں بدل گیا جہاں امریکہ مسلسل سب سے زیادہ طاقتور فوجی اور اقتصادی طاقت رہا لیکن عالمی نظام میں کئی خود مختار طاقت کے مراکز ابھرے جنہوں نے امریکہ کے لیے ٹھوس سیاسی منافع حاصل کرنا مشکل بنا دیا۔ اس کی فوجی اور اقتصادی برتری سے۔افغانستان اور عراق نے امریکہ کی فوجی رسائی کا مظاہرہ کیا تاہم‘ افغانستان اور عراق میں حملے کے بعد کے مسائل‘ خاص طور پر ان کے اندرونی انتشار نے ظاہر کیا کہ فوجی رسائی ضروری نہیں کہ سیاسی فتح کو یقینی بنائے۔ اسی طرح شام‘ یمن اور لیبیا میں ہونے والی اندرونی جنگوں نے ظاہر کیا کہ عالمی یا علاقائی طور پر کوئی ممتاز طاقت خانہ جنگی کے نتائج کو اپنے فائدے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ 21ویں صدی میں دیگر ریاستوں کے بتدریج عروج‘ پیچیدہ سماجی و اقتصادی مسائل کے ابھرنے‘ کچھ ریاستوں میں اندرونی انتشار اور بین الاقوامی دہشت گردی کے چیلنجز کی وجہ سے امریکی کردار میں کمی واقع ہوئی۔
عالمی نظام میں اب طاقت کے متعدد مراکز ہیں‘ جو اسے مزید پیچیدہ اور منتشر بنا رہے ہیں۔ کوئی ایک ریاست اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خود اس کا حکم دے سکے۔ اب کئی ریاستیں اور غیر ریاستی ادارے عالمی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ اس طرح کے پیچیدہ عالمی نظام میںکسی ریاست کی کامیابی کا انحصار دوسری ریاستوں کیساتھ کام کرنے اور ان ریاستوں کو اپنے عالمی نظریہ کے مطابق قائل کرنے پر ہے۔چین اور ایشیا پیسفک خطے کی ریاستوں کا عروج ظاہر کرتا ہے کہ ریاستیں اپنی بنیادی طاقت اپنی اندرونی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی اور معاشی استحکام سے حاصل کرتی ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں ریاست کی معاشی اور سیاسی طاقت اسے دو فائدے دیتی ہے‘ پہلا یہ کہ ایسا ملک بیرونی سفارتی اور فوجی دباؤ کو برداشت کر سکتا ہے۔ دوسرا‘ معاشی استحکام اور ملکی سیاسی ہم آہنگی عالمی سطح پر فعال ہونے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔ دوسری ریاستیں ایسی ریاست کی پالیسیوں پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ ایسی ریاست کے لیے عالمی سطح پر شراکت داری قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے جس سے اس کی سفارتی صورتحال مضبوط ہوتی ہے۔ علاقائی اور عالمی امور پر اس کے خیالات ریاست کی پالیسیوں سے زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں جس کی معیشت تباہی کا شکار ہے اور اس کی سیاست تنازعات اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ اندرونی سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام بھی ریاست کے لیے دو طرفہ اور کثیرالجہتی اقتصادی نیٹ ورکس میں شامل ہونا اور باقی دنیا کے ساتھ مثبت اور فائدہ مند تعامل کو فروغ دینا آسان بناتا ہے۔ ایسی ریاست کی سیاسی اور اقتصادی مطابقت دوسری ریاستوں کے لیے بڑھ جاتی ہے جو تجارت‘ سرمایہ کاری اور علم و ٹیکنالوجی کی منتقلی پر مشتمل معاشی تعلقات استوار کرنا چاہتی ہیں۔
کسی بھی ریاست کا سفارتی کردار اس صورت میں زوال پذیر ہوتا ہے جب اسے وقتاً فوقتاً اندرونی کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا مسابقتی گھریلو گروہ ایک دوسرے کو سیاسی دائرے سے ختم کرنے کی جدوجہد میں مسلسل مصروف رہتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جو سیاسی تعطل‘ سیاسی اور آئینی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کی معیشت اتنی کمزور ہے کہ اس کی سفارت کاری بنیادی طور پر مالیاتی گرانٹس اوربیرون ملک سے قرضے حاصل کرنے پر مرکوز ہے تاکہ اس کی معیشت کو رواں دواں رکھا جا سکے یا پھر وہ قرضوں کی جدید کی طرف جائے کیونکہ وہ واپس نہیں کر سکتی۔ اگر اس کی زراعت اپنے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اتنی پیداوار نہیں دے سکتی اور صنعت و تجارت کے شعبے مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہے اور عالمی سطح پرمقابلہ کرنے میں ناکام رہے تو معیشت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ ایسی ریاستیں بین الاقوامی سطح پر فعال کھلاڑی نہیں ہو سکتیں اور بین الاقوامی سیاست میں خود مختاری کا استعمال نہیں کر سکتیں۔موجودہ عالمی سیاست کی ایک اور اہم خصوصیت جامع سکیورٹی کا تصور ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی ملک کے پاس دشمن کو کسی بھی فوجی مہم جوئی سے روکنے کے لیے مضبوط فوجی سکیورٹی ہو۔ تاہم‘ سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ‘ کسی ملک کو انسانی بہبود اور سماجی تحفظ پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ریاست کو تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ شہری سہولیات کی فراہمی‘ گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی پر وسائل خرچ کرنے چاہئیں۔ سیاسی نظام کی بنیاد عوام کے خلاف ریاستی آلات کے بے تحاشا استعمال سے پیدا ہونے والے خوف کی بجائے عوام کی رضامندی پر ہونی چاہیے۔ عوام کو اپنے تجربے سے سیکھنا چاہیے کہ حکمرانی کا نظام اور ریاستی مشینری نمائندہ آئینی نظام کے دائرے میں رہ کر ان کی خدمت کرنا ہے۔
اندرونی سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام کسی بھی ریاست کے لیے ضروری ہے جو عالمی سطح پر عزت سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے اور عالمی اور علاقائی معاملات میں ایک فعال کھلاڑی کے طور پر کام کرنا چاہتی ہے۔ ایک مستحکم سیاسی اور اقتصادی صورتحال ان ممالک کو سب سے زیادہ درکار ہے جن کے قریبی پڑوسی ریاست کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات ہیں اور جو حجم‘ وسائل اور فوجی طاقت میں بھی اس سے بڑی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی طاقت‘ فوجی تیاری اور ریاست کی سخت اور نرم طاقت کا امتزاج علاقائی طور پر طاقتور ریاستوں کے خلاف بہترین حفاظت ہے‘ جو اپنے قریبی پڑوس میں اپنی فوجی اور اقتصادی برتری کا دعویٰ کرتی ہیں ۔
پاکستان ہمیشہ عالمی اور علاقائی سطح پر فعال حمایت کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اسے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں مسلسل مسائل کا سامنا ہے۔ یہ اکثر بھارت کے ساتھ اپنے مسائل‘ خاص طور پر مسئلہ کشمیر‘ دریائی پانی کے مسائل اور بین الاقوامی دہشت گردی کے بارے میں عالمی برادری کے غیر منصفانہ رویہ کی شکایت کرتا ہے۔ اگر آپ عالمی سطح پر پاکستان کے مسائل کو سمجھنا چاہتے ہیں تو مندرجہ بالا فارمولے کو پاکستان پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فارمولہ داخلی سیاسی ہم آہنگی اور سیاسی یقین کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام اور خود مختاری‘ بین الاقوامی نظام کے ساتھ مثبت مطابقت اور جامع سلامتی کے تصور کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان ان معیارات پر کہاں کھڑا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں