یہ کیسا دیس ہے جہاں 90فیصد آبادی پر مشتمل محروم طبقے کا ہر فرد بدیسی ہونے کا خواہاں ہے۔معیشت برباد ہے۔ زندگی نادار ہے۔ رہنا دشوار ہے۔ جینا محال ہے۔ پورے معاشرے کی روح اور احسا س مفلسی کا شکار ہے۔ سیاست ایک فریب ہے۔ریاست جبر کا ایک ادارہ ہے۔غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں بلکتے انسان بے یار و مددگار ہیں۔محنت کشوں پر عذاب ہی عذاب ہے۔ نوجوان پراگندگی اور بیزاری کے بھنور میں ڈوبتے اور بھٹکتے جاتے ہیں۔خاندان اجڑ گئے ہیں۔رشتے بکھر گئے ہیں۔جذبات کھوکھلے ہو گئے ہیں۔ہر کوئی ناتواں اور پریشان ہے۔خوشیاں لٹ سی گئی ہیں۔خونریزی اور قتل و غارت کا دور دورہ ہے۔اگر کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے تو ڈرون حملوںسے پشتونخوا میں درجنوں اموات روز مرہ کا معمول ہیں۔کشمیر آزادی تو کیا روٹی سے بھی محروم ہے۔پنجاب ایک بیگار کیمپ بنتا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں ریاستی تشدد اور خانہ جنگی سے اغوا، قتل اور مسخ شدہ لاشوں کے در بدر پھینکنے کی واردات جاری ہے۔سندھ محرومی سے مزید ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ ہر طرف غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور ذلت کا طوفان ہے۔ دہشت گردی سب سے بڑا کاروبار ہے۔ محرومی اس معاشرے کی پھٹکار بن کر رہ گئی ہے۔بجلی ہے نہیں۔آئے گی بھی نہیں!پانی ترس ترس کے مشکل سے ملتا ہے۔روزگار اتنا مہنگا اور بیکار ہے کہ بیروزگاری کی اذیت سے چھٹکارا نہیں دلا سکتا۔تعلیم کا بیوپار اتنا بڑھ گیا ہے کہ عام لوگ اس قابل ہی نہیں کہ اپنے بچوں کو فراہم کر سکیں۔علاج اتنا مہنگا ہے کہ غریبوں کو اس کے حق سے ہی محروم کر دیا گیا ہے۔خواتین دہرے جبر کا شکار ہو کر مردانہ وحشت اور رجعتی قوانین کے ہاتھوں اپنی جنس کی گناہگار بن گئی ہیں۔مذہبی اقلیتیں اپنے ہونے کو کوس رہی ہیں۔مظلوم قومیتیںاپنی زبان اور ثقافت کی بقا کے لیے لڑائی میں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔زندگی! ایک جبر مسلسل ہے اور یہ پاکستان ہے۔ یہاں آمریت نہیں جمہوریت ہے۔یہاں عدلیہ آزاد ہے۔ایک آزاد قوم کتنی محکوم ہے! ملک کی سالمیت اور وقار عوام کے لیے بیکار ہے۔ اس ملک کے مالک حکمران طبقات کی حرکات سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔گرمی وہ محسوس نہیں کرتے۔ بھوک کا درد ان کو کبھی ہوا نہیں۔مہنگاعلاج ان کا مسئلہ نہیں۔ بڑی بڑی قدامت پرست یونیورسٹیوں سے وہ فارغ التحصیل ہیں۔لیکن نہ ان کی کوئی ثقافت ہے،نہ ایمان،نہ تہذیب،نہ فکراور نہ ہی کوئی مثبت سوچ۔سیاست ان کا مشغلہ ہی نہیںان کا سب سے منافع بخش کاروبار بھی ہے۔وہ لوٹتے ہیں او ر سیاست پر داؤ لگاتے ہیں۔کیونکہ دولت کے ذریعے اگر طاقت حاصل کی جاتی ہے تو دولت کے تحفظ اور لوٹ مار کے فروغ کے لیے بھی ریاستی اقتدار اور طاقت درکار ہوتی ہے۔نہ ان کا کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی اصول۔جب سیاست نظریات سے عاری ہو جائے تو پھر وہ محض ضمیر فروشی رہ جاتی ہے اور ان حکمرانوں کے ضمیرکون سے اتنے زندہ ہیںکہ ان کونیلام نہ کیا جا سکے۔ سرمائے کی اس منڈی میں ان کا کاروبار نہ کیا جا سکے۔ حکمرانوں کی اس لوٹ مار کی لڑائی میں ’نظریہ مفاہمت‘کے ذریعے صلح کروا کے سامراج نے ان کی لوٹ مار کی بندر بانٹ میں برابر حصہ داری کروانے کی کوشش کی لیکن مال بہت کم ہے اور لوٹ کی ہوس شدید۔ایسے میں وفاداریاں بدلتی ہیں کیونکہ ان کے دام بدلتے ہیں۔ہر پارٹی اقتدار میں ہے اور ہر پارٹی مزید اقتدار کی لوٹ مار کی مزید ہوس میں رونے رو رہی ہے۔ اور پھر ان پر محافظوں کی ایک ریاست بھی ہے جو خود اس سرمائے کی دلدل میں دھنستی ہوئی اپنے ہی ڈھانچوں کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی سے قومی اور فرقہ وارانہ حقارتیںجو لہو بہا رہی ہیں وہ ایک گزرے ہوئے کل کی تفریق کو آج پر مسلط کرنے کا نتیجہ ہے۔ لبرل اور سیکولر سیاست اس مغرب کی پیروکاری میں مشغول ہے جہاں نظام سرمایہ داری کا سفینہ خود یونان سے اٹلی تک اور پرتگال سے امریکہ تک ڈوب رہا ہے۔ایسے میں عوام بیزار بھی ہیں اور مضطرب بھی۔وہ برداشت بھی کر رہے ہیںاور ان سے برداشت ہو بھی نہیں رہا۔ان کی روایت نے ان سے دھوکہ کیا۔ جن کو انہوں نے اپنا جاناانہوں نے ہی ان کے چولہے ٹھنڈے کر دیے ۔ان کے بچوں کو بھوک سے مروا دیا اور ان کے بزرگوں کو وقت سے پہلے ہی زندگی سے بے نور کروا دیا۔لیکن یہ سب کچھ کب تک اور کہاں تک چلے گا؟ آنے والے انتخابات سے حکمرانوں کی ’’مخلوط‘‘ حکومتوں کے حصہ داروں میں تواضافہ ہو سکتا ہے،ان کی نئی گروہ بندیاں اقتدار کے ذریعے لوٹ مار کا کھلواڑ تو شروع کر سکتی ہیں،لیکن عوام کے حالات نہیں بدلیں گے۔ ان کے نظام میں کوئی اصلاح یا سماجی و معاشی بہتری کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔ صورت حال بد سے بدتر ہی ہوگی کیونکہ سب مسلط سیاسی پارٹیوں کا پروگرام ایک ہی ہے… سرمایہ داری !لیکن بربریت اور بربادی یہاں کے باسیوں کا مقدر نہیں۔یہ مظلوم مخلوق پہلے بھی بغاوتوں میں ابھری ہے۔یہ پھر اٹھے گی۔آخر نسل انسانی کی بقا کا سوال ہے۔لیکن اس مرتبہ جس ذلت اور بربادی کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ آتش فشاںپھٹے گا اس کی شدت اتنی زیادہ ہو گی کہ اس انقلابی طوفان کو روکناحکمران طبقات، ان کی پروردہ ریاست اور ان کے آقا امریکی سامراج کے بس کی بات نہیں رہے گی۔