"DLK" (space) message & send to 7575

بھارت کی جمہوریت کا انتشار

بھارت میں ہونے والے حالیہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں حکمران کانگریس پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی نے اپنی حکومت کو برقرار رکھا جبکہ دہلی اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت کو شکست ہوئی۔ عوامی طور پر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ بی جے پی کی فتح میں اس کے وزیر اعظم کے لئے نامزد امیدوار اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کے کرزما کا بڑا ہاتھ ہوگا لیکن دہلی کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جاوید نقوی کے مطابق'' اتوار کے نتائج میں ا س کا (مودی) اثرورسوخ مدھیہ پردیش (جہاں کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان مودی کے بی جے پی کے اندر سب سے بڑے حریف ہیں) میں نہایت کم اوردہلی میںمنفی رہا۔ گو بی جے پی سرکاری طور پر اس کو تسلیم نہیں کرتی‘‘۔ ان صوبائی انتخابات کو مئی2014ء میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات کا ڈریس ریہرسل قرار دیا جا رہا ہے لیکن ان انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اگلے سال انتخابات جیتنے کی گارنٹی نہیں‘ خواہ کارپوریٹ میڈیا اور بھارت کے سرمایہ دار طبقے کی بڑی اکثریت مودی کی مکمل حمایت کررہے ہیں ۔ درحقیقت ان صوبائی انتخابات میںبی جے پی کی اتنی فتح نہیں ہوئی جتنی کہ کانگریس کو شکست ہوئی ہے۔ ابتدائی انتخابی نتائج آنے کے بعد سونیا گاندھی نے بیان دیا کہ یہ ہار مہنگائی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ہمیں مزید گہری خود تنقیدی کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں لوگ ناخوش تھے۔
گزشتہ ایک برس میں کانگریس حکومت نے بڑے پیمانے پر غذائی سبسڈیاں دینے کا ایک وسیع پروگرام شروع کیا تھا۔ یہ پروگرام اسی طرز کی خیراتی پالیسی تھی جو پیپلز پارٹی نے ''بے نظیر 
انکم سپورٹ پروگرام ‘‘ کے تحت پاکستان میں شروع کی تھی اور موجودہ ن لیگ حکومت اس کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے حالیہ انتخابات ظاہر کرتے ہیں کہ عوام ان خیراتی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہیں ۔ بھارت میں یہ سکیم اکیاسی کروڑ افراد کے لیے شروع کی گئی تھی۔ ا ن کو 5کلو چاول یا گند م سستے داموں مہیا کیا جاتا تھا۔ جیسے پاکستان میںزرداری نے بے نظیر بھٹو کے نام پر یہ سکیم جاری کی تھی اسی طرح سونیا نے اپنے سوگواسی خاوند راجیو گاندھی کے نام پر یہ خیراتی پروگرام شروع کروایا تھا‘ لیکن ایک بدعنوان ریاستی ڈھانچے اور لوبھ لالچ کے بوسیدہ نظام میں اس قسم کے پروگرام کبھی فعال نہیں ہوتے بلکہ ایک بھوکے اور محروم سماج میں چھینا جھپٹی اور کمیشنوں کی بھینٹ چڑھ کر الٹ اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ بھارت کے آدھے سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر ناتواں ہیں۔6کروڑ بچوں کی جسمانی نشوونما نامکمل ہے۔ غذا میں پروٹین اور وٹامن کی کمی‘ گندے پانی‘ بچیوں کے ساتھ نارواسلوک ‘ہائی جین کی لاعلمی اور غذائی قلت کا شکار مائیں جو اکثر حاملہ رہتی ہوں‘ سب اس بھیانک ذلت کی غمازی کرتی ہیں جس کا بھارت کے معاشرے کی اکثریت شکار ہے۔ بھارت کی 70 فیصد آبادی سینی ٹیشن اور سیوریج سے محروم ہے۔ 78فیصد پینے کا پانی آلودہ ہے اور بیشتر مقامات پر اس میں سیوریج ملا ہوا ہوتا ہے ۔ کانگریس کا یہ پروگرام خو دثبوت پیش کرتا ہے کہ بھارت کی120کروڑ آبادی میں سے81 کروڑ افراد غذا کے حصول سے محروم ہیں۔ اس
بھیانک سماجی کیفیت کے باوجود ہم ''چمکتے ہوئے ہندوستان‘‘ کے گن سنتے رہے ۔بھارت کی جمہوریت کی تعریفیں کرتے ہوئے ہماری سیاسی اشرافیہ تھکتی نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں دنیا کی سب سے بڑی غربت پلتی ہے‘ جبکہ اس وقت بھارت کے ڈالروں میں ارب پتیوں کی تعداد جاپان کے ارب پتیوں سے بھی بڑھ چکی ہے۔
بھارت کے حکمران طبقات کا اصل کردار یہ ہے کہ بڑے بڑے بھارتی سرمایہ دار بھارت میں سرمایہ کاری بہت کم کررہے ہیں ۔لیکن جو سرمایہ دار بھارت میں بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ ایک طرف یہاں کے محنت کشوں کا شدید استحصال کرتے ہیں اور دوسری جانب اپنی رقوم بیرونی ممالک کے محفوظ بینکوں میں رکھتے ہیں ۔ حکومت بھارت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت بھارتی سرمایہ داروں کا 14 ہزار ارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے جس میں ایک خاصہ حصہ کالے دھن کا بھی ہے۔
پچھلے ایک سال میں بھارت کی شرح نمو آدھے سے بھی زیادہ گر گئی ہے اور روپے کی قیمت میں30فیصدکمی واقع ہوئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں5سال سے مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔ برآمدات لڑکھڑا رہی ہیں جبکہ درآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔بھارت کی تاریخ میں آج سب سے بڑے تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ کے خسارے پیدا ہوچکے ہیں۔ اس سال جون سے ستمبر تک 12ارب ڈالر بیرونی سرمایہ کار واپس لے گئے ہیں۔ بھارت کا 2000 ء سے2009ء تک معاشی اُبھار اور شرح نمو میں اضافہ قرضوں پر مبنی کھپت کی بنیاد پر ایک بلبلے کی طرح تھا۔ اس کی بنیاد جائیداد ‘تعمیرات اور اس قسم کے اثاثوں کی مصنوعی قیمتوں کے اُبھار پر تھی۔ تجارتی مصنوعات پر اس مصنوعی ابھار سے جو مالیاتی نشہ چڑھا اس سے مزید قرضوں اور ادھار کے رجحانات بڑھے۔گارڈین کے مطابق'' افسوس کہ یہ معاشی ابھار 'ضائع‘ ہوگیا۔ اس سے آبادی کی بھاری اکثریت کی زندگیوں میںکوئی بہتری نہیںہوئی چونکہ بنیادی انفراسٹرکچر ‘ غذا‘صحت‘علاج‘سینی ٹیشن اور تعلیم پر سرکاری اخراجات میں اضافہ نہیںہوسکا‘‘۔
اس معاشی اور اقتصادی بنیاد پر جو سیاست اور ریاست قائم ہوگی اس کا رجعتی اور پُرانتشار ہونا ناگزیر ہے۔ منموہمن سنگھ نے بطور 1992ء میں بھارت میںمنڈی کی معیشت کا مکمل طور پر اجرا شروع کردیا تھا۔ آج بھارت کے کارپوریٹ ان داتا اس کی جگہ نریندرا مودی کو لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ مزید جارحانہ سرمایہ داری کی پالیسیوں کو اپنی مذہبی جنونیت کی دہشت سے تیز کردے‘ لیکن وہ کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر سکے گا اور بھارتی سرمایہ داری کا یہ نامیاتی بحران کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا۔ اس بحران کی شدت کو ٹالنے کے لیے مزید کتنے نان ایشو کھڑے کیے جاسکتے ہیں اور پاکستان دشمنی اوربیرونی خطرات کو کس حد تک نریندرامودی بڑھا سکے گا؟ اس کے بہت ہی قلیل امکانات ہیں۔ بھارت کے170 ضلعوں میں ریاستی رٹ موجود نہیں ۔ اوریسا سے لے جھارکھنڈ تک ایک سرخ راہداری ہے جہاں سرکشی اور خانہ جنگی چل رہی ہے‘ لیکن بھارت کے محنت کشوں کی بھی عظیم روایات ہیں۔1946ء کے جہازیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک سے1974ء کی ہڑتالوں تک کئی ایسے واقعات ہیںجو اس طبقے کی میراث ہیں۔ بھارت میں تبدیلی کی خواہش بھلا ان غریبوں میں سے کس کی نہیں ہوگی‘ لیکن بھارت کی کمیونسٹ پارٹیاں جو یہاں کے محنت کشوں کی روایت رہی ہیں اس پارلیمانی گورکھ دھندے میں اس حد تک الجھ گئی ہیں کہ انقلاب فراموش ہو گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ظاہری طو رپر اہم ایشو کرپشن کے خلاف دہلی کے عوام نے '' عام آدمی پارٹی ‘‘ کو بڑا ووٹ دیا۔ لیکن اس نظام میں رہتے ہوئے( جس میں کرپشن ناگزیر ضرورت اورپیداوار ہے) بھلا یہ پارٹی غربت اور محرومی کا خاتمہ کیسے کرے گی۔ اگر ہم بھارت‘ پاکستان اور برصغیر کے دیگر ممالک کے عوام کا جائزہ لیں تو ہر طرف مسائل ایک ہیں ‘ان کا استحصال ایک ہے‘ان کے دکھ درد ایک ہیں۔ اسی طرح ان کا حل بھی ایک اوراس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں ہے۔1947ء میں ملنے والی آزادی نے یہاں کے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لانے کی بجائے ان کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔جمہوریت ہو یا آمریت پستے ہر طرف غریب عوام ہی ہیں‘ لیکن کب تلک؟ اس خطے میں بسنے والی170 کروڑ انسانوں کی بھاری اکثریت کا اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام نے حشر نشر کردیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں