پیپلز پارٹی اور اس کے مختلف دھڑوں کی تمام تر سیاسی سرگرمیاں سالگرہوں اور برسیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ پارٹی قیادت کے سوشلسٹ نظریات سے انحراف اور سرمایہ دارانہ نظام سے مصالحت کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر نظریات اور سیاسی حکمتِ عملی کی بحث بھی ماند پڑ چکی ہے۔ پارٹی میں سے نظریات کے انخلا نے قیادت کی آمریت اور مطلق العنانیت کو جنم دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جلسے اور داخلی اجلاس قیادت کی خوشامد اور تعریفوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
5 جنوری 2014ء چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 86ویں سالگرہ کا دن ہے‘ جسے پیپلز پارٹی کے مختلف رہنما حسبِ روایت کیک کاٹ کر منائیں گے۔ ان میں ضیاالحق کا ساتھ دینے والے اور بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے والے بہت سے سیاستدان بھی شامل ہوں گے۔ شاید ہی بھٹو کی سالگرہ کی کسی تقریب میں ان کے نظریات کی بات کی جائے۔ بھٹو نے عوام کے دل و دماغ جیتنے کے لئے جو پروگرام دیا تھا اسے موقع پرستی کے تحت بھلا دیا گیا ہے۔ پارٹی کے بنیادی منشور کو منسوخ اور ان بنیادوں کو مسخ کر دیا گیا ہے جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی راتوں رات پاکستان کے محنت کش عوام کی سیاسی روایت کا درجہ اختیار کر گئی تھی۔ پارٹی کی نظریاتی اساس کو ذاتیات کے نیچے دبا کر اصلیت کو صورت کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے۔
1967ء میں قائم ہونے کے بعد کچھ ہی مہینوں میں پیپلز پارٹی کے سیاسی اُبھار کی بنیادی وجہ اس عہد کا انقلابی کردار تھا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک اور عوام کی ریڈکلائزیشن نے بھٹو کی سوچ اور شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ بھٹو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر سماج کی معروضی کیفیت جانچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس وقت جب روایتی بایاں بازو بورژوا جمہوریت اور مرحلہ وار انقلاب کی نظریاتی زوال پذیری میں غرق تھا، بھٹو نے انقلابی سوشلزم کا پروگرام دیا۔ انہیں تیسری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے سماجی اثرات کا بخوبی ادراک تھا۔ سب سے بڑھ کر بھٹو ان حالات کو سمجھ رہے تھے جنہوں نے پاکستان کے نومولود مزدور طبقے کو طبقاتی شعور عطا کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عملی جدوجہد پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک انقلابی طوفان کے پُرانتشار معروض میں پارٹی کے قیام اور عوام میں تیز مقبولیت کی وجہ سے ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر پارٹی کارکنان کی تربیت نہ ہو سکی۔ اس وقت کے زیادہ تر پارٹی رہنمائوں کا ''سوشلزم‘‘ ایک سیاسی لائحہ عمل اور معاشی متبادل کی بجائے محض نعرہ تھا۔ یہ نظریاتی خلا پارٹی کارکنان کی نظریاتی اور سیاسی تربیت کی راہ میں رکاوٹ بن گیا‘ جس کے باعث تنظیمی ڈھانچے مضبوط بنیادوں پر تعمیر نہ ہو سکے۔ مختلف رجحانات اور دھڑوںکے مابین سیاسی اختلافات اور نظریاتی ابہام نے پارٹی اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے تمام تر اختیارات اور طاقتیں ایک لیڈر کے ہاتھوں میں مرتکز کر دیے۔ یہی وجہ ہے کہ 1971ء کی جنگی شکست کے بعد عدمِ استحکام کا شکار سرمایہ دارانہ ریاست پیپلز پارٹی کو اپنے ریاستی ڈھانچوں کے اندر قید کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس وقت ریاست اس حد تک کمزور تھی کہ اگر پیپلز پارٹی کھلی انقلابی بغاوت کا راستہ اپناتی تو ریاستی جبر کے ذریعے اسے کچلنا ناممکن تھا۔ تمام تر اختیارات کے ایک شخصیت میں ارتکاز نے بھٹو کو اس قابل بنایا کہ وہ پارٹی کے اندر موجود مختلف دھڑوں اور متضاد سماجی رجحانات میں توازن قائم کریں۔ انہوں نے ایک طرف ریاست، اشرافیہ اور مذہبی بنیاد پرستوں جبکہ دوسری طرف مزدوروں اور کسانوں کو بیک وقت مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ بھٹو کو ادھورا انقلاب برپا کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن سے حکمران طبقے کو گہرا گھائو لگا تھا۔ ضیاالحق کے تحت فوجی آمریت کا نفاذ اور بعد ازاں بھٹو کا عدالتی قتل جہاں ایک طرف اس نظام کا عوام سے 1968-69ء کے انقلاب کا انتقام تھا‘ وہاں عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کر سکنے کی اس صلاحیت سے حکمران طبقے کے خوف کا اظہار بھی تھا جو پیپلز پارٹی میں موجود تھی۔ امریکی سامراج نے نہ صرف دانستہ طور پر بھٹو کے عدالتی قتل سے چشم پوشی اختیار کی بلکہ ضیاالحق کے مذہبی رد انقلاب اور ریاستی جبر کی مکمل پشت پناہی بھی کی۔
جیل میں اپنے آخری ایام کے دوران بھٹو نے ماضی اور حال کا از سر نو تجزیہ کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کئے وہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ اپنی زندگی اور موت کے تجربے کا سب سے اہم سبق انہوں نے بالکل واضح انداز میں اپنی کتاب ''اگر مجھے قتل کیا گیا؟‘‘ میں درج کیا کہ ''طبقاتی جدوجہد ناقابلِ مصالحت ہے‘‘ یہ درحقیقت ان کی آخری وصیت تھی۔ بھٹو کے بعد آنے والی پارٹی قیادتوں نے نہ صرف ان کی وصیت کو جھٹلایا بلکہ پارٹی کے بنیادی منشور کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما عوامی حمایت کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہے۔ چند ایک نے تو دائیں بازو کی ہاں میں ہاں ملا کر سوشلزم کو یوٹوپیا بھی قرار دے دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے کھلم کھلا کہا کہ ''بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی غلط تھی‘‘۔
آج ایک بار پھر بلاول بھٹو زرداری سے امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔ اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اگرچہ انہوں نے جارحانہ لہجہ اختیار کیا؛ تاہم وہ بطور معاشی پالیسی نجکاری کے خلاف نہیں بلکہ ان کا اعتراض صرف یہ ہے کہ قومی اساسوں کی فروخت سے چند مخصوص افراد کو مالی فائدہ نہیں ملنا چاہئے۔ اپنے ایک حالیہ مضمون میں بلاول نے آزاد منڈی کی معیشت اور سرمایہ داری کی حمایت کی۔ مئی کے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد بھی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت درست نتائج اخذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ہیئر سٹائل اور باڈی لینگویج کی نقالی کر لینے سے پارٹی کو 1970ء کی طرح عوام میں مقبول نہیں بنایا جا سکتا۔ پارٹی کو ایک نئے جنم اور ازسر نو ابھار کے لئے ایک بار پھر انقلابی سوشلزم کا پروگرام اپنانا ہو گا۔ اس گلے سڑے نظام پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے اکھاڑنے کا منشور عوام کے سامنے رکھنا ہو گا۔ آج یہ نظام 1967ء کی نسبت کہیں زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے اور انقلابی تبدیلی زیادہ جارحانہ اقدامات کی متقاضی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج اس حقیقت کو واضح کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی زیادہ عرصے تک وراثت میں ملنے والی عوامی حمایت پر انحصار نہیں کر سکتی۔ عوام کا اپنی سیاسی روایات کے ساتھ رشتہ متحرک اور متغیر ہوتا ہے۔ پرانی روایات جب گل سڑ جائیں تو محنت کش عوام نئی روایات تخلیق کرتے ہیں۔
دو متضاد طبقات کے درمیان مصالحت اور سرمایہ دارانہ نظام کی حدودوقیود میں معاشی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کرنے کی ناکام کوششیں ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کا باعث بنی تھیں۔ اس نظام کا خاتمہ کئے بغیر کوئی بہتری ممکن نہیں اور بھٹو کے الفاظ میں ''یہ بات پتھر پر لکیر کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔