"DLK" (space) message & send to 7575

یورپ: برداشت‘ بغاوت اور انقلاب

2014ء میں پہلی جنگ عظیم کو سو سال مکمل ہو جائیں گے۔ سامراجی قوتوں کے مابین اس خونی تصادم میں کم از کم ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔ حکمران طبقے کے دانشور عام طور پر جنگوں اور تنازعات کو انسان کی جبلی جارحیت کا ناگزیر نتیجہ قرار دے کر سرمایہ دارانہ نظام کی خونریزی کے جواز تراشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت اس بیہودہ مفروضے سے بالکل مختلف ہے۔ جنگیں، طبقاتی سماج کی کوکھ سے جنم لے کر نازک مراحل پر پہنچ جانے والے ان سیاسی اور معاشی تضادات کا اظہار ہوتی ہیں‘ جنہیں صرف تشدد اور طاقت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے مشہور جرمن سپہ سالار کارل وون کلازوٹز نے انتہائی سادہ اور دوٹوک الفاظ میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ''جنگ سیاست کے تسلسل کا ہی ایک اور طریقہ کار ہے‘‘۔
آج کے حالات و واقعات کی 1914ء سے گہری مماثلت موجود ہے۔ سو سال پہلے کی طرح عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات دھماکہ خیز طریقے سے پھٹ کر ایک بار پھر واضح ہو رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کا معاشی ابھار اور بڑھوتری 2008ء میں عالمی سطح پر سرمایہ داری کے کریش پر منتج ہوئی۔ یہ صورتحال پہلی عالمی جنگ کے عہد کی معاشی حرکیات سے بڑی حد تک مماثل ہے۔ مارچ 2009ء میں، لیمن برادرز کے انہدام کے تقریباً چھ ماہ بعد امریکی سرمایہ داری انتہائی تشویشناک حد تک بحران کا شکار ہو چکی تھی۔ دیوہیکل جنرل موٹرز کی انتظامیہ سرعام دیوالیہ پن کے خدشات کا اظہار کر رہی تھی۔ ایک اور کمپنی کے شیئر کی قیمت اٹھارہ سال کی کم ترین سطح پر تھی اور ایک بڑے گروپ کا شیئر ایک ڈالر سے بھی کم قیمت پر بک رہا تھا۔ بیل آئوٹ کی شکل میں کئی ہزار ارب ڈالر کی ریاستی امداد کے ذریعے سرمایہ داری کو وقتی طور پر سنبھالا دیا گیا لیکن آج بھی عالمی سطح پر معاشی صورتحال چھ سال پہلے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی 200 سالہ تاریخ کے سب سے سنجیدہ معاشی بحران کا شکار ہے اور گرتی ہوئی معیشت کے سیاسی اور سماجی اظہار کی شدت میں ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ مقداری آسانی (بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر معیشت میں پھینکنے کا عمل) سے لے کر صفر شرح سود اور ریاستوں کی جانب سے بینکوں کے خساروں کی خریداری تک، بحران سے نکلنے کا ہر ایک حربہ ناکام ہو چکا ہے۔ سرمایہ داری کے معیشت دان اور ماہرین مایوس اور ناامید ہیں۔ عالمی معیشت جمود کا شکار ہے۔
امریکی معیشت کی بحالی بالکل سطحی اور ناپائیدار ہے۔ زیادہ تر یورپی ممالک کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں۔ جنوبی یورپ کی کمزور معیشتیں قرضوں کی گہری کھائی میں گر چکی ہیں اور ماضی میں یورپی معیشت کا انجن سمجھا جانے والا جرمنی خود بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ چینی معیشت کی شرح نمو میں کمی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ بھارت اور برازیل سمیت دوسری نام نہاد ''ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ (BRICS) کریش لینڈ کر چکی ہیں۔ بورژوا معیشت دان اور سیاسی رہنما اپنے چہروں پر سے پریشانی کے آثار چھپانے کی کتنی ہی کوشش کر لیں، یورپی معیشت کا بحران ڈرامائی طور پر عالمی سرمایہ داری کے فالج کو عیاں کر رہا ہے۔ یورپی یونین کی معیشت کی متوقع شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سپین میں 56 فیصد جبکہ یونان میں 65 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ یورپ کی بورژوازی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے: پچھلے پچاس سالوں میں جو رعایات، معاشی مراعات اور گنجائشیں محنت کشوں نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی ہیں‘ وہ واپس چھین لی جائیں‘ لیکن طاقتوں کا توازن حکمرانوں کے حق میں نہیں ہے۔ یورپ 
کا حکمران طبقہ ویلفیئر ریاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس لئے نہیں یورپ کے سرمایہ دار اچانک لالچی، ظالم، بداخلاق، جاہل اور احمق ہوگئے ہیں۔ یہ تمام خصلتیں ان میں پہلے بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں تھیں لیکن آج بحیثیت مجموعی نظام کا بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ ''ویلفیئر سٹیٹ‘‘ کے اخراجات کی شکل میں اپنے منافعوں میں مزید کٹوتی برداشت نہیں کر سکتے: چنانچہ یورپی عوام کی فلاح بہبود پر خرچ ہونے والے ریاستی اخراجات میں سے کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ یورپ کی ہر حکومت اسی معاشی پالیسی پر کاربند ہے۔ بائیں بازو کی نعرہ بازی سے اقتدار میں آنے والے فرانس کے اصلاح پسند صدر فرانکس ہولالندے کی آنکھیں بھی فرانسیسی حکمران طبقے نے جلد ہی کھول دیں اور موصوف اب انہی کی اشاروں پر چل رہے ہیں۔ 
دوسری جنگ عظیم کے بعد، 1945ء سے 2005ء تک عالمی سطح پر برآمدات میں اوسطاً 5 فیصد جبکہ مجموعی پیداوار میں 3.5 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوتا رہا۔ چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور سوویت یونین کے انہدام نے مرتی ہوئی سرمایہ داری کو وقتی طور پر آکسیجن فراہم کی۔ 1.2 ارب چینی آبادی کے عالمی منڈی کا حصہ بن جانے سے عالمی معیشت میں نئی گنجائش پیدا ہوئی۔ چین میں یورپ اور امریکہ کی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو انتہائی سستی لیبر میسر آئی جس کے بدترین استحصال سے ان کی شرح منافع آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ سرمائے اور پیداواری عمل کی چین میں منتقلی سے مغرب میں محنت کشوں پر دبائو بڑھا اور وہ بھی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔ سرمایہ داری کے دانشور خاص طور پر پچھلی دو دہائیوں کے دوران کئی خوش فہمیوں کا شکار تھے؛ تاہم بورژوا معاشی ماہرین کے نقطہ نظر کے برعکس گلوبلائزیشن نے سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں عالمی سطح اور بلند تر پیمانے پر ابھار دیا ہے۔ عالمگیریت آج اپنا اظہار سرمایہ داری کے عالمگیر بحران کی شکل میں کر رہی ہے۔ موجودہ بحران کی وجوہ بھی ماضی سے مختلف نہیں۔ پیداواری قوتیں انسانی ترقی کے راستے میں دو سب سے بڑی رکاوٹوں سے متصادم ہیں: ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور قومی ریاست۔ 2007ء تک اس متروک نظام کو قرضوں کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔ اگر امریکی حکومت کے ذمہ واجب الادا تمام اقتصادی ذمہ داریوں یا Liabilities کو شامل کیا جائے تو امریکہ کا کل قومی قرضہ اس وقت 50 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ دارانہ نظام اپنے حدود سے بہت آگے تک تجاوز کر چکا ہے۔
2008ء کے بعد تاریخ ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں کے جعلی معاشی ابھار کی تمام تر وجوہ اب اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ واپسی کے تکلیف دہ اور پُرخطر دور کا آغاز ہوچکا ہے جس کے دوران عین ممکن ہے کہ محنت کش عوام اس نظام کا ہی خاتمہ کر دیں۔ سرمایہ دار ریاستی قوانین اور جکڑ بندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ریاست کو جبر کے ایک آلے کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اور تضاد ہے۔ دوسری طرف ریاستیں سرمایہ داروں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیںکیونکہ امیروں پر ٹیکس لگانے کا نتیجہ ملک سے سرمائے کی پرواز کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ فی الوقت یورپ اور امریکہ کا حکمران طبقہ بحران کو اپنی مرضی کی شرائط اور ''اصلاحات‘‘ نافذ کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ معاشی بدحالی کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے پر سیاسی اور اقتصادی حملے کئے جارہے ہیں۔ پینشن کم یا ختم کی جارہی ہے، تنخواہوں میں کٹوتیاں ہورہی ہیں اور بالواسطہ ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ یونان، پرتگال اور سپین میں علاج معالجے کی سہولیات پر ریاستی اخراجات میں 40 فیصد تک کمی کی جا چکی ہے جبکہ پرتگال میں نجی شعبے کے 16لاکھ محنت کشوں سے ملازمت کے وقت طے شدہ مراعات اور سہولیات چھین لی گئی ہیں۔ مختصراً بحران کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کی جارہی ہے؛ تاہم معیار زندگی میں کمی کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ یورپ کا شاید ہی کوئی ملک ہڑتالوں، پُرتشدد مظاہروں، پولیس سے ٹکرائو، سیاسی تنائو اور سماجی خلفشار سے محفوظ ہے۔ ایک مخصوص وقت پر برداشت ختم ہو جاتی ہے اور محسوس ہو رہا ہے کہ یورپ میں وہ وقت بہت قریب آگیا ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں ترکی، برازیل، مصر، تیونس، سپین، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ سمیت دوسرے کئی ممالک میں بڑے عوامی مظاہرے اور انقلابی تحریکیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہم عالمی سطح پر بالکل نئی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہر ملک میں سطح کے نیچے ایک لاوا پک رہا ہے۔ خاص طور پر سپین، اٹلی، یونان اور فرانس انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ انقلابی حالات میں عوام کا شعور چھلانگیں لگاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ انقلابات سرحدوں کا لحاظ بھی نہیں کرتے۔ یورپ کے کسی ایک ملک میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی کامیاب بغاوت ناگزیر طور پر پورے خطے میں سرایت کر جائے گی۔ محنت کش طبقے کے ہراول دستوں اور باشعور پرتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں کے غیرمعمولی واقعات کے لئے خود کو تیار کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں