تیسری بار بطور وزیر اعظم برسر اقتدار آنے والے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے پہلے سال کا اختتام اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے کلرکوں پر بدترین ریاستی تشدد پر ہوا۔باجوڑ میں سات پاکستانی فوجیوں کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ ترنول کے قریب خود کش دھماکے میں آئی ایس آئی کے دوکرنل اور تین شہری شہید ہوگئے۔لندن پولیس نے الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا۔بجلی کی قیمتیں دوگنا کرکے لوڈ شیڈنگ پر''جزوی قابو‘‘ پا لیا گیا۔ مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، بے روزگاری کی شرح نئی انتہائوںکو پہنچ گئی، غربت کا سمندر مزیدگہرا اور وسیع ہوگیا۔ ہائی کورٹ کے دروازے پر ایک بے کس حاملہ عورت کو سنگسارکیا گیا۔
غربت، جبر اور محرومی کے عذاب میں گھرے عوام کا مذاق ''ترقی‘‘ کے دعوے کر کے اڑایا جارہا ہے۔ بجٹ میں امیروں کی مراعات اور ٹیکس چھوٹ کو دگنا کردیا گیاجبکہ عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ محنت کشوں کی تذلیل سر بازارکی گئی، اس ذلت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں پر دارالحکومت کے مرکزی چوک میں پولیس نے آنسو گیس، ڈنڈوں اور لاٹھیوںکی بوچھاڑکر دی، لیکن کلرکوں کی یہ سرکشی کسی بڑے طوفان کی علامت ہے۔ محنت کش عوام کی بغاوت کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ شدید معاشی بحران کی کیفیت میں سرمایہ داروں کی روایتی اور کلاسیکی پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے طبقاتی جنگ کا نقارہ پہلے ہی بج چکا ہے۔حکمرانوں کے پہلے واربڑے خوفناک تھے لیکن اب محنت کشوں کی صفیں سیدھی ہورہی ہیں۔
دہشت گردوں کی آپس میں بڑھتی ہوئی خونریزی اور فوج پر حملوں کا نیا سلسلہ ''مذاکرات‘‘ کی ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ میڈیا اور حکمران طبقے کے وظیفہ خوار ''دانشوروں‘‘ نے اس نان ایشو میں عوام کو زبردستی پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شروع سے آخر تک یہ ''مذاکرات‘‘ ایک فریب تھے جن کا بھیانک انجام ناگزیر تھا۔دوسری طرف فوجی آپریشن بڑھتے ہوئے دبائو اور سلگتے ہوئے تضادات کی غمازی کرتا ہے۔ ریاستی اداروں کا داخلی تنائو شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔
منی لانڈرنگ کے الزام میں الطاف حسین کی گرفتاری بہت کچھ عیاں کرتی ہے۔ ایک لسانی جماعت میں پڑنے والی دراڑیں پچھلے کچھ عرصے سے منظر عام پر آرہی ہیں۔کراچی کے محنت کشوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے والے حکمران طبقے کا اوزار اب زنگ آلود ہوگیا ہے۔ یہ صورتحال کراچی میں طبقاتی جدوجہد کے ابھارکا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔
بجلی کا بحران اور لوڈ شیڈنگ سامراجی اور مقامی کارپوریٹ سرمائے کے لیے اندھے کو ملنے والی دو آنکھوں کے مترادف ہے۔ ان طفیلی جونکوں نے''گردشی قرضے‘‘ کے چکر میں سرکاری خزانے کو چوس لیا ہے ۔ اب ''سستی‘‘ بجلی کے ''نئے‘‘ منصوبوں کے ذریعے عوام کے جسم سے خون کے آخری قطرے بھی نچوڑ لینے کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے ، لیکن اس سماج میں انسانوں کی اکثریت نچڑ نچڑکر پہلے ہی پتھر ہوچکی ہے۔۔۔ یہی پتھر آنے والے وقت میں حکمرانوں کے اپنے محلات پر گریں گے۔
جمہوری حکمرانوںکی نفسیات ماضی کے شہنشاہوں سے مختلف نہیں ہے۔ بادشاہ کوئی سہولت اپنی رعایاکو اس کا حق سمجھ کر فراہم نہیںکرتے تھے بلکہ یہ ظلّ الٰہی کا ''احسان‘‘ ہوا کرتا تھا۔ان کے تمام تر اقدامات اپنے اقتدارکو مضبوط اور حاکمیت کو طوالت دینے کے لئے ہوا کرتے تھے۔رعایا کو بوقت ضرورت رعایت صرف اس لئے دی جاتی تھی کہ سماج میں استحکام رہے، لوگ بغاوت کا خیال ذہن میں نہ لائیں اور ان شہنشاہوں کی نسلیں ''پر امن ‘‘ طریقے سے حکمرانی کر سکیں۔عوام کا خون پسینہ نچوڑکر دیوہیکل عمارتیں، مقبرے، محلات، مساجد اور مندر وغیرہ تعمیرکئے جاتے تھے ۔ ان تعمیرات کا مقصد اپنی شان و شوکت اور جاہ و جلال سے مرعوب کر کے رعایاکو ''چھوٹے‘‘ ہونے کا احساس دلانا اور نفسیاتی طور پر مطیع بنانا ہوتا تھا۔دہقانوں اور محنت کشوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے یہ حکمران اپنے حواریوں، کاسہ لیسوں اور درباری اشرافیہ کو جاگیروں سے نوازکر اپنی ریاستی مشینری اور انتظامیہ کو مضبوط کرتے تھے۔
مغلیہ بادشاہت کے خاتمے کے بعد انگریز سامراج نے اس عمل کو مزید جدت دی۔ ''آزادی‘‘ کے بعد انگریزوں کے قائم کردہ ریاستی اور معاشی ڈھانچے برقرار رہے اور حاکمیت ان کے گماشتوں کے ہاتھ آگئی۔گزشتہ 67برسوں میں اس مقامی حکمران طبقے کی لوٹ مار انگریزوں کے 200سالہ براہ راست راج سے کہیں زیادہ ہے۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے ذریعے سامراجی استحصال بھی جاری وساری ہے۔
پاکستان کا کمیشن خور سرمایہ دار طبقہ روزاول سے ہی مالیاتی طور پرکنگال، تکنیکی طور پر پست، نفسیاتی طور پر بے حد لالچی اورکنجوس،معاشی طورپرکرپٹ اور سیاسی طور پر سامراجی آقائوں کا خادم ہے۔ عالمی منڈی میں تاخیر سے قدم رکھنے والے یہ سرمایہ دار ٹیکس، بجلی ، گیس کی چوری اور قرضہ خوری کے بغیر اپنا سماجی رتبہ اور اقتصادی وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ''دیانتداری‘‘ سے کاروبارکرنے پر یہ جلد ہی کنگال ہوجائیں گے۔ بہت سوں کے ساتھ تو ایسا ہوا بھی ہے۔لہٰذا اس طبقے میں ''ٹیکس نیٹ‘‘ کو وسیع کرنے کی باتیں مضحکہ خیز ہیں۔ ٹیکس کا یہ جال بھی قانون کی طرح صرف غریب کو ہی پھانستا ہے۔
غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ جہاں محنت کشوں کو گھائل کرتا ہے وہاں انہیں حکمرانوں کے باہمی تضادات اور نان ایشوز سے نکل کر معاشی اور سیاسی حقائق کا ادراک کرنے اور نظام کے خلاف بغاوت پر بھی مجبور کرسکتا ہے۔''ترقی‘‘ کے دیوہیکل منصوبے جن کا اتنا شور مچایا جارہا ہے، دراصل بعض دوسرے ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر پہلے سے بھری ہوئی تجوریوں میں مزید دولت ٹھونسنے کی واردات کے سوا کچھ نہیں۔ان منصوبوں سے قرضوںکا بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا اور بچی کھچی معیشت کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔
نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اس کی بنیادوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔حکمران طبقے کے مختلف دھڑوںکے درمیان حکومت اور اپوزیشن کا ''اختلاف‘‘ سیاسی ناٹک تو ہوسکتا ہے،اس کے ذریعے نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔اسی طرح کالی معیشت پر چلنے والے اس کرپٹ سماج میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ بھی ایک سراب ہے۔ اس مطالبے پرگلی گلی دھرنے دے کر سیاست چمکانے کی ناکام کوشش کرنے والے زمینی حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔
حکمرانوں کے مختلف دھڑوںکے درمیان اتحاد بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ ہاتھی کے دانتوں کی طرح ان اتحادوںکا پیش منظر اور پس منظر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ طاہرالقادری، عمران خان اور ق لیگ کا''الائنس‘‘ بھی اسی ڈرامے کا حصہ ہے جو عوام کی سوچ کو مائوف کرنے کے لئے مسلسل اس معاشرے کے افق پر چلایا جارہا ہے۔جعلی دھرنوں اور جلسے جلوسوں سے منو بھائی کا تحریرکردہ ایک ڈرامہ یاد آتا ہے۔1970ء میں لکھے گئے اس ڈرامے کا عنوان ہی ''جلوس‘‘ تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو، لیاقت ہال میں یہ ڈرامہ دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے تھے اور سٹیج پر چڑھ کر منو بھائی کو داد دی تھی۔ ڈرامے کی کہانی ایک ایسے جلوس کے گرد گھومتی ہے جس کے شرکا اپنی منزل اور مقصد سے بے خبر ہیں۔
مروجہ سیاست کو عوام مستردکرچکے ہیں۔ اب اس استردادکا اظہار ہوگا لیکن اس جعلی جمہوریت کے ذریعے سے نہیں۔ شاید زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ حکمرانوں کے نہ تھمنے والے جبر و استحصال، سیاسی ڈراموں اور جعلی جلوسوں کے خلاف اپنی منزل، مقصد اور لائحہ عمل کا ادراک رکھنے والے محنت کش عوام کا اصل جلوس بھی نکلے گا۔اس جلوس کو دنیا کی کوئی قوت انقلاب بپاکرنے سے نہیں روک پائے گی۔