"DLK" (space) message & send to 7575

فن کا زوال

معمر اور بزرگ افراد عام طور پرگئے وقتوںکی تعریفیں اور قصہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں جسے نوجوان نسل کا بڑا حصہ مبالغہ آرائی اور قدامت پرستی سمجھتا ہے۔ درحقیقت دہائیوںکے وقفے سے ہوش سنبھالنے والی دونوں نسلوں کے افراد کا موقف پوری طرح غلط ہے نہ درست۔ اس کائنات کی ہر چیزکی طرح انسانی سماج بھی مسلسل تبدیلی، تغیر اور ارتقاکے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں متحرک ہے۔ نسل انسانی کا سماجی، معاشی اور تکنیکی ارتقا دراصل فطرت پرقابو پانے کی جدوجہد سے عبارت ہے اور اس پر مکمل اختیار ہی انسان کو حقیقی معنوں میں''آزاد‘‘ کر سکتا ہے۔لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ سماج میں ہونے والی ہر تبدیلی بہتر اور مثبت ہو۔ اگر ہم فنون لطیفہ کا جائزہ لیں تو فن تعمیر سے لے کر موسیقی تک ''جدیدیت‘‘ کے ایسے معیار نظر آتے ہیں جو ماضی کی نسبت پست اور حقیر ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات انتہائی بے معنی بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح فلم اور ڈرامہ ، رقص، لٹریچر اور شاعری جیسے فنون کی حالت زار کا طائرانہ جائزہ بھی عمومی زوال کے رجحان کو واضح کر دیتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں فن، ثقافت اور تہذیب کا سب سے واضح اور زور دار اظہار اس کا طرز تعمیر ہوتا ہے۔ آثار قدیمہ کا جائزہ لیا جائے تو فن تعمیرکو تہذیبوںکے عروج و زوال کی داستان بیان کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پیداواری قوتوں اور تکنیک کو ترقی دینے میں حکمران طبقے کی نااہلی ایک طبقاتی سماج کی معیشت، سیاست اور ثقافت کے ساتھ ساتھ فن کے بگاڑ پر منتج ہوتی ہے۔ قدیم اشتراکیت اور ایشیائی طرز پیداوار سے لے کر غلام داری اور جاگیر داری تک کا سفر اسی مظہرکا نتیجہ ہے۔
نویں صدی کے مشرق وسطیٰ اور لیوانٹ کا تجزیہ کیا جائے تو اس خطے میں ابھرنے والی تہذیب اور فن کا عروج بغداد اور دمشق سے بڑھ کر غرناطہ اور قرطبہ میں نظر آتا ہے۔ الحمرا جیسے محلات کا فن تعمیر ان ایوانوں میں تخلیق ہونے والی موسیقی کی طرح لاثانی ہے۔ اس دور میں خلیفوںکے درباروں میں فلسفے پر ہونے والے بحثوںکے موضوعات کا تذکرہ ہی آج ''کفر‘‘ کا فتویٰ لگوانے کے لئے کافی ہے۔ فلسفے کے ساتھ ساتھ فلکیات، طب، سماجیات اور دوسرے سائنسی علوم میں تیز پیش رفت ہوئی۔ لیکن پھر ملوکیت، ملائیت اور دولت کی ہوس نے ترقی کو تنزلی میں بدلتے ہوئے اس سلطنت کو تاراج کردیا۔ اس زوال اور رجعت کے خلاف سائنس، فلسفے اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں ہونے والی بغاوت کی داستان کئی صدیوں پر محیط ہے۔
اگر ہم برصغیرکی جدید تاریخ کا جائزہ لیں تو تقسیم کے بعد سے ہندوستان یا پاکستان میں کوئی ایک ایسی عمارت تعمیر نہیں ہوئی جس سے فن تعمیر، ثقافت یا تہذیب کا بلند معیار جھلکتا ہو۔ ماضی میں مغلیہ سلطنت نے اگرچہ فن تعمیرکو جلا بخشی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر میں اعلیٰ معیار اور جمالیات کی نمائندہ عمارات ''وکٹورین آرکیٹیکچر‘‘ کی پیداوار ہیں۔ یہ فن تعمیر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ خصوصاً برطانیہ میں برپا ہونے والے صنعتی انقلابات کی بنیاد پر پروان چڑھا تھا۔ یورپ سے جاگیر داری کا خاتمہ تکنیک، سیاست اور طرز پیداوار میں برپا ہونے والے انہی انقلابات نے کیا تھا۔
انقلابات جب متروک نظاموں کو اکھاڑکر نئے معاشرے تعمیرکرتے ہیں تو سائنس اور فنون لطیفہ کا بھی جنم نو ہوتا ہے۔ پرانے نظام کی گھٹن سے آزاد ہونے کے بعد پورا سماج تازہ ہوا میں سانس لے کر پھلتا پھولتا ہے۔ نئی سائنسی ایجادات اور دریافتیں انسانی زندگی کو سہل بناتی ہیں اور معاشرے سرعت سے ترقی کرتے ہیں۔ لیکن پھر یہی 'نئے‘ نظام، سماجی ڈھانچے اور پیداواری رشتے تاریخ اور وقت کے ہاتھوں متروک ہو جاتے ہیں۔ گلتے سڑتے سماجی و معاشی نظام پر براجمان حکمران اپنی حاکمیت اور مراعات کے تحفظ کے لئے ماضی کے مزارکھود کر تعصبات اور رجعتی نظریات دوبارہ نکال لاتے ہیں۔ بھڑکتے ہوئے انقلابات کو روکنے کے لئے جبرکے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بادشاہتوں، سفاک آمریتوں اور مالیاتی جمہوریتوں پر براجمان سیاسی رہنما رجعت، جبر اور تاریکی کے رجحانات اور نظریات کا تشخص بن جاتے ہیں۔ 
اس تکلیف دہ عہد میں، جب ایک سماج کی کھوکھ سے دوسرا سماج جنم لے رہا ہوتا ہے ، طبقاتی جدوجہد زیادہ واضح ہو کر فن میں سرائیت کر جاتی ہے۔فنون لطیفہ سے وابستہ افراد دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا طبقات سے جا ملتے ہیں۔ ایک طرف سرکار اور حکمران طبقے کے کاسہ لیس ہوتے ہیں تو دوسری طرف اپنی شاعری، تصانیف، اداکاری اور مصوری میں محنت کش عوام کے مفادات اور استحصالی نظام سے بغاوت کی نمائندگی کرنے والے۔ انقلابات سماجی رویوں، نفسیات اور سوچ کے انداز ہی بدل ڈالتے ہیں۔ انقلاب فرانس سے پہلے اور بعد کی موسیقی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح میکسم گورکی نے اپنا شہرہ آفاق ناول ''ماں‘‘ 1905ء کے انقلاب روس کے بعد لکھا تھا جبکہ جدید سینما کے بانی سرگی ایزن سٹائن نے''جنگی جہاز پوٹمکن‘‘ اور ''اکتوبر‘‘ جیسی لازوال فلمیں 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد تخلیق کیں۔ 
پاکستان میںآزادی کے بعد کی کچھ دہائیوں میں موسیقی، سینما اور شاعری کا عروج نظر آتا ہے۔ اس عہدکی تاریخ کے اوراق پر نقش ہوجانے والی کئی فلمیں اورگانے تخلیق ہوئے۔ خلیل قیصر اور ریاض شاہد انمول فلمساز تھے۔ ارمان، انسانیت اور مٹی کے پتلے جیسی فلمیں پاکستانی سینما کا شاہکارتھیں۔ خورشید انور، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر سہیل رانا، عبداللہ اور بابا جے اے چشتی کی دھنوں پر ایک زمانہ جھومتا رہا۔ ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، مجید امجد، مصطفیٰ زیدی، احمد فراز، منیر نیازی، حبیب جالب اور جاوید شاہین کے شعر ایک پر پیچ عہدکی روح اور احساس کے عکاس ہیں۔ ان سب فنکاروں اور شعرا میں مشترک بات اس سماج کے کسی نہ کسی پہلو یا پورے نظام سے بغاوت ہے۔ ہر انقلابی باغی تو ضرور ہوتا ہے لیکن ہر باغی انقلابی نہیں ہوسکتا۔ ان میں سے کئی علانیہ کیمونسٹ تھے، یہ بڑے لوگ اپنی زندگیوں میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نظام کا خاتمہ تو نہ دیکھ سکے لیکن اپنے فن اور شاعری کے ذریعے آنے والی نسلوں کے لئے بہت کچھ چھوڑگئے۔
آج دنیا بھرکی طرح پاکستان میں سینما، ڈرامہ،موسیقی اور شاعری جیسے فنون لطیفہ ذلت اور تنزلی سے دوچار ہیں۔ یہ اس نظام اور سماج کی فرسودہ معیشت، سیاست اور ثقافت کا بالواسطہ اظہار ہے۔ عراق سے لے کر افغانستان تک رجعت کے طوفان اس بچی کھچی تہذیب کو بھی بربریت کی دھول تلے فنا کرنے کے درپے ہیں۔ شدید بیگانگی نے معاشرے پر خودغرضی اور پراگندگی مسلط کر رکھی ہے۔ آج کل سینما اور آرٹ پر ریاستی عدم توجہ کا بہت شور مچایا جاتا ہے۔ یہ شکایت درست بھی ہے کیونکہ بحران زدہ معیشت میں فنون لطیفہ کی ترویج تو دورکی بات، عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنی کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ لیکن ریاست اگر اپنی تجوریوں کا منہ فنون اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے کھول دے تو بھی سینما، شاعری اور ادب وغیرہ کو نئی زندگی نہیں مل سکتی کیونکہ معیشت کے ساتھ ساتھ سماج کی ہر قدر اورنظام کا ہرشعبہ زوال کا شکار ہے۔ مارکس کے جنازے پر اینگلز نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ''مارکس نے وہ سادہ حقیقت دریافت کی جسے اب تک فلسفے کی حد سے زیادہ مغز ماری نے چھپا رکھا تھا۔ سیاسیات، سائنس، آرٹ اور مذہب پر غور و فکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان کو خوراک، رہائش اور لباس میسر ہو‘‘۔ جو سماج انسانی کی حیوانی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو وہاں حس لطیف اور جمالیات کا ذوق کبھی نہیں پنپ سکتا۔ محنت کش عوام کا سیاسی تحرک اور اس گلے سڑے نظام کو منہدم کر دینے کے لئے سماج کی بوسیدہ معاشی بنیادوں پرکاری ضرب ہی ادب، سینما، شاعری، مصوری اور دوسرے فنون لطیفہ میں نئی روح پھونک سکتی ہے۔ 
لیون ٹراٹسکی نے 1938ء میں لکھا تھا: ''سرمایہ داری کا بحران معیشت سے شروع ہوکر انسانی سوچ کی عکاسی کرنے والے بلند ترین طریقوں میں اپنا اظہارکرتا ہے۔ فن نہ تو اس بحران سے بچ سکتا ہے نہ خود کو اس سے الگ کر سکتا ہے۔ فنون لطیفہ اس وقت تک گل سڑ کر مسخ ہوتے رہیں گے جب تک موجودہ سماج کی تعمیر نو نہیں کی جاتی۔ یہ فریضہ اپنے کردار میں انقلابی ہے، اس لئے ہمارے عہد میں فن کے سماجی کردار کا تعین انقلاب سے اس کے تعلق کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں