زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں عوام نہ صرف سفر بلکہ دوسری کئی سروسز کے لئے سرکاری شعبے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔لوگ ''گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس‘‘ کی بسوں پر سفر کرنا پسند کرتے تھے۔ریل کا سفر بھی بڑی حد تک وسیلہ ظفر ہوا کرتا تھا۔بجلی، گیس یا ریلوے وغیرہ کے ادارے اگرچہ مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں تھے لیکن تعلیم اور علاج کی سہولیات میں نجی شعبے کی محدود مداخلت کے باوجود عوام سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ آج کی نوجوان نسل شاید سوچ بھی نہیں سکتی کہ سرکاری شعبے کی خدمات اور سہولیات کی قیمت انتہائی کم جبکہ معیار حیران کن حد تک بہتر ہوا کرتا تھا۔
یہ درست ہے کہ فراڈ، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی اور مطلب پرستی جیسی سماجی اور اخلاقی برائیاں اس وقت بھی موجود تھیں لیکن بدعنوانی اور منافقت کم از کم سماجی معمول نہ تھے۔ رشوت لینے والا شرمندگی، فریب دینے والا پراگندگی اور جھوٹ بولنے والا اضطراب کی کیفیت سے ضرور گزرا کرتا تھا۔ آج یہ سب دھڑلے سے کیا جاتا ہے اور ضمیر کی موت کامیابی کی ضمانت بن گئی ہے۔
1980ء کی دہائی میں سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا وہ طریقہ کار عالمی سطح پر زوال پزیر ہونا شروع ہو گیا جسے ''ریاستی سرمایہ داری‘‘ یا ''کینیشین ازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاشی ماڈل کے تحت جاپان، کوریا اور یورپ جیسے ممالک میں بے پناہ ترقی ہوئی تھی۔ چار ''ایشین ٹائیگر‘‘ معیشت میں ریاست کی بڑی مداخلت اور معاشی منصوبہ بندی کی پیداوار تھے۔ریاستی سرمایہ داری کے تحت دوسری جنگ عظیم سے 1974ء تک قائم رہنے والے عالمی سرمایہ داری کے معاشی عروج کے ثانوی اثرات پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک پر بھی مرتب ہوئے۔ بڑے سرکاری اداروں کی تعمیر اور انفراسٹرکچر میں ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے یہاں کے حکمرانوں نے عوام کے لئے کچھ سنجیدہ اصلاحات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن سرمایہ داری جیسے متروک نظام کو مصنوعی طریقوں سے لمبے عرصے تک چلانا نا ممکن تھا۔یورپ اور امریکہ میں مہلک سٹیگ فلیشن (افراط زر کے باوجود منجمد معاشی نمو) کی موجودگی میں 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اوپیک کے عرب ممبران نے تیل کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔تیل کی قیمت 3ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 12ڈالر تک جا پہنچی۔ سطح کے نیچے پنپنے والے معاشی تضادات دھماکہ خیز انداز میں پھٹ پڑے اور تقریباً تین دہائیوں کے معاشی عروج کے بعد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی معیشتیں گہرے بحران کا شکار ہو گئیں۔عالمی سرمایہ داری کے اس بحران نے پاکستان جیسے ممالک کی معیشتوں پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب کئے اور ذوالفقار علی بھٹو کی ادھوری نیشنلائزیشن کی ناکامی زیادہ یقینی ہوگئی۔
ایوب آمریت کے عہد (1958-69)میں بلند شرح نمو سے ہونے والی تیز معاشی ترقی کا سماجی کردار انتہائی غیر ہموار تھا۔ اس دور میں ہونے والی صنعتکاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر سے سماجی تضادات بھڑک کر 1968-69ء میں ایک انقلابی تحریک کی شکل میں پھٹ پڑے۔ سوشلسٹ انقلاب کی امنگ سینوں میں لئے محنت کش عوام اور نوجوانوں نے پورے نظام کو چیلنج کر ڈالا۔ فیکٹریوں، تعلیمی اداروں اور جاگیروں پر قبضے ہونے لگے،ریاست مفلوج ہو گئی، ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑالیکن انقلابی قیادت اور پارٹی کے فقدان کی وجہ سے یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہی۔
ریاستی سرمایہ داری کی ناکامی کے بعد 1980ء کی دہائی میں عالمی سرمایہ داری کے معاشی پالیسی سازوں نے ''آزاد‘‘ منڈی پر مبنی 1960ء کی دہائی کا معاشی ماڈل دوبارہ سے نافذ کرنے کی کوشش کی۔ مانیٹر ازم، نیو لبرل ازم اور ٹرکل (Trickle) ڈائون اکنامکس جیسی اصطلاحات اسی معاشی ماڈل کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی مناسبت سے ان معاشی پالیسیوں کو ریگن ازم یا تھیچر ازم کا نام بھی دیا جاتا تھا جن کے تحت معیشت میں ریاست کے کردار کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ تیسری دنیا میں سامراج کے حواری معیشت دان اپنے آقائوں کا پڑھایا ہوا
سبق طوطے کی طرح دہراتے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقات کی معاشی اور سیاسی پالیسیاں ہمیشہ مغربی سامراج کی اسیر ہوتی ہیں چنانچہ 1980ء کی دہائی میں یہاں بھی نجکاری اور نیو لبرل سرمایہ داری کے نفاذ کا آغاز ہوا۔ آمر ضیا الحق نے وہ تمام صنعتیں ''سود سمیت‘‘ سرمایہ داروں کو واپس کیں‘ جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنلائز کیا گیا تھا۔شریف خاندان سمیت حکمران طبقے کے جن افراد یا خاندانوں کو پیپلز پارٹی حکومت کی پالیسیوں سے ضرب لگی تھی انہیں فوجی آمریت کے سیاسی اقتدار میں حصہ دیا گیا۔ قومیائی گئی صنعتوں کی سرمایہ داروں کو واپسی کے بعد ہر شعبے میں نجی کاری کے عمل کا آغاز ہوا۔
سوویت یونین اور چین میں سٹالن ازم کی ناکامی کی طرح سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نیشنلائزیشن کی بدعنوانی اور نامرادی کا الزام بھی سوشلزم کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ موت کسی کی اور ماتم کسی اور کا ہوتا ہے۔بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن دراصل بیوروکریٹائزیشن تھی۔سرکاری شعبے کا کنٹرول اور فیصلہ سازی محنت کشوں کی اشتراکی کمیٹیوں کو دئیے بغیر سرمائے کا کردار ختم نہیں ہو سکتا اور بدعنوانی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ کسی بیوروکریٹ یا سابق جرنیل کو ادارے کا کرتا دھرتا بنا دینے سے حاکم اور محکوم کی تفریق اور مفاد پرستی کی نفسیات ختم نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن حجم کے لحاظ سے بھی ادھوری تھی۔ پوری معیشت
اور مالیاتی شعبے کو ریاستی تحویل میں لے کر منڈی کا خاتمہ اور معاشی منصوبہ بندی کا آغاز نہیں کیا گیا۔سب سے زیادہ استحصال اور لوٹ مار میں ملوث سامراجی اجارہ داریوں کو تو چھوا بھی نہیں گیا تھا۔ ان ادھوری اور بعض صورتوں میں بے دلی سے کی گئی اصلاحات اور اقدامات نے بھٹو حکومت کو بحران اور انتشار سے دو چار کر دیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سامراج کی ایما پر فوج نے انہیں معزول کر دیا۔ بھٹو نے اپنی آخری کتاب ''اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں ادھورا انقلاب کرنے کی غلطی کو تسلیم کیا ہے۔
نیو لبرل ازم کی بنیاد دراصل ''ٹرکل ڈائون‘‘ معیشت کا بیہودہ مفروضہ ہے۔ یعنی محنت کش عوام کے ٹیکسوں اور خون پسینے سے تعمیر کئے گئے ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھائو سرمایہ داروں کو بیچ دیا جائے، ریاست معیشت میں سے ہر قسم کی مداخلت اور کنٹرول ختم کر دے یعنی سرمایہ داروں کو استحصال اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے کر سرمایہ کاری کے لئے ''ساز گار‘‘ ماحول پیدا کیا جائے، سرمایہ دار طبقے اور امیروں پر نہ صرف ٹیکسوں کی شرح کم کردی جائے بلکہ بوقت ضرورت ریاست سرمایہ داروں کو بیل آئوٹ یا قرضے کی معافی کی شکل میں ''ٹیکس‘‘ ادا کرے۔ ان تمام مراعات، سہولیات اور عیاشیوں کے ذریعے سرمایہ دار اپنی شرح منافع میں لا محدود اضافہ کریں گے اور جب ان کے جام بھر جانے کے بعد چھلکنے لگیں گے تو نیچے گرنے والے چند قطروں (ٹرکل ڈائون) سے کروڑوں اربوں کیڑے مکوڑے اپنی پیاس بجھائیں گے۔ یہ سرمایہ داری کا ''جدید‘‘ ماڈل ہے جس پر اس ملک کی تمام حاوی سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔ (جاری)