"DLK" (space) message & send to 7575

مفلوج آزادی

کبھی شہنشاہ جہانگیر کی جنت بے نظیر، کبھی جواہر لال نہرو کا رومانوی گلستان، کبھی محمد علی جناح کی استراحت کا جہاں تو کبھی شمی کپور کے گیتوں کو رعنائی بخشنے والے مناظر کی سرزمین۔۔۔۔ کشمیر۔۔۔۔ آج دکھی ہے، مجروح ہے، گھائل ہے، سسک رہی ہے۔ ''آزادی‘‘ اور ''جمہوریت‘‘ کے دعوے دار حکمرانوں نے کشمیر کے محنت کش عوام کو نسل در نسل سماجی اور معاشی ذلت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج نے 26 اکتوبر کو لند ن میں ہونے والے آزادی کشمیر ملین مارچ کو رکوانے کی بے پناہ سفارتی کوششیں کیں۔ بھارتی حکومت نے برطانوی حکومت کو اس مارچ کی اجازت دینے پر اعتراضات بھیجے اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایک حوالے سے یہ اعتراضات اور ناراضگی برطانیہ کو بھارتی حکمرانوںکی معاشی دھمکی کے مترادف تھی۔ بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر ورندر پال نے حال ہی میںلندن کی ایک بزنس میٹنگ میں برطانوی حکومت کے اس اجازت نامے پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا بلکہ دبے لفظوں میں تنبیہ بھی کی۔ اس اہم کاروباری اجلاس میں برطانیہ کا وزیر تجارت ونس کیبل بھی موجود تھا۔ صر ف اس ایک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کی سرکار ''اکھنڈ بھارت‘‘ کے سامراجی اور غاصبانہ عزائم میں جنون کی حد تک مبتلا ہے ۔
بی جے پی سرتوڑکوششیں کررہی ہے کہ کسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں کم ازکم اتنی نشستیں حاصل کرلے کہ کشمیر کی صوبائی سرکار میں شامل ہو سکے۔ سرحدوں پر جھڑپیں اورکشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کا میڈیا جارحیت کو مزید ابھارکر قومی اور مذہبی شاونزم کو ہوا دے رہا ہے اور مودی شیوسینا اور آر ایس ایس کو یہ باورکروا رہا کہ وہ انہی کی طرح جنونی ہے؛ اگرچہ اس سب کے پیچھے مقاصد کچھ ہی کارفرما ہیں۔ نریندر مودی نے دیوالی کشمیر میں منائی اور ایک میڈیا مہم کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر ''بھارت کا اٹوٹ انگ‘‘ ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، سرکار بی جے پی کی ہویا کانگریس کی، بھارت کی گلی سڑی سرمایہ دارانہ ریاست اور ''را‘‘ کی پالیسیاں ضرور لاگو کی جاتی ہیں ۔
پچھلے 67 سال سے کشمیر کے عوام کو بے دردی سے کچلا جارہا ہے۔ کشمیریوں کی اکثریت نسل در نسل اس استعمار کے خلاف شدید نفرت اور مزاحمت کرتی چلی آئی ہے‘ لیکن کشمیر کے حکمران طبقات کے بہت سے حصے اس استعمار سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ وہ ریاستی رٹ کو نہ صرف تسلیم بلکہ اس کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ آزادیٔ کشمیر کی تحریک اور جدوجہد نے بھی کئی شکلیں اختیار کیں۔ اس کی قیادت کبھی ترقی پسندانہ قوم پرستی کا نام لیتی تھی جس کی وجہ سے عوام کی دلی حمایت اس کو حاصل تھی۔ مقبول بٹ جیسے لیڈروں کے عہد میں سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ کشمیر کے نعرے گونجا کرتے تھے۔ ان قیادتوں کو کم از کم اتنا ادراک ضرور تھا کہ قومی محکومی کے ساتھ ساتھ عوام کی اکثریت معاشی و سماجی محکومی اور استحصال کا شکار ہے۔ لیکن پھر معروض کے بدلنے ‘ نظریات کی عدم پختگی اور سرمائے کی مداخلت سے کشمیری قوم پرست رہنمائوں نے تنگ نظر قوم پرستی میں غرق ہوکرسرمایہ دارانہ بنیادوں پر کشمیر کی ایک '' یونائیٹڈ سٹیٹس‘‘ بنانے کانعرہ لگایا جس سے ان کی ساکھ گرتی 
چلی گئی۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں ایک نظریاتی خلا پیدا ہوگیا جسے مذہبی بنیاد پرستی سے پُر کروانے کی کوششیں کی گئیں۔ آج حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کا سیاسی رہنمائوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ شاید کوئی بھی ایک ایسا لیڈر یا پارٹی نہیں جو کشمیر کے عوام کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرسکے۔
کشمیر میں1987ء سے چلنے والی تحریک نے‘ جسے کشمیری انتفادہ بھی کہا جاتا ہے‘ دہلی کے ایوانوں کو لرزا کے رکھ دیا تھا لیکن انقلابی نظریات اور مارکسی قیادت کے فقدان نے اس کا خون کرڈالا۔ دوسری جانب آزاد کشمیر میں بھی حالات مقبوضہ کشمیر سے زیادہ بہتر نہیں۔ یہاں کے باسیوں کے حالات ِ زندگی بھی بد سے بد تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم، علاج اور روزگار کے فقدان یہاں بھی ویسی ہی ہے، فقط جبر کے انداز بدل گئے ہیں۔ اس طرف حکمرانوں کے سخت کنٹرول میں صرف ''تابعدار‘‘ سیاسی پارٹیوںکو ہی ابھرنے دیاگیا۔ فلسطین کی طرح کشمیرکے قومی مسئلے کو پوری طرح مذہبی رنگ دے دیا گیا ۔کشمیرکے عوام کو برادریوں میں تقسیم کرکے سیاست کو بھی برادری اور ٹھیکیداری کا کھلواڑ بنا دیا گیا۔ مسئلہ کشمیرکو جس طرح داخلی بغاوتیں کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ برصغیرکے ڈیڑھ ارب باسیوں کو کشمیر کے اس تنازع میں جکڑ کر بھوک‘ ننگ ‘ غربت اور افلاس کی کھائی میں سسکایا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے نام پر عوام کو مفلس بنا کر فوجی طاقت اور اسلحہ کا کاروبار کیا گیا۔ اب نریندر مودی نے 70 ارب ڈالرکا نیا ''دفاعی‘‘ بل پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے جس جو اب یقیناً اس طرف سے ''دفاعی‘‘ بجٹ میں مزید اضافہ کر کے دیا جائے گا۔ بھارت اور پاکستان اسلحہ پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والے پہلے دس ممالک میں آتے ہیں جبکہ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں دونوں ممالک سب سے آخری نمبروں پر ہیں۔ 
''ملین مارچ‘‘ کی اجازت دینے والا برطانوی سامراج ہی تھا جس نے برصغیر پر اپنی براہِ راست حاکمیت کے خاتمے کے وقت دانستہ طور پر اس مسئلے کا زخم خطے پر لگایا تاکہ یہ رستا رہے، تنازع بھڑکتا رہے اور نتیجے میں پیدا ہونے والے عدمِ استحکام کے ذریعے نہ صرف سامراجیوں کی بالواسطہ حاکمیت قائم رہے بلکہ ان کے اسلحے کی صنعت بھی بھرپور منافع حاصل کرتی رہے۔ اس مسئلے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تجوریوں کو اسلحے کی کمیشن خوری سے خوب بھرا گیا۔ 
مودی سرکارکی زہریلی اور اشتعال انگیز جارحیت درحقیقت اس کی طاقت نہیں بلکہ کھوکھلی اور زوال پذیر معیشت کے باوجود بھارتی ریاست کے بڑھتے ہوئے سامراجی عزائم کی غمازی کرتی ہے۔ اس پاگل پن کا انجام سوائے مزید خونریزی، تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ پر پاکستان کی کمزوری اس کی معیشت کی بدحالی اور سیاسی و ریاستی انتشارکی وجہ سے ہے جس کا اظہار اس ملین مارچ میں بھی ہوا جہاں بلاول بھٹو زرداری کے خلاف تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے نعرے بازی کا واقعہ رونما ہوا۔ 
اصل مسئلہ یہ ہے کہ برباد تو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے محنت کش عوام ہی ہورہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کبھی بھارت، کبھی پاکستان تو کبھی دور دراز کے ممالک میں غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر بھٹکتے پھر تے ہیں۔ امن اور جنگ کے اس کھیل میں مسئلہ کشمیرکو کبھی ہلکی توکبھی تیز آنچ پر رکھ کر یہ حکمران کب تک ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں گے؟ ان ریاستوں اور حکمرانوں کی لڑائیاں بھی مفاداتی ہیں، دوستیاں بھی مطلب کی۔
دونوں اطراف کے کشمیر میں اب نئی نسل ماضی کی نسلوں کے تجربات سے اسباق حاصل کرکے سماجی اور معاشی مسائل کو ترجیح دیتے ہوئے جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ نوجوان اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی اور سیاسی ڈھانچوں کا ''پولیو‘‘ کشمیر کی ''آزادی‘‘ کو سدا مفلوج ہی رکھے گا اوریہ کہ علامات کی بجائے بیماری کا علاج ضروری ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور سرحدوں کے آر پار غربت، بھوک، محرومی اور جبر و استحصال کے ستائے ہوئوں کا ایک گہرارشتہ ہوتا ہے۔ یہی رشتہ ایک طبقاتی جدوجہد میںجڑ کر جاگ اٹھتا ہے تو سرکشی، بغاوت اور انقلابات جنم لیتے ہیں۔ یہ انقلاب جب جیتیں گے تو نہ صرف کشمیرکو اصل آزادی ملے گی بلکہ پورا برصغیر جنت بے نظیر بنے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں