"DLK" (space) message & send to 7575

کہاں سے آتی ہے یہ کمک ؟

امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کے استعفے نے اس بحران کو مزید عیاں کر دیا جس سے امریکی سامراج داخلی اور خارجی طور پر دو چار ہے۔ اس سے چند روز قبل امریکی پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات میں اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ بیشتر ڈیموکریٹ امیدوار انتخابی مہم میں خود کو اوباما اور اس کی پالیسیوں سے دور ثابت کرتے رہے۔ 
ڈیموکریٹک پارٹی کے اقتدار کو لگنے والے ان دونوں دھچکوں کی بنیادی وجہ امریکی سیاست اور معاشرت کا وہ انتشار ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کے گہرے بحران میں شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گزشتہ چھ سالوں کے دوران اوباما کی جانب سے لگائے گئے ''تبدیلی‘‘ کے نعرے سے وابستہ تمام امیدیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں۔ تاہم وسط مدتی انتخابات کے نتائج کو ریپبلکن پارٹی کی ''فتح‘‘ قرار دینا بھی غلط ہوگا۔ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل 64فیصد شہریوں نے حصہ لینا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ 36فیصد ٹرن آئوٹ میں سے ریپبلکن پارٹی کو پڑنے والے 20فیصد ووٹ بہت چھوٹی سی اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وڈال گور کے بقول امریکہ میں سرمایہ داروں کی ایک پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو ہیں اور امریکی عوام نے حکمران طبقے کی دونوں پارٹیوں کو یکسر مسترد کردیا۔ 
سامراجی قوتوں کے جبر و استحصال سے ''اپنے عوام ‘‘ بھی مستثنیٰ نہیں ہوتے۔امریکہ میں‘ امریکی ریاست کی وحشت کا اندازہ پولیس کے ہاتھوں نہتے شہریوں کی ہلاکتوں کے نہ ختم ہونے والے واقعات سے ہوتا ہے۔ ریاست اوہائیو میں 25نومبر کو پولیس اہلکار نے پارک میں کھلونا پستول سے کھیلنے والے سیاہ فام بچے کے جسم میں دو گولیاں اُتار دیں۔12سالہ تامیر رائس دو دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ اسی روز سپریم کورٹ نے اس پولیس افسر کو مقدمے سے بری قرار دے دیا جس نے تین ماہ قبل فرگوسن میں 18سالہ نہتے سیاہ فام نوجوان کو 9 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد فرگوسن میں پُرتشدد ہنگامے اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جو کئی دوسرے شہروں اور ریاستوں میں پھیل چکے ہیں۔ معاشی صورتحال یہ ہے کہ 1970ء کے بعد کئی دہائیوں تک منجمد رہنے والی امریکی محنت کشوں کی حقیقی اجرتیں 2008ء کے بعد سے گر رہی ہیں۔ دوسری طرف حکمران طبقہ دولت جمع کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ 
خارجی محاذ پر عراق اور افغانستان میں شکست کے بعد ''داعش‘‘ کے خلاف کارروائیوں میں اوباما کی ہچکچاہٹ تاریخ کی طاقتور ترین سلطنت کے زوال کی علامت ہے۔ داعش کا ابھار اور پھیلائو اتنا بھی اچانک نہ تھا جتنا کارپوریٹ میڈیا نے بنا کر پیش کیا۔ امریکی سامراج کے پالیسی سازوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رکھیں اور جب پانی سر سے گزرگیا تو بوکھلاہٹ کے عالم میں حماقتیں کی گئیں۔ چک ہیگل کے استعفے کی اہم وجہ یہ ناکامی ہی بنی۔ امریکہ کے کٹھ پتلی حکمران اپنے آقا کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حدود و قیود عبور کرنے لگے۔ عراق میں نوری المالکی کا کردار وہی تھا جو افغانستان میں کرزئی کا۔ ایسی کٹھ پتلیاں بعض اوقات اپنے آقائوں کو بھی نچوانے لگتی ہیں۔ عراقی حکومت فرقہ واریت پر مبنی وحشیانہ پالیسیاں نافذ کرتی رہی اور شام میں جاری خانہ جنگی میں امریکہ 
کی اتحادی بعض عرب ریاستوں کی مداخلت نے جلتی پر تیل ڈالا۔ دو بڑے فرقوں کے درمیان فسادات، تضادات اور تنازعات بھڑک کر جنون کی شکل اختیار کر گئے جس میں سے داعش کی فسطائیت ابھر کر سامنے آئی۔اب داعش کو ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر بمباری کی جارہی ہے۔ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں۔ 
لیکن اوباما کرے تو کرے کیا؟ وہ جس نظام کے بل بوتے پر سامراجی تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے وہ خود نیم مردہ حالت میں وینٹی لیٹر پر پڑا ہے۔ نئی عسکری جارحیت کی سکت امریکی معیشت میں نہیں ہے۔ آرمی بھیجے بغیر کوئی فیصلہ کن فوجی آپریشن نہیں ہوسکتا۔ امریکی عوام مزید سپاہیوں کی لاشیں وصول کر نے کو تیار نہیں۔ اسلحہ ساز کمپنیاں جنگ چاہتی ہیں لیکن ریاست قرضوں اور خساروں تلے دبی جارہی ہے۔ 
عراق اور شام کے جن علاقوں پر داعش کا قبضہ ہے ان کا مجموعی رقبہ برطانیہ سے زیادہ اور آبادی 80لاکھ ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ امریکی سامراج کو یہ درپیش ہے کہ داعش کو ملنے والے پیسے اور اسلحے کی کمک کو کس طرح روکا جائے۔ ''کردستان ریجنل سکیورٹی کونسل‘‘ کے سربراہ مسرور برزانی کے مطابق داعش کی روزانہ آمدن 80لاکھ ڈالر ہے اور اس پیسے کا بڑا حصہ نقد ڈالروں کی شکل میں سوٹ کیسوں میں باہر سے آتا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کے سیکرٹری اور تجزیہ نگار ڈیوڈ کوہن کے مطابق ''آج تک امریکہ کو اتنا زیادہ فنڈ حاصل کرنے والی دہشت گرد تنظیم سے پالا ہی نہیں پڑا۔‘‘داعش کی آمدن کے اہم ذرائع میں مقبوضہ علاقوں میں تیل کے ذخائر، مختلف ممالک سے رقم بھیجنے والے دولت مند ہم خیال، بھتہ، بینک ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، تاریخی نوادرات کی یورپ اور امریکہ میں فروخت اور قیدی خواتین کی فروخت وغیرہ شامل ہیں۔ 
داعش نے گزشتہ دنوں جن امریکی اور برطانوی شہریوں کا سر قلم کرنے کی ویڈیو جاری کی‘ انہیں بھی تاوان کے لئے اغوا کیا گیا تھا۔ امریکی جریدے نیوزویک کے مطابق '' امریکی صحافیوں جم فولی اور سٹیفن سوٹلوف کے خاندانوں کو امریکی خفیہ اداروں نے سخت تنبیہہ کی تھی کہ داعش کو تاوان کی ادائیگی قابل سزا جرم ہے۔ پیسے نہیں بھیجنے دئیے گئے اور داعش نے دونوں کے سر قلم کر دئیے۔‘‘ سکیورٹی کے ایک برطانوی ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ''داعش نے ان لوگوں کو مذہبی یا سیاسی وجوہ کی بنا پر نہیں بلکہ تاوان کی مانگ پوری نہ ہونے پر قتل کیا۔‘‘یاد رہے مارچ اور اپریل میں تاوان کی رقم مل جانے پر داعش نے دو ہسپانوی اور چار فرانسیسی صحافیوں کو رہا کر دیا تھا۔ فرانس نے ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر تاوان ادا کیا تھا اگرچہ سرکاری طور پر اس کی تردید کی گئی۔ 
نیوز ویک کی ہی رپورٹ کے مطابق داعش نے 400 خواتین کو قیدی بنا کر فروخت کردیا۔ ترکی کے راستے بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت بھی جاری ہے۔ عالمی منڈی میں 80ڈالر کے برعکس داعش کے بیوپاری لوٹ کے تیل کو 50یا 60ڈالر فی بیرل پر فروخت کر رہے ہیں۔
امریکہ کے منجھے ہوئے سفارتکار پیٹر گلبرتھ کے مطابق ''مشکل لگتا ہے کہ ہم ان پر غالب آسکیں۔‘‘امریکی سامراج کی بے بسی واضح ہے۔ داعش کو فنڈ دینے والے زیادہ تر امیر لوگوں کا تعلق ایک دو خلیجی مملکتوں سے ہے۔ کویت کو امریکہ نے ہی صدام حسین سے ''آزاد‘‘ کرایا تھا۔ ترکی بھی امریکہ کا اہم نیٹو اتحادی ہے جس کی سرحد سے داعش کو افرادی، مالی اور عسکری رسد جاری ہے۔ 
امریکی جارحیت سے پہلے کسی مذہبی دہشت گرد تنظیم کا وجود عراق میں نہیں تھا۔ ''دہشت کے خلاف‘‘ جنگ شروع ہونے کے 11سال بعد پورا خطہ مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت کی آگ میں جل رہا ہے۔ امریکی جارحیت نے وہ آگ بھڑکائی ہے جو اس کے اپنے قابو سے باہر ہے۔ امریکی سامراج نے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران انڈونیشیا سے لے کر پاکستان، افغانستان اور مصر تک بنیاد پرستی کو اپنے مفادات کے تحت ابھارا اور استعمال کیا ہے، شام سمیت کئی ممالک میں آج بھی کررہا ہے۔ سب سے بڑے دہشت گرد یہ سامراجی خود ہیں۔ سامراجی وحشت گری ہو یا مذہبی دہشت گردی، اس بربریت کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے مشروط ہے جو گل سڑ کر انسانی سماج کو تعفن زدہ کرتا چلا جارہا ہے۔ سامراج کی ان جنگوں اور خانہ جنگیوں سے نجات اس نظام کے خلاف فیصلہ کن طبقاتی جنگ سے ہی ممکن ہے۔ یہ فریضہ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ادا کرنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں