اس وقت جب برطانوی لڑاکاطیارے باغی جہازیوں پر بموں اور گولیوں کی برسات کررہے تھے، سردار پٹیل نے متنازع بیان جاری کیا: ''چند بدقماش جوشیلے اور غنڈہ قسم کے نوجوان خواہ مخواہ اپنی سرگرمیوں سے سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں ،حالانکہ ان کو سیاست کی قطعاً کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے‘‘۔ایس کے پٹیل اور آئی آئی چندریگر‘ جو ا س وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے سربراہ تھے ،نے کمال اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکارکو پیشکش کی کہ ''ہم اپنے رضاکار، پولیس کی مدد کیلئے فراہم کرنے کو تیار ہیں۔‘‘گاندھی نے کہا کہ اس قسم کے واقعات سے دنیا بھر میں ہندوستان کی ''بدنامی‘‘ اور ہماری ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ہندوئوں‘ مسلمانوں اور دیگر کی طرف سے اس قسم کی پرتشدد کارروائیاںسراسر ''غیر مقدس‘‘ ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزادکا کہنا تھا کہ یہ ابھی براہ راست عمل کا وقت نہیں ہے۔ ان کے بقول ''ابھی ہمیں واقعات کے تسلسل کو دیکھنا چاہئے اور برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے‘‘۔ جبکہ اس کے برعکس نہرو کاموقف تھا کہ ''جو کچھ ہو رہاہے اور ہو چکاہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سے سماج دشمن عناصر بمبئی جیسے بڑے شہروں میں صورتحال کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ہماری آزادی کا دن زیادہ دور نہیں اور ایسے اشارے موجود ہیں جن سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی جیتنے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں مگر میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ ہم میں اس نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے جو ایک آزاد ملک کیلئے ضروری ہوتا ہے۔‘‘
اپنی قومی و ملکی قیادت کے اس مایوس کن،حوصلہ شکن اور روح فرسا رد عمل سے دلبرداشتہ ہوکر ایم ایس خان نے ہڑتالی کمیٹی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تجویز رکھ دی۔36رکنی کمیٹی نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔کئی گھنٹے اس جان لیوا کیفیت میں گزرے ۔ملکی و قومی قیادت نے سر دھڑ کی بازی لگا ئی کہ جہازیوں کی اس بغاوت کوبرصغیر میں پھیلی قومی آزادی کی تحریک کے ساتھ کسی طور بھی نہ جڑنے دیا جائے اور تنہا کرکے کچل دیا جائے۔ہڑتالی کمیٹی کے ارکان اس کیفیت سے بددل ہو ناشروع ہو گئے۔
24فروری کی صبح ''HMSتلو ار‘‘پر ہڑتالی کمیٹی کی میٹنگ شروع ہوئی۔جوصورتحال بن چکی تھی، اس سے یہی لگتا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کے سواکوئی راستہ نہیںبچا؛ چنانچہ صبح 6بجے جہاز پر سیاہ جھنڈے لہراکرہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اپنی اس آخری میٹنگ میں ان باغی جہازیوں نے جنوبی ایشیا کے محروم و مقہور عوام کے نام ایک قرارداد پیش اور منظور کی: ''ہماری یہ سرکشی اور بغاوت ہم محروم لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا ،سب سے اہم تاریخی واقعہ تھی۔ پہلی بار یہ ہوا کہ وردی اور بغیر وردی کے مزدوروں کاخون ایک ہی مقصدکیلئے ایک ساتھ سڑکوں پر موجزن ہوا۔ہم وردی کے مزدور کبھی بھی اسے فراموش نہیں کر پائیں گے۔ہم یہ بھی سمجھتے اور جانتے ہیں کہ آپ بغیر وردی والے محنت کش بھی اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ہمیں یقین ہے ہماری آنے والی نسلیں اس واقعے سے سبق سیکھیں گی اور ہم جو حاصل کرنے میں ناکام رہے وہ اسے ہر حال میں حاصل کر کے چھوڑیں گی۔محنت کش طبقہ زندہ باد۔انقلاب زندہ باد‘‘
ہتھیار ڈالنے کے باوجود سرکشی کرنے والوں کی اکثریت کو گرفتار کر لیا گیا۔متحرک کردار ادا کرنے والوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ 15مارچ کو رائل انڈین نیوی کے سرکش سپاہیوںنے جیلوں میں بھوک ہڑتال کر دی۔تحریک آزادی کی ''قومی قیادت‘‘ نے ان کے حق میں کسی قسم کا احتجاج کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ یہی حالت قومی آزادی کی علمبردار بڑی پارٹیوں کی بھی رہی اور انہوں نے کسی قسم کا احتجاج نہ کیا۔آزادی کے بعد بچ جانے والے باغیوں میں سے کئی ہجرت کر کے پاکستان آئے کہ شاید یہاں انہیں ایک نئی شناخت ‘نیا تشخص میسر آجائے لیکن ان کے خواب چکنا چور ہو گئے اور انہیں رائل پاکستان نیوی میں کام کرنے کا اہل ہی نہیں سمجھا گیا۔کچھ ایسی ہی بدقسمتی بھارت میں رہ جانے والے ان کے ساتھیوں کا مقدر بھی بنی۔
سال 1946ء مزدورتحریک کی بے چینی کے حوالے سے بھی بے مثال اور یادگار سال ثابت ہوا۔یہی نہیں بلکہ اس کی کوکھ سے کئی نئی طاقتور تحریکوں نے جنم لیا ۔خاکروبوںسے لے کر کان کنوں تک، ریل کے مزدوروں سے لے کر سفید پوش پوسٹل ورکروں اور بینک ایمپلائز تک، یہاں تک کہ فوجی اداروں کی انتظامیہ کے ملازمین تک ان مظاہروں اور ہڑتالوں میں شریک ہوئے۔ ریلوے اور پوسٹل ورکرز تو سارے ہندوستان میں ہڑتال پر چلے گئے تھے جبکہ اس دوران الٰہ آباد میں80000مظاہرین نے دفاتر کا گھیرائو کرلیاتھا۔
اس بغاوت کی شدت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو دہلا کے رکھ دیاتھا اور اس کے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوئے تھے۔کمیونسٹ قیادت شدید دبائو میں تھی اور نیچے سے اس کے کارکنوں میں تذبذب بڑھتا ہی چلا جارہاتھا۔کمیونسٹ پارٹی نے بمبئی میںایک عام ہڑتال کی کال دی جس نے سارے شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ جب ریاست کے مسلح جتھے احتجاج کرنے والوں کو کچلنے کیلئے نکلے تو مزدوروں نے سارے رستے اس طرح سے بند کر دیے کہ وہ کوئی نقل وحرکت ہی نہ کر پائے۔ شہر کی سبھی گلیاں اور رستے کارزار بن گئے۔تین دنوںتک جاری رہنے والی،ریاستی اداروں کے ساتھ ان جھڑپوں کے نتیجے میں 400سے زائد افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔بمبئی کی ہڑتال کے دوران ہندو مسلم مزدوروں نے باہم مل کر محاصرے ترتیب و تشکیل دیے تھے۔کلکتہ اور دوسرے کئی شہروں میں ہند و ئوں اورمسلمانوں نے انڈین نیشنل آرمی کے گرفتار شدہ سیاسی ورکروں اور عہدیداروں کی رہائی کیلئے بے شمار مظاہرے اور احتجاج منظم کیے ۔ ان گرفتارشدگان کا تعلق ہر مسلک و مذہب سے تھا۔سارے برصغیر میں پھیلی ہوئی اس عوامی تحریک کا نشان سرخ پرچم تھا۔
19مارچ1946ء کو ملک کے سبھی اہم شہروں میں موجود پولیس کے مراکز میں ایک ہڑتال پھٹ پڑی۔الٰہ آباد میں توپولیس نے بھوک ہڑتال کر دی۔دہلی پولیس 22مارچ کو ان کے ساتھ شریک ہوگئی۔3اپریل کو بہار میں 10000پولیس اہلکار ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔2مئی 1946ء کو نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ہڑتال ہوگئی۔پھر 11جولائی کو پوسٹل ورکز نے سارے ملک میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔اس کے ساتھ ہی صنعتی مزدوروں نے بھی ہڑتال کے اس عمل میں بھرپور شرکت کا اعلان کردیا۔یوںسارا ہندوستان ان سرکشیوں‘بغاوتوں اور ہڑتالوں کا حصہ بن گیا۔
یہ سبھی ہڑتالیں اور مظاہرے سختی کے ساتھ کچل دیے گئے مگر اس سے قابض برطانیہ کو یہ سمجھ آگئی کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا!اسی کے براہ راست نتیجے میں برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ کو اعلان کرنا پڑگیا کہ برطانیہ جون 1948ء سے پہلے ہی ہندوستان چھوڑ دے گا۔ ایک تحریک کو کچلتے ہوئے برطانوی حکمرانوں کا اعتماد کھوکھلا اور شکستہ ہو چکا تھا۔برطانوی سامراج ،مقامی حکمران طبقے کے ساتھ ساز باز کرکے برصغیر کی تقسیم کا منصوبہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان واقعات کے بعد برطانویوں نے طے کر لیاتھا کہ وہ ہندوستان کو چھوڑدیں گے مگر ایسے نہیں چھوڑیںگے۔ فیصلہ کرلیاگیا تھا کہ برطانوی راج اپنے پیچھے متحدہ ہندوستان نہیں بلکہ منقسم و منتشر ہندوستان ہی چھوڑکر جائے۔ اسے تقسیم ہونا تھا۔ یہ طے ہوگیا کہ برطانیہ ''تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہی برصغیر سے جائے گا۔
بھارت اور پاکستان، دونوں ملکوں کی مروجہ سیاسی تاریخ میں ایسے عظیم الشان واقعات کا سرے سے ریکارڈ نہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ایسے کئی بڑے زندہ و پائندہ واقعات اور بھی ہیں جنہیں ابھی عوام کے سامنے لایا جانا باقی ہے۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کی نئی نسلوں کو باغی جہازیوں کے آخری پیغام اور ان کے ولولے سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ (ختم)