لوزانے سوئٹزر لینڈ میں کئی ماہ کے سفارتی مذاکرات کے بعد P5+1 ممالک اور ایران کے درمیان ہونے والے 'معاہدے‘ کی بڑی پذیرائی ہو رہی ہے۔ نہ صرف ریاست پاکستان کے سرکاری ترجمان بلکہ بڑے سیاستدان بھی اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں‘ لیکن جو کچھ طے پایا ہے وہ کوئی ''معاہدہ‘‘ نہیں ہے بلکہ ایک معاہدے کی طرف فریم ورک پر اتفاق کا سمجھوتہ ہے۔ الجزیرہ کے مطابق ''امریکہ، ایران اور دوسری عالمی طاقتوں کے درمیان جو اتفاق رائے ہوا ہے وہ حتمی اور جامع سمجھوتے کو تین ماہ میں مکمل کرنے کی راہ ہموار کرے گا‘‘۔ پریس کانفرنس میں یورپی یونین کے امور خارجہ کی نمائندہ فیڈریکا موگرینی کا کہنا ہے کہ ''ایک فیصلہ کن قدم اٹھایا جاچکا ہے‘‘۔
مذاکرات کے دوران اور سمجھوتے کے بعد اسرائیل کے بنیاد پرست وزیر اعظم نے اس عمل کے خلاف بیان بازی کی جارحانہ مہم جاری رکھی ہے۔ ایران کا علاقائی اثر ورسوخ بڑھنے کے امکانات سے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو خطرہ لاحق ہے۔ ایران کی جوہری طاقت اور ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کو مبالغہ آرائی سے پیش کرکے اسرائیل کے حکمران مغرب میں اپنی حمایت بڑھانے کے لیے کوشاںہیں۔ ادھرامریکہ کی سیاسی و ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا ری پبلکن دایاں بازو اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش نظر آرہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے اپنے پاس اس وقت 200 سے زائد ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ کے مطابق آج سے 28 سال قبل ہی اسرائیل ایک ہزار ایٹم بموں سے زیادہ تباہی پھیلانے والا ہائیڈروجن بم بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مغربی سامراج کی اسرائیل کو حاصل آشیر بادکی وجہ سے کارپوریٹ میڈیا پر اس عمل کو بڑی حد تک پوشیدہ رکھا گیا۔ اتنے بڑے اور تباہ کن ایٹمی پروگرام پر سامراج کی یہ مجرمانہ خاموشی ظاہرکرتی ہے کہ سامراجی قوتوں کے مالی اور سٹریٹیجک مفادات کے سامنے ''انسانی حقوق‘‘ سے لے کر ''عالمی امن‘‘ تک، سب کچھ ہیچ ہے۔
بارک اوباما حکومت ایران کے ساتھ معاہدے کے لیے اس لیے زور لگارہی ہے کہ عالمی سطح پر بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص، امریکی سامراج کی تمام سفارتی اور عسکری پالیسیاں بری طرح سے ناکام ہورہی ہیں۔ شام پر حملے کی تیاری مکمل کر کے بحری بیڑے بھیج دینے کے بعد بالکل آخری وقت پر امریکہ کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ عراق کی صورت حال سب سے سامنے ہے۔ فلسطین ـ اسرائیل ''مذاکرات‘‘ ڈرامے کی حد تک بھی امریکی حکمران نہیں کروا پا رہے ہیں۔ اوباما کے اقتدار میں فلسطینیوں کی زندگی اور اسرائیل کی جارحیت بد سے بد تر ہوئی ۔ ہر طرف سے نامرادی کا سامنا کرنے کے بعد اپنی ساکھ بچانے کے لیے اوباما حکومت یہ ''تاریخی معاہدہ‘‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی سامراج کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کا مذہبی جنونی حکمران دھڑا اس حد تک سرکش ہو چکا ہے کہ امریکی صدرکو چڑانے کے لیے اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر ری پبلکن پارٹی کی مدد سے نیتن یاہو نے نہ صرف امریکی کانگریس سے خطاب کیا بلکہ اوباما کوکھل کر تنقیدکا نشانہ بنایا۔ شاید ہی امریکہ کی تاریخ میں اس کے 'اتحادی‘ اسرائیل کی جانب سے امریکی صدرکی اتنی تذلیل کی گئی ہو۔ یہ سب کچھ اس مہلک بیماری کی سیاسی، سفارتی اور عسکری علامات ہیں جو امریکہ کی معیشت کو مفلوج کرتی جارہی ہے۔ امریکی سامراج کی بے بسی کا فائدہ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس کے کئی دوسرے 'اتحادی‘ ممالک بھی اٹھا رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں شرمناک شکست کے بعد علاقائی طاقتوں کی یہ خود سری خاصی بڑھ چکی ہے۔ روم سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک، ہر سامراجی طاقت اسی انجام سے دوچار ہوئی ہے۔
دوسر ی طرف ایران بھی اس متوقع معاہدے کو اپنے داخلی اور خارجی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے ایرانی ریاست کے محدود جوہری پروگرام اور اثاثوں کو تحفظ ملے گا۔ اگلے 10سے 15سال تک اگرچہ وہ پلوٹونیم یا یورینیم کی افزودگی روکنے کے پابند ہوں گے لیکن بدلے میں جوہری تنصیبات پر حملہ نہ ہونے کی گارنٹی دی جائے گی۔ معاشی پابندیاںاٹھنے سے ایران کے حکمران طبقے کو فائدہ ہوگا جس کے ثمرات غریب ایرانیوں اور محنت کشو ں تک پہنچنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ نتیجتاً طبقاتی تضاد اور بھی شدید ہوگا اور مذہبی اشرافیہ کے خلاف عوام کی نفرت بڑھے گی۔ ایرانی حکمران خواب دیکھ رہے ہیں کہ اس معاہدے کے ذریعے وہ پہلوی بادشاہت کی طرح خطے پر امریکی تسلط میں حصہ دار بن جائیں گے جو کہ خارج از امکان نہیں ہے۔
اپنے اقتدار اور ایرانی عوام پر حکمرانی کو جواز فراہم کرنے کے لیے یہ مذہبی اشرافیہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل خارجی دشمن تراشنے اور نئے محاذکھولنے کی حکمت عملی اپناتی رہی ہے۔ ان جعلی دشمنیوں میں امریکہ مخالفت سب سے اہم تھی اور افغانستان اور عراق میں امریکی سامراج کی درپردہ حمایت کے باوجود ''مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعرے کے ذریعے ایرانی عوام کو فریب دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ دولت اور طاقت کی ہوس میں امریکہ سے ''مصالحت‘‘ کے ذریعے ریاستی جبرکا سب سے بڑا جواز ختم کرکے مذہبی اشرافیہ اپنے پیر پر ہی کلہاڑی مار رہی ہے۔ امریکہ دشمنی سے پسپائی کا ازالہ کرنے کے لیے ایرانی ریاست شیعہ سنی تضاد اور سعودی عرب دشمنی کو ابھارنے کی کوشش کرے گی جس سے خطے کا خلفشار بڑھے گا، پراکسی جنگیں شدت اور وسعت اختیارکریںگی۔
خلیجی حکمران ہوں‘ شام ہو یا یمن‘ اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ خطے میں اس وقت تین بڑے متحارب اتحاد پراکسی جنگوں میں سرگرم ہیں۔ پہلا اتحاد ترکی، قطر اور اخوان المسلمین کا ہے جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے الحاق سے برسر پیکار ہے۔ اب علاقائی قوت کے طور پر ایران کا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے جس کا ایک دوسرے سے برسرپیکار ان دو اتحادوں سے بالواسطہ ٹکرائو تیزی سے براہ راست جنگ (خاص کر یمن اور عراق میں) میں تبدیل ہورہا ہے۔ فرقہ واریت کے نام پر لڑی جانے والی پراکسی جنگوں کی آگ پھیلتی جارہی ہے۔ عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ ان ممالک کو نوچ رہے ہیں ۔ تیل اور دوسری معدنیات کی دولت اور اسٹریٹیجک اہمیت کو اس نظام نے خطے کے عوام کے لیے عذاب بنا کے رکھ دیا ہے۔لیکن مشرق وسطیٰ کو برباد کرنے والے ان حکمرانوں کے خلاف ان کے اپنے ممالک میں شدید نفرت موجود ہے۔ اسرائیل میں صہیونی ریاست کے خلاف ایک اور تحریک پک رہی ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب کے دوران پورے خطے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بغاوت اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی صلاحیت کا مظاہرہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کا بحران جوں جوں بڑھے گا، سامراجی قوتوں کے اتحادبننے اور ٹوٹنے کا عمل اتنا ہی تیز ہوگا۔ مالی مفادات کے لیے حکمرانوں کی وفاداریاں بدلتی رہیں گی۔ یہ حکمران طبقے کے مفادات ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ عوام کے مفادات سے متضاد ہیں۔
صورت حال جتنی تیزی سے بدل رہی ہے اس کے پیش نظر امریکہ ایران معاہدے کی تکمیل سے پہلے ہی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جو ان سامراجی معاہدوں کے پرخچے اڑا دیں۔ ایرانی اشرافیہ کے خلاف 2009ء میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھی مختلف چھوٹی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔ ایک بڑی عوامی بغاوت کے ابھرنے کے وسیع امکانات اب بھی موجود ہیں جو پوری ریاست کو اکھاڑ سکتی ہے۔ اسی طرح عرب انقلاب کی نئی لہر عرب اور خلیج کے ممالک تک پہنچ سکتی ہے۔ 2011ء کی تحریک زائل ہونے سے جو وحشت مسلط ہوئی ہے اس کا ازالہ ایک اور انقلاب ہی کر سکتا ہے جسے بالشویزم کے نظریات سے لیس کرکے اس نظام زرکا خاتمہ کیا جاسکتا ہے جو تمام تر بربادی اور خونریزی کی بنیادی وجہ ہے۔