"DLK" (space) message & send to 7575

زرد بلدیات

مہذب معاشرے میں اپنے مسائل کو اشتراکی بنیادوں پر خود حل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لینا عوام کے لیے یقیناً خوش آئند امر ہے۔ تعلیم، علاج، پانی، بجلی، نکاس وغیرہ کے مسائل گلی محلے یا علاقے میں جمہوری انداز میں حل کرنا سماجی آزادی کی طرف بڑا قدم ہوگا۔ اپنی اساس کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات کو ایک مثبت پیش رفت ہونا چاہیے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں ان کی تاریخ اور ترویج کا جائزہ لیا جائے تو ان کے ذریعے عوام کے بنیادی مسائل حل ہونے کی کوئی دلیل یا مثال نہیں ملتی۔ بلدیاتی انتخابات نام نہاد جمہوری ادوار سے زیادہ فوجی آمریتوں کا خاصہ رہے ہیں۔
اس ملک کا حکمران طبقہ اپنی معاشی کمزوری اور بدعنوانی کی وجہ سے قومی جمہوری نظام اور بالائی سیاسی ڈھانچے مستحکم بنیادوں پر تعمیر نہیں کر پایا۔ حکمران طبقے کے سیاست دانوں نے جب بھی براہ راست اقتدار سنبھالا تو لوٹ مار کے تحت جنم لینے والی ان کی آپسی لڑائیوں اور بدعنوانی کی ہوس نے اقتصادی، سیاسی اور ریاستی بحران کو جنم دیا۔ یہ کیفیات جب پورے نظام کے لیے خطرہ بننے لگیں تو ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ اقتدار پر قابض ہوتا رہا۔ فوجی حکومتیں بھی وقتی طور پر ہی تضادات کو دبا سکیں اور وقت کے ساتھ خود سماجی خلفشار کا شکار ہوتی رہیں۔ بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی اور بڑے دھماکے کے خطرے کے پیش نظرآمریتوں کو طوالت دینے کے کئی سیاسی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن میں سے ''غیر سیاسی‘‘ بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات سب سے اہم تھے۔
ظاہری طور پر یہ آمریتیں سول سیاستدانوں کے دھینگا مشتی کے رد عمل میں نازل ہوتی ہیں لیکن ان کا مقصد عوام کی تحریکوں اور
محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کو کچلنا ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کے سیاسی بحران سے برآمد ہونے والی ان آمرتیوںمیں جنم لینے والے خلا کو پر کرنے کے لیے بلدیاتی سیاست کو استعمال کیا جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے تو اپنا پورا ''سویلین‘‘ سیاسی ڈھانچہ بلدیاتی اداروں کی ''بنیادی جمہوریت‘‘ پر تعمیر کیا تھا۔ صدارتی انتخابات میں جو الیکٹورل کالج تشکیل دیا گیا تھا اس میں صرف اپنے بلدیاتی نمائندوں کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ ضیاء الحق نے ان اداروںکو ''سیاست‘‘ ختم کرنے ذریعہ بنایا۔ نظریاتی سیاست کو کچلا گیا لیکن مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، ذات پات اور برادری کے تعصبات کو خوب ہوا دے کر ''ووٹ بینک‘‘ کی بنیاد ہی رجعت کو بنانے کی کوشش کی گئی۔ بعد کے جمہوری حکمرانوں نے بھی یہ عمل جاری رکھا کیونکہ طبقاتی سیاست سے یہ سویلین حکمران، فوجی آمروں سے بھی زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں۔
سویلین افسر شاہی اس طرح کے انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ نظریاتی سیاست جب ناپید ہو تو ریاست کی اطاعت معاشرتی معمول بن جاتی ہے۔ ایسے میں درمیانے یا نچلے درمیانے طبقے کے بلدیاتی نمائندے حکمرانوں کے آلہ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
جمہوری حکومتیں پچھلے آٹھ سال سے چلی آ رہی ہیں۔ ''جمہوری اقتدار‘‘ کی جمہوری منتقلی بھی ہو چکی ہے لیکن بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جانے کی وجہ سیاسی کاروبار کے تقاضے ہیں۔کروڑوں روپے لگا کر الیکشن جیتنے والے خدمت کے کسی جذبے کے تحت تو یہ سب نہیں کرتے۔ بھاری سرمایہ کاری سے ایم این اے اور ایم پی اے بننے والوں نے اپنے خرچے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں اور منافع بھی کمانا ہوتا ہے اور اس مال میں سے اوپر حصہ بھی دینا ہوتا ہے۔ اگر وہ ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے فروخت نہ کریں، پرمٹ اور نوکریاں نہ بیچیں، کمیشن نہ بنائیں اور بدعنوانی کے دوسرے دھندے نہ کریں تو یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی یہاں موٹر وے یا میٹروبس جیسے چند بے معنی اور بڑے منصوبوں کی بڑی تشہیر کر کے باقی منصوبوں میں کھلی بدعنوانی اور بندر بانٹ کی واردات کی جاتی ہے۔
اب چونکہ ان حکمرانوں میں آپسی تنائو بہت بڑھ گیا ہے، اپنی ساکھ بچانے کے لیے عدلیہ اور دوسرے ریاستی ادارے بھی دبائو ڈال رہے ہیں اور حکومت کی تقریباً آدھی میعاد بھی پوری ہو گئی ہے تو بلدیاتی انتخابات کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بلدیاتی انتخابات کی بنیادیں کیا قومی اور صوبائی انتخابات سے مختلف ہیں؟ چھوٹی سہی لیکن ان میں کیا سیاسی سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی؟ اگر کردار وہی ہے تو نتائج کس طرح سے مختلف ہو سکتے ہیں؟
آنے والے بجٹ میں دفاع کے لیے 817 ارب روپے جبکہ سامراجی قرضوں پر سود کے لیے 1406ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تمام ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2015-16ء میں صرف 580 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ہر سال کی طرح دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کی رقوم بعد ازاں بڑھا دی جائیں گی اور ''ترقیاتی اخراجات‘‘ سکڑتے چلے جائیں گے۔ ترقی کی مد میں مختص کی گئی یہ ساری رقم بھی بالفرض پوری دیانت داری سے خرچ کر دی جائے تو اس ملک کے زبوں حال انفراسٹرکچر اور سماجی ڈھانچے کے مد نظر اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ لیکن ''اقتدار کے نیچے منتقلی‘‘ کے بعد جو فنڈ ملیں گے انہیں بھی کئی طرح کے اضافی ''فلٹروں‘‘ سے گزرنا پڑے گا۔ پہلے تو چند قطرے شاید نیچے پہنچ جاتے ہوں، اب نہیں پہنچیں گے۔
لینن نے جب کہا تھا کہ ''سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے‘‘ تو اس کا مطلب بالکل واضح تھا کہ معاشی وسائل کے بغیر سیاست کی کوئی شکل کارگر نہیں ہو سکتی۔ منافع خوری کے نظام میں ویسے ہی منافع خوری کی سیاست حاوی ہوتی ہے۔ بالادست طبقے کے مفادات ہی اس پر قابض رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ گنجائش موجود تھی اور تھوڑی بہت اصلاحات نیچے تک پہنچ جایا کرتی تھیں۔ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں، عالمی معیشت جب 'پوسٹ وار بوم‘کے ابھار پر تھی، تو سماجی انفراسٹرکچر اور عوامی سہولیات میں کچھ بہتری ہوجایا کرتی تھی۔ آج عالمی سطح پر اس نظام کا کردار بالکل الٹ گیا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی بیساکھی پر کھڑے پاکستان جیسے ممالک میں ترقیاتی کاموں کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔ انفراسٹرکچر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے اور مزید نوٹ چھاپنے سے معیشت کا پٹاخہ بول جائے گا۔
ایسے میں حقیقی طور پر عوامی فلاح کی نیت رکھنے والے بلدیاتی نمائندوں کے پاس بھی وسائل نہیں ہوں گے، یہ بس خانہ پوری اور سیاسی سٹنٹ ہیں۔ پیسے کی اس سیاست میں اس کے علاوہ ممکن بھی کیا ہے؟ جب معیشت کا مقصد انسان کی ضروریات کی تکمیل نہ ہو تو کوئی بہتری کیسے ممکن ہے؟اس بیمار سیاست سے حقیقی ایشوز ویسے بھی خارج کر دیے گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی برادری یا فرقے، حب الوطنی اور ''بیرونی ہاتھ‘‘ کی بات ہی ہوگی۔
عوام کی زندگی بدلنی ہے تو اس نظام کو بدلنا ہو گا۔ یہ محنت کش طبقے کا فریضہ ہے جو کوئی فرد یا دوسرا طبقہ ادا نہیں کر سکتا۔ جب تک معیشت کا کردار نہیں بدلے گا، منڈی اور منافع کا خاتمہ نہیں ہوگا، سیاست کاروبار ہے اور رہے گی، چاہے وہ اوپر کی سیاست ہو یا نیچے کی بلدیاتی سیاست پر ۔ ترقی کے معاشی وسائل سے محروم سیاست میں سماجی زندگی سوکھ جاتی ہے۔ بارش کے بغیر زمین بانجھ ہو جاتی ہے اور خون کے بغیر جسم زرد پڑ جاتا ہے۔ سماجی دولت اور وسائل جب تک مٹھی بھر حکمران طبقے کے قبضے میں ہیں، یہ بلدیاتی نظام بھی زرد اور بانجھ رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں