ہمارے حکمرانوں نے ''اقتصادی کوریڈور‘‘ کا خوب شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔ اس کی تکمیل (اگر ہوتی بھی ہے) میں ابھی پندرہ بیس سال پڑے ہیں لیکن اس گردان سے ان کا چینی سرمایہ کاری پر عدم اعتماد عیاں ہوتا ہے۔ چین کے جس سرمائے پر یہ سارا مفروضہ استوار کیا گیا ہے وہ خود اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔2008ء کے مالیاتی کریش سے شروع ہونے والا عالمی معاشی بحران چینی معیشت کو اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔
پچھلے چند ہفتوں میں چین کی سٹاک مارکیٹ کی گراوٹ بڑھتے بڑھتے کریش کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ سٹہ بازی اور جوئے کا بلبلہ پھٹنے سے اب تک چار ہزار ارب ڈالر 'غائب‘ ہو گئے ہیں۔ 9کروڑ شیئر ہولڈرز براہ راست طور پر دیوالیہ یا متاثر ہوئے ہیں اور خود کشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ریاستی بینکوں نے گرتی ہوئی شرح نمو کو مصنوعی طور پر اٹھانے کے لئے جو بے پناہ سرمایہ سستے قرضوں کی شکل میں معیشت میں داخل کیا تھا اس پر سٹاک ایکسچینج اور دوسرے شعبوں میں سٹہ بازی کا پہاڑ تعمیر ہوتا رہا جو کہ اب زمین بوس ہو رہا ہے۔
1978ء میں سرمایہ دارانہ نظام کی دوبارہ استواری سے پہلے چین کا کل ریاستی قرضہ 'صفر‘تھا جو آج جی ڈی پی کے 250فیصد سے تجاوز کر چکا ہے، یعنی اس قرضے کا حجم یونان کے قرضے سے بھی 180فیصدزیادہ ہے۔ یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ چین کے ''معاشی معجزے‘‘ کے گن گانے والے سامراجی معیشت دان اور کارپوریٹ ذرائع ابلاغ بھی شدید پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ چین کے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کے ساتھ ریاستی جبر بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے کے لئے چین سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں وہ اب چکنا چور ہو رہی ہیں۔
2008ء میں جب کھپت کرنے والی دنیا کی بڑی منڈیاں (امریکہ، یورپ وغیرہ) سکڑنا شروع ہوئیں تو اس کے اثرات نے ناگزیر طور پر چین اور دوسری نام نہاد ''ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ پر مرتب ہونا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں طلب میں گراوٹ سے چین کی برآمدات میں کمی ناگزیر تھی۔ روس، بھارت، برازیل وغیرہ کے معاشی ابھار اور ان ممالک میں نئے درمیانے طبقے کی تخلیق کا کتنا ہی شور کیوں نہ مچایا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کل کھپت کا تقریباً 70فیصد ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ہی ہوتا ہے۔ ان ممالک میں بحران آئے گاتو منڈی سکڑے گی جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔
بحران کے بعد چین میں صنعتی پیداوار کے شعبوں میں گراوٹ آنا شروع ہوئی اور شرح نمو، جو 2007ء میں 14فیصد کو چھو رہی تھی، اس سال کے آخر تک 6.8فیصد تک گر جائے گی۔ اگلے سال مزید گراوٹ متوقع ہے۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاروں کی تعداد بھی 24کروڑ 70لاکھ ہے۔ اس سے جنم لینے والا سماجی خلفشار چینی حکمرانوں کو لرزا رہا ہے۔ چین میں موجود ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اپنی شرح نمو کو برقرار رکھنے کے لئے اجرتوں میں کٹوتیاں اور دوسرے مزدور دشمن اقدامات کر رہی ہیں جس سے ہڑتالوں کا وسیع سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے 25سالوں کی صنعت کاری سے چین میں دیو ہیکل صنعتی مزدور طبقہ
پیدا ہوا ہے جس کی مزاحمت بھی دیو ہیکل ہے اور بغاوت تو شاید پوری دنیا کو ہلا دے گی۔ ہڑتالوں کی کامیابی کی شرح کافی زیادہ ہے جس سے محنت کشوں میں حوصلہ اور اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔
چین کے حکمران اس ہڑتالی تحریک کو دبانے کے لئے ریاستی جبر کو بڑھا رہے ہیں اور بیرونی دفاع سے زیادہ بجٹ ''داخلی دفاع‘‘ کے لئے مختص کر رہے، اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ریاست زیادہ سے زیادہ سرمایہ معیشت میں پھینکے تاکہ اسے 'کک سٹارٹ‘ کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ریاستی سرمایہ کاری سے وسیع و عریض تعمیراتی منصوبے شروع کئے گئے ہیں جن میں ریلوے ٹریک، ہوئی اڈے، بندرگاہیں، عمارتیں، سڑکیں، انٹرنیٹ کیبلز وغیرہ شامل ہیں۔ بڑے حجم کے اس 'کینشین ازم‘ سے 2008ء کے فوری بعد اگرچہ شرح نمو کو کچھ سہارا ملا تھا لیکن ان بنیادوں پر لمبے عرصے تک معیشت کو چلایا نہیں جا سکتا، جیسا کہ شرح نمو میں تیز گراوٹ سے واضح ہے۔
دوسری پالیسی عام لوگوں اور نجی کمپنیوں کو سستے ریاستی قرضوں کے ذریعے سٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کی ترغیب دینے کی ہے۔ اس کے ذریعے پراپرٹی اور شیئرزوغیرہ کی قیمتوں میں مصنوعی طور پر اضافے کئے جا رہے تھے۔ سٹاک ایکسچینج کے جوا خانے پر فیکٹریوں اور کمپنیوں سے لے کر کرنسی اور تعمیرات وغیرہ پر بولیاں لگتی ہیں جس سے آغاز میں تیز اور بھاری شرح منافع ملتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت دانوں کا مفروضہ ہے کہ ان منافعوں کی دوبارہ سرمایہ کاری سے معیشت کا پہیہ دوبارہ تیز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب حقیقی پیداواری معیشت ڈوب رہی ہو اور ہوا میں سٹہ بازی کی انتہا کی جا رہی ہو تو یہ سارا کھیل زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔ ایسے حالات میں سٹاک ایکسچینج 'میوزیکل چیئر‘ کی کیفیت اختیار کر جاتی ہے جس میں بڑے مگر مچھ مال بنا کر نکل جاتے ہیں اور چھوٹے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد راتوں رات دیوالیہ ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں چین میں یہی ہوا ہے۔ پراپرٹی کا بلبلہ بھی کئی مقامات پر پھٹا ہے اور کنگال ہونے والوں کے پاس خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس سٹہ بازی میں زیادہ سرمایہ چونکہ قرضوں کی شکل میں ریاستی خزانے سے دیا گیا تھا لہٰذا ریاست نے فوری طور پر سٹاک مارکیٹ کو 'ریگولیٹ‘ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے مزید منفی نتائج برآمد ہوئے اور کئی سٹے باز اپنا سرمایہ نکال کر غائب ہونے لگے۔
12جون سے 12جولائی تک ایک ماہ میں چینی سٹاک مارکیٹ کا حجم ایک تہائی سکڑ گیا ہے۔ یہ برطانیہ کی پوری معیشت سے بڑی گراوٹ ہے۔ بے قابو ہوتی ہوئی صورتحال میں ریاست نے 250ارب یوان کی رقم 8جولائی کو معیشت میں ڈالی ہے۔ چینی حکمرانوں کے پاس اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں ہے کہ دیوالیہ ہونے والوں کے قرضے 'رائٹ آف‘ یا ختم کر دئیے جائیں کیونکہ جن کے پاس کھانے کو پیسے نہیں رہے وہ قرضے کیا ادا کریں گے۔
چینی سٹاک مارکیٹ کا یہ بحران 2008ء میں امریکی کمپنی 'لی مین برادرز‘کے دیوالیے سے ملتا جلتا ہے جس کے بعد امریکہ اور پوری دنیا میں مالیاتی کریش ہوا تھا۔ اس کے بعد شروع ہونے والے معاشی بحران سے عالمی معیشت نکل نہیں سکی اور کئی معیشتیں کم و بیش یوالیہ ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں چین میں اس سرمایہ دارانہ نظام کی سماجی اور معاشی ناکامی بھی واضح ہے جس کی بحالی پر سامراج نے خوب جشن منائے تھے۔
چین میں منصوبہ بند معیشت کو 'ڈس مینٹل‘ کر کے سرمایہ داری کی استواری 1970ء کی دہائی کے آواخر میں اس وقت کے صدر 'ڈینگ ژائو پنگ‘نے تب شروع کی تھی جب یہ نظام عالمی طور پر متروک ہو چکا تھا۔ منصوبہ بند معیشت کے انفراسٹرکچر، ہنر مند اور سستی لیبر، سستی توانائی وغیرہ کو ملٹی نیشنل اجارہ داریوں نے جی بھر کے لوٹا، چین کا مقامی کرپٹ اور نودولتی سرمایہ دار طبقہ بھی پیدا ہوا۔ لیکن 25سال میں ہی ''چین میں سرمایہ داری کی ترقی‘‘ کا شور و غل مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ لیکن اس دوران بلند شرح منافع کے تعاقب میں کی جانے والی سرمایہ کاری نے چین میں دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ بھی تخلیق کیا ہے۔ یہ کروڑوں محنت کش ہی سرمایہ داری کے گور کن ہیں جو اس متروک اور بدبودار نظام کو تاریخ میں دفن کر کے ایک اور انقلابِ چین برپا کریں گے اور جس کے دنیا پر اثرات 1949ء سے کہیں زیادہ دور رس اور گہرے ہوں گے!