"DLK" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ کی پھیلتی آگ

20جولائی کو جنوبی ترکی کے شہر 'سروک‘ میں داعش کی جانب سے کئے گئے خود کش حملے نے پھر سے واضح کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دہکتی آگ قریبی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس وحشیانہ حملے میں 'سوشلسٹ یوتھ ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم کے 30نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گئے۔یہ نوجوان داعش کے خلاف برسر پیکار کرد عوامی ملیشیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرہ کر رہے تھے۔ واقعے کے بعد ترکی کے مختلف شہروں میں طیب اردوعان کے خلاف پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ طیب اردوعان اور ان کی برسر اقتدار بنیاد پرست AKپارٹی گزشتہ کئی سالوں سے پس پشت داعش کی مالی اور اسٹریٹجک حمایت کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں کے وسیع قتل عام میں مصروف داعش کے جنگجوئوں کو نہ صرف ترکی میں پناہ اور محفوظ راستے فراہم کئے جا رہے ہیں بلکہ یہاں تک اطلاعات ہیں کہ طیب اردوعان کی بیٹی کی سرپرستی میں چلنے والے ہسپتالوں میں ان وحشیوں کا علاج بھی کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ طیب اردوعان ٹولے کے 'انتہائی برادرانہ کاروباری تعلقات‘ قائم ہیں۔ 
اس سے قبل 26 جون کو بیک وقت تین براعظموں میں دہشت گردی کی کارروائیوں نے عالمی ذرائع ابلاغ میں ہلچل مچائی تھی۔ ایک ہی دن تیونس ، فرانس اور کویت میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ داعش کی طاقت کو ذرائع ابلاغ میں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور حکمران طبقات دہشت گردی کی رسمی مذمت کے ساتھ تیونس میں ہونے والے قتل عام پر کچھ زیادہ ہی ماتم کر رہے ہیں۔ اس منافقانہ ماتم کی و جہ یہ ہے کہ تیونس میں مارے جانے والے زیادہ تر برطانوی باشندے تھے لیکن کویت میں مارے جانے والے شیعہ شہریوں کی موت کو انہی ذرائع ابلاغ نے اس قدر بے اعتنائی سے پیش کیا جیسے یہ مرنے والے انسان ہی نہ ہوں۔درحقیقت مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک جیسے شام، عراق،یمن اورلیبیا میں سامراجی جارحیت، فرقہ وارانہ لڑائیوں اور مختلف سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے ہونیوالی دہشت گردی کے علاوہ بھوک اور بیماری سے مرنے والے عام لوگوں کے مسائل سے پہلوتہی کرنا اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا ان سامراجی ذرائع ابلاغ کا پیشہ ہے۔
دوسری جانب اگر برطانوی شہریوں کی اموات پر منافقانہ شورشرابہ کیا جارہا ہے تو اس کے بھی کچھ مقاصد ہیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ مختلف دہشت گرد گروہوں کی درندگی کو مغربی ممالک کے محنت کشوں اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس کی حد سے زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ پھر اس اشتہاری مہم کے ذریعے خوف اور دہشت کو عوام اور محنت کشوںکے شعور پر مسلط کر کے ان کے تحفظ کے نام پر ان کے بنیادی جمہوری حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ فوج اور پولیس جیسے مسلح ریاستی اداروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دے کر ریاستی جبر کو سماج پر لاگو کیا جاتا ہے۔پھر اس قسم کی کارروائیوں کی جتنی زیادہ تشہیر کی جائے اتنی ہی مختلف سامراجی جارحیت کی مہمات کو جاری کرنے کے حق میںعوامی رائے عامہ ہموار ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں سامراجی طاقتوں کی باہمی لڑائی اور تضادات ان انتہائوں کو چھو رہے ہیں جہاں ہر چیز بقول ہیگل سر کے بل کھڑی ہو گئی ہے۔ ازلی دشمنی دوستی میں بدل رہی ہے اور جنم جنم کی دوستیاں تصادموں کی نذر ہو رہی ہیں۔ امریکی سامراج اور اس کے سعودی ''اتحادیوں‘‘ کے درمیان کھلی لڑائی اتنی بڑی انہونی نہیں جتنی روس کے ساتھ خلیجی حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی دوستیاں۔ 
عراق، شام ،لیبیا اور یمن جیسے ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کے باعث دہشت گردی، قتل و غارت اور سامراجی حملے تو ایک معمول بن چکے ہیں۔ انسانی تہذیب و ثقافت کے ابتدائی مراکز کا حامل اور تیل و گیس کی قدرتی دولت سے مالا مال یہ خطہ سامراجی لوٹ مار کی ہوس کے ہاتھوں تاراج ہوا جارہا ہے۔ ان ممالک کی غیر اعلانیہ ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا عمل اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ باقی تمام حالات اگر ایسے ہی رہتے ہیں تو کسی بھی صورت میں ان کو دوبارہ پہلے جیسا ملک نہیں بنایا جا سکتا۔ 
اگر شام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملک پانچ مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔ مشرق میں داعش کی عمل داری ہے۔ جبکہ شمال مشرق میں داعش کے مخالف مذہبی گروہوںکا قبضہ ہے۔ نام نہاد قوم پرست باغی جنوب کے کچھ حصوں پر قابض ہیں جبکہ شمال میں کردوں کا کنٹرول ہے اور اس کے علاوہ بشارالاسد کے تسلط میں جو علاقہ ہے اس کی اپنی علیحدہ حیثیت ہے۔ ان پانچ حصوں پر قابض مختلف گروہوںکے درمیان شدید لڑائی اپنے اپنے علاقے کو وسیع کرنے کے حوالے سے جاری ہے اور ہر گروہ کے تسلط کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لئے مختلف علاقائی اور سامراجی طاقتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ پھر ہر دہشت گرد گروہ کوئی ایک یکجا تنظیم نہیں ہے بلکہ مختلف جرائم پیشہ اور ڈاکوئوں کے چھوٹے چھوٹے ٹولے کچھ عرصہ کے لئے متحدہو کر کوئی تنظیم بنا لیتے ہیں جس میں ہر ٹولہ اپنی لوٹ مار کے لئے کسی بھی وقت وفاداریاں بدل لیتا ہے اور جتنے ان تنظیموں کے اندر چھوٹے یا بڑے گروپ ہیں اتنے ہی ان کے زیر تسلط علاقے کے بھی ٹکڑے ہو تے ہیں۔
گزشتہ دنوں جیش الاسلام نامی ایک تنظیم کی ویڈیو منظر عام پرآئی ہے جس میں اس تنظیم کو داعش کے کچھ لوگوں کا اسی طرح وحشیانہ انداز میں قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو داعش کا خاصہ تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تنظیم پچاس گروپوں کے اتحاد پر مشتمل ہے۔ اسی قسم کی صورتحال شام اور عراق میں متحرک دیگر دہشت گرد گروپوں کی بھی ہے۔ ان گروپوں کا اندرونی اتحاد انتہائی مفاد پرستانہ ہونے کی وجہ سے ہر گروپ کو اس اتحاد کو بر قرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر کے لوٹ مار کے وسیع مواقع فراہم کرنے پڑتے ہیں اور ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں یہ گروہ زیادہ کامیاب گروپ کی جانب سرک جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ خود کو زیادہ وحشت ناک طاقت ثابت کرنے کی بنیاد پر ہی سامراجی طاقتوں کے سامنے خود کو نمایاں کر کے زیادہ دولت حاصل کی جاسکتی ہے، اسی لئے ہمیں مختلف گروپوں کے درمیان ایک خون ریز مقابلہ بازی نظر آتی ہے۔ 
دولت کے حصول کے لئے آگ اور خون کے اس کھیل میں ان خطوں کے عوام برباد ہو رہے ہیں۔ اب تک شام کی تقریباً نصف آبادی بے گھر ہو کر ملک کے دوسرے حصوں یا دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر چکی ہے۔ بظاہر شام میں بر سرِپیکار گروپوں کی اکثریت اسد حکومت کے خاتمے کیلئے لڑ رہی ہے۔ لیکن ہر گروپ کی پشت پناہی کرنے والی سامراجی طاقت (امریکہ، قطر، سعودی عرب، ترکی وغیرہ) یہ کوشش کرتی ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس کا حمایتی گروپ شام پر کنٹرول حاصل کرے۔ اس کشمکش نے تمام گروپوں کی باہمی لڑائی میں اضافہ کر دیا ہے جس سے پورا خطہ ایک نہ ختم ہونے والی خون ریزی میں دھنس چکا ہے۔ 
قطر کے وزیر خارجہ خالدالعطیہ نے گزشتہ دنوں فرانس کے ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا '' ہم ہر قسم کی انتہا پسندی کے مخالف ہیں لیکن داعش کے علاوہ تمام گروہ اسد حکومت کے خاتمے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر اعتدال پسند گروہ نصرہ فرنٹ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم آپکے ساتھ مل کر کام نہیں کریں گے تو امریکہ کیسے یہ کہہ سکتا ہے! آپکو صورتحال کا جائزہ لے کر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کر نا پڑے گا‘‘۔ قطر خطے کی نئی ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی امداد میں دوسرے عرب حکمرانوں سے زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں