"DLK" (space) message & send to 7575

’’بھارت بند‘‘…(1

2 ستمبر کو بھارت میں دس بڑی ٹریڈ یونینز کی جانب سے ''بھارت بند‘‘ کی جرأتمندانہ پکار اورنعرے پر کی جانے والی عام ہڑتال اس خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ راہنما اس ہڑتال میں دس کروڑ افراد کی شمولیت کا دعویٰ کر رہے تھے، لیکن جب دو ستمبر کو پندرہ کروڑ افراد نے پورے ملک کو ایک دن کے لیے مکمل جام کر دیا تو خود یہ راہنما بھی ششدر رہ گئے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI)کے جنرل سیکرٹری ایس سدھاکر ریڈی نے کہا کہ ''میرے خیال میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہماری توقع سے بڑھ کرکامیابی تھی۔یہ محنت کش طبقے کا تاریخی کارنامہ ہے اور حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ان کی جڑت کا اظہار ہے‘‘۔ بائیں بازو کی سب سے بڑی پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)نے کہا:''ہڑتال ''کامیاب‘‘ تھی، اس کے باوجود کہ مرکز نے آخری وقت پر محنت کشوں کو احتجاج سے روکنے کی کوشش کی۔ (دائیں بازو کی ہندو بنیاد پرست تنظیم) آر ایس ایس اپنی حمایت یافتہ ٹریڈ یونین بھارتیہ مزدور سَنگھ کے سوا کسی بھی مرکزی یونین کو ہڑتال سے پیچھے نہیں ہٹا پائی‘‘۔ یونین لیڈروں کے مطابق ہڑتال نے بینکوں، ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس اور تیل کی سپلائی جیسی اہم صنعتوں کو متاثر کیا۔ سی پی آئی کی حمایت یافتہ ٹریڈ یونین، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس(AITUC)کے جنرل سیکرٹری گروداس داس گپتا نے اس تحریک کو ''شاندار‘‘ قرار دیا۔
سابقہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مایوس و بدگمان تمام نام نہاد' کمیونسٹ‘، 'سوشلسٹ‘ اور لبرل تجزیہ نگار جو ہندوستان کے محنت کش طبقے کی طاقت کو رد کر چکے تھے، انہیں محنت کشوں کی ہڑتال میں اتنی بڑی تعدادکی شرکت اورشدت نے رد کر دیا ہے۔ان کے ہندوستان کے پرولتاریہ کے متعلق تجزیے مکمل طور پر غلط ثابت ہو گئے ہیں۔اس تاریخی بدھ کے روز ایک جرأت اور دلیری کی لہر پورے ہندوستان میں موجود تھی۔اسی باعث انتہائی دائیں بازو کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو ہڑتال کی شاندار کامیابی کو تسلیم کرنا پڑا۔درحقیقت اس ہڑتال نے ہندوستان کے بڑے دانشوروں اور ماہرین پر سکتہ طاری کردیا۔ ہندوستان کے ایک اہم لبر ل اخبار ''دی ہندو‘‘ کے مطابق ،''دس بڑی مرکزی ٹریڈ یونینوں کی جانب سے لیبرقوانین میں تبدیلیوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف ہڑتال سے ملک کے بہت سے حصوں میں عام زندگی متاثر ہوئی جن میں مغربی بنگال،تری پورہ،کیرالا اور کرناٹکا شامل ہیں۔ہڑتال کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ، بینک اور دوسری صنعتیں شدید متاثر ہوئیں‘‘۔ 
ہندوستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ این ڈی ٹی وی کے مطابق:''تقریباً پندرہ کروڑ افراد ملک گیر ہڑتال پر ہیںاور بینکوں اور ٹرانسپورٹ جیسی اہم سروسز ملک کے مختلف حصوں میں بند ہیں۔ کولکتہ میں بائیں بازو کی خواتین کارکنوں کو پولیس سڑک پر گھسیٹ رہی ہے۔ بینک، دکانیں اور بہت سے تعلیمی ادارے بند ہیںاور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر موجود نہیں۔اس ''بھارت بند‘‘ سے جنوبی ریاستیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔3500کے قریب سرکاری بسیں حیدرآباد دکن میں کھڑی ہیں جبکہ کیرالا کے شہر تھائرو نانتھاپورم میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ رکی ہوئی ہے۔بنگلور میں سکول اور کالج بند ہیں۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد دس بڑی ٹریڈ یونینوں نے اس ہڑتال کی کال دی۔بہت سے بینکوں نے پورے ملک میں سارا دن اپنے دروازے بند رکھے۔‘‘
ہڑتال اتنی شدید تھی کہ مغربی میڈیا بھی اس کے گہرے اثرات کو نہ چھپا سکا۔بی بی سی کے مطابق:''پورے ہندوستان میں آج محنت کش حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ایک روزہ عام ہڑتال کر رہے ہیں۔ان کے مطابق مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کی ''کاروبار دوست‘‘ پالیسیوں کے باعث ان کا روزگار خطرے میں ہے اور عام لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں۔یونینوںکا مطالبہ ہے کہ حکومت سرکاری اداروں کی نجکاری اور لیبر قوانین میں تبدیلی نہ کرے ۔رپورٹوں کے مطابق تقریباً پندرہ کروڑ محنت کش‘ جن میں بینک، مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور کوئلے کی صنعت کے مزدور بھی شامل ہیں اور دس بڑی یونینوں سے تعلق رکھتے ہیں، بدھ کے روز کام پر نہیں آئے۔ہڑتال سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی شدید متاثر ہوئی ہے اور دارالحکومت دہلی سمیت بہت سے شہروں میں بس اڈوں پر مسافروں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔‘‘
ہڑتال سے پہلے پیش کیے جانے والے بارہ نکات میں مہنگائی اور بیروزگاری روکنے کا مطالبہ بھی شامل تھا جبکہ دیگر مطالبات میں بنیادی لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد،لیبر قوانین میں مجوزہ مزدور دشمن ترامیم کا خاتمہ اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے منصوبوں کا خاتمہ شامل تھے۔یونینوں کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ تمام محنت کشوں کو‘ جن میں غیر رسمی شعبے کے محنت کش بھی شامل ہیں‘ سوشل سکیورٹی فراہم کی جائے اور کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے۔بینکوں کی یونینیں بھی حکومت کی بینکوں کی مجوزہ نجکاری کے خلاف ہڑتال میں شامل تھیں۔غیر رسمی شعبے کے مزدوروں کو منظم کرنے والی بہت سی تنظیمیں بھی اس ہڑتال کی حمایت کر رہی تھیں۔
لیکن اس ہڑتال کا سب سے کلیدی پہلو محنت کشوں کا قیادت پر ایک لمبے عرصے سے بڑھنے والا مسلسل دباؤ تھا۔گزشتہ سال بھی فروری میں کانگریس حکومت کے خلاف دو روزہ عام ہڑتال کی گئی تھی جس میں دس کروڑ افراد نے شرکت کی تھی۔اس ہڑتال میں بی جے پی کی حمایت یافتہ یونین بھی شامل تھی‘ لیکن بھارتیہ مزدور سنگھ کی عین موقع پر غداری کے باوجود ہڑتال میں پندرہ کروڑ افراد کی شرکت محنت کشوں میں موجود غم و غصے کا پتا دیتی ہے۔
ہندو بنیاد پرست مودی کی گزشتہ سال مئی میں کامیابی اور پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت کے بعد عالمی سرمایہ داری کے آقا خوشی سے جھوم رہے تھے۔مودی حکومت نے ''اصلاحات‘‘ کے ایک سلسلے کا آغاز کیا تا کہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں مزید اضافہ کیا جا سکے‘لیکن اتنی بڑی کامیابی اور سرمایہ داروں کی مکمل حمایت کے باوجود مودی کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ہندو بنیاد پرستوں کی حمایت ہونے کے باوجود مودی پر محنت کش عوام کا شدید دباؤ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے نیو لبرل مزدور دشمن ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے سے خوفزدہ ہے۔اسی وجہ سے اس پر سرمایہ داروں کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ جلد از جلد ایسے قوانین بنائے جن سے ٹریڈ یونین کمزور یا بالکل ختم ہو جائیں اور بھارت کے محنت کشوں کا مزید استحصال کرنا آسان ہو جائے۔مودی کے سامراجی آقاؤں نے بھی اس ہچکچاہٹ پر ڈانٹ پلائی ہے۔ مودی کے حمایتی اکانومسٹ نے 29 اگست کی اشاعت میں لکھا:''وزیر اعظم (مودی) بہت اچھا مقرر ہے، لیکن وہ مشکل کام کرنے کی بجائے اسے ملتوی کر رہا ہے۔۔۔۔۔ مودی کو سیاسی ناٹک کی زیادہ فکر ہے جبکہ قوانین پاس کروانے اور اصلاحات نافذ کرنے کے کٹھن کام کی اسے کوئی چنتا نہیں۔ایک سابق وزیر نے شکایت کی ہے کہ مودی پُرجوش تقریریں تو بہت کرتا ہے لیکن ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا بھول جاتا ہے۔سرمایہ کار شدید غصے میں ہیں کہ ٹیکس قوانین کی آسانی،کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی اور سرکاری اداروں کی نجکاری جیسے وعدوں پر تیزی سے عملدرآمد نہیں ہو رہا۔‘‘
یقیناً اس شاندار ہڑتال کے بعد دی اکانومسٹ اور دیگر سرمایہ دار سمجھ سکیں گے کہ مودی کس سے خوفزدہ ہے‘لیکن اس کے باوجود مودی نے سرمایہ داروں کو نوازنے کے لیے بھارت کی تاریخ کے سب سے بڑے اقدامات کیے ہیں۔اپنے پہلے ہی سالانہ بجٹ میں مودی اور اس کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کارپوریٹ ٹیکس میں 25 فیصد کمی کا اعلان کیا تھا۔محنت کشوں پر ان شدید حملوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی نے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا بھی آغازکیا اور مذہبی تعصبات کو ابھارا۔مودی کے اس عمل سے سرحد کے اس پار پاکستان کے بعض مذہبی رہنمائوں اور اشرافیہ کو مزید تقویت ملی اور انہیںا پنی گرتی ہوئی مقبولیت میں جان ڈالنے کے لیے نئے مواقع میسر آئے۔آر ایس ایس، شیو سینا اور وشوا ہندو پریشد جیسی ہندو بنیاد پرست تنظیموں کی متعصبانہ تقریریں پاکستان میں بعض لوگوں کو نفرت پھیلانے کا موقع دیتی ہیں اوردونوں طرف کے بنیاد پرست ایک دوسرے کی پھیلائی ہوئی نفرت پر ہی پلتے ہیں۔اسی دوران سرحد اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والی لڑائیاں اور ہلاکتیں دونوں طرف کے رجعت پسندوں کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ (جاری) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں