جون 2015ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج طیب اردوعان اور ان کی بنیاد پرست اور رجعتی جماعت اے کے پی کے لیے بڑا دھچکا تھے۔ 2002ء کے بعد وہ پہلی مرتبہ پارلیمانی اکثریت سے محروم ہوئے ہیں۔ طیب اردوعان درحقیقت جارحانہ نیو لبرل سرمایہ داری کے سیاسی نمائندہ ہیں جس کے حکمران ٹولے نے اپنے دور اقتدار میں بڑے پیمانے کی نجکاری کے ذریعے ریاستی اثاثوں کو جی بھر کے لوٹا ہے۔ اے کے پی کے دور حکومت میں مٹھی بھر سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوئے ہیں جبکہ امارت اور غربت کی خلیج وسیع تر ہوگئی ہے۔ 2008ء کے بعد دنیا بھر کی طرح ترک معیشت بھی تیزی سے زوال پزیری کا شکار ہے اور مصنوعی معاشی ابھار کے لئے استعمال کئے جانے والے تمام حربے اب نامراد ہیں۔سماج، بالخصوص محنت کش طبقے اور نوجوانوں میں اردوعان سے نفرت اور بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اس سے قبل اردوعان حکومت کے خلاف مئی تا اگست 2013ء میں بھی ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جن پر بدترین ریاستی تشدد کیا گیا تھا۔عوامی ایجی ٹیشن اتار چڑھائو کے ساتھ بدستور جاری رہی ہے۔
اب ایک بار پھر اپنے خلاف ایک ابھرتی ہوئی طبقاتی تحریک کو دیکھ کر ترک حکمران قومی بنیادوں پر خانہ جنگی کو بھڑکا ر ہے ہیں۔ ترکی میں کرد اقلیت خصوصاً بائیں بازو کی کرد پارٹی HDP پر حملے کیے جا رہے ہیں، جن میں دفاتر کا جلائو گھیرائو، کردوں کی دکانوں ، کاروباروں اور محلوں پر حملے شامل ہیں۔اسی دوران کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے عراق اور ترکی میں بہت سے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی گئی ہے۔ یہ سب اس وقت کیا گیا جب پی کے کے ترک ریاست کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل میں داخل ہو چکی تھی۔ ترکی کے جنوب مشرقی حصے کے درجن بھر علاقوں کو خصوصی سکیورٹی زون قرار دیا جا چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں حملے کیے جا رہے ہیں۔ ابھی تک کردوں کی دو سو سے زائداموات ہو چکی ہیں جبکہ 200 کے قریب ترک پولیس والے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم سیزرے (Cizre) شہر کا محاصرہ تھا۔ ایک لاکھ بیس ہزارآبادی کے اس شہر میں 92 فیصد افراد نے ایچ ڈی پی کو ووٹ دیا تھا۔ دس ہزار فوجی تعینات تھے اور محاصرہ ختم ہونے تک درجنوں افراد بمباری سے قتل ہو چکے ہیں جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔
اردوعان کے مطابق یہ داعش اور پی کے کے کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے لیکن گرفتار کیے گئے اڑھائی ہزار افراد میں داعش سے تعلق رکھنے والوں کی تعدادسو سے بھی کم ہے جبکہ باقی تمام بائیں بازو کے کارکن یا قوم پرست ہیں۔درحقیقت اس مہم کے دورا ن ہونے والے حملوں کا فائدہ داعش کو پہنچ رہا ہے جس کااب تک سب سے مضبوط دشمن پی کے کے اور اس سے متعلقہ دیگر تنظیمیں تھیں۔ بہت سے مواقع پرپی کے کے پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ داعش کیخلاف لڑنے کے لیے محاذ پر جا رہی تھیں۔ کئی ماہ سے پی کے کے مطالبہ کررہی تھی کہ وہ ترکی سے اپنی رہی سہی گوریلا قوتوں کو باہر نکالنے کے لیے محفوظ راستہ چاہتے ہیں۔ اردوعان نے اس سے انکار کر دیا کیونکہ مارچ کے بعد سے وہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔
اردوعان کبھی بھی پی کے کے کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کرد تحریک اور بائیں بازو کو ترکی کے حکمران طبقے کے قومی ریپبلکن حصے کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ کئی سالوں کی تیز ترین معاشی بڑھوتری کے باوجود آبادی کی اکثریت کے حالات زندگی میں کوئی بہتری نہیں آ سکی جبکہ ایک چھوٹی سی اقلیت کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اور اب جب ملک کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے تو اس کی قیمت بھی غریبوں کو ہی چکانی پڑ رہی ہے۔2013ء کی غازی پارک کی تحریک عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک جھلک تھی۔ اردوعان کا آمرانہ طرز حکومت، شام اور دیگر ممالک میں سامراجی مداخلت اور جدید سیکولر ترکی میں مذہبی بنیاد پرستی کا فروغ ترکی میں ان کیخلاف نفرت کا باعث بن رہا ہے۔بڑی سیاسی جماعتوں میں راستہ نہ ملنے پر اس تحریک نے اپنا اظہار کرد تحریک اور اس کے سیاسی ونگ ایچ ڈی پی میں کیا ہے۔ حکمران طبقے کی کوششوں کے بر خلاف ترک اور کرد نوجوانوں میں یکجہتی پیدا ہو رہی ہے اور ایچ ڈی پی موجودہ نظام سے نفرت کرنے والے نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ کوبانی کے معرکے میں خستہ ہتھیاروں اور معمولی امداد سے کردوں کی اردوعان کی حمایت یافتہ داعش کے خلاف چھ ماہ کی لڑائی اور فتح نے اس میں فیصلہ کن کردار ادا کیاہے۔یہاں سے ہی ایچ ڈی پی منظر عام پر آئی اور پورے ملک میں لاکھوں افراد کی پارٹی بن گئی۔ سماجی و جمہوری اصلاحات کے انقلابی پروگرام اور غازی پارک کی تحریک کے جذبے کوجوڑ کراس نے13فیصد ووٹ حاصل کیے اور پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئی۔اپنی حکمرانی کو محفوظ بنانے کے لیے حکمران محنت کش طبقے کو قومی بنیادوں پر تقسیم کر کے ترکوں اور کردوں کو آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں۔لیکن اس سے ایچ ڈی پی کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کرد علاقوں میں اردوعان کا یک طرفہ اعلانِ جنگ کے خلاف غصہ کسی وقت بھی انقلابی تحریک میں ڈھل سکتا ہے۔سیزرے شہر کے محاصرے کے خلاف محصور شہر کی جانب ایچ ڈی پی کے مارچ میں ہزاروں افراد کی شمولیت اور اس کے نتیجے میںمسلح افواج کی پسپائی عوام کے انقلابی موڈ اور عزم کا اظہار ہیں۔
کرد عوام کو ترک حکمران طبقے کی جارحیت کے خلاف دفاع کو حق حاصل ہے لیکن انفرادی اورمسلح کارروائیوں کی بجائے عوامی سیاسی مزاحمت کی ضرورت ہے۔دفاع کا بہترین طریقہ ایچ ڈی پی اورپی کے کے اور ملحقہ تنظیموں سے جڑے لاکھوں لوگوں کو ساتھ ملاتے ہوئے عام ہڑتال کی کال ہے۔ہرمحلے، فیکٹری اور سکول میں عوامی اور دفاعی کمیٹیاں ہی سیاسی جدوجہد اور ریاستی اور مسلح حملوں کے خلاف دفاع کا راستہ ہیں۔اسی طرح ترک محنت کشوں اور نوجوانوں سے بھی اردوعان کے خلاف جدوجہد میں حمایت کی اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت جمہوری حقوق پر بھی حملے کر رہی ہے اور خانہ جنگی کو ابھار کر وہ آمریت کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔
میڈیا نسل پرستی کا زہریلا پروپیگنڈا کر رہا ہے لیکن اس سے عوام کی بے چینی کو دبایا نہیں جا سکتا۔ملک کے مغربی حصے میں بھی نفرت بڑھ رہی ہے۔ فوجیوں کے جنازوں پر عوام حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کرد علاقوں میں خانہ جنگی کے خلاف تحریک کو فوج کے اندر میں کافی حمایت ملے گی۔حکومت مخالف تحریک بڑے شہروں کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے ملک کے وسطی اور مغربی حصوںتک پھیل سکتی ہے۔
موجودہ بحران صرف اردوعان حکومت کا نہیں بلکہ ترک سرمایہ داری کا بحران ہے جو سرمایہ داری کے عالمی بحران کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔حکمران طبقہ عوام کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے اور اقتدار کو بچانے کے لیے مسلسل دائیں بازو کی جانب جھک رہا ہے۔ بہت سے ریپبلکن بورژ وا مبصرین اور ''روایتی‘‘ بورژ وازی کے ارکان اردوعان کے اقدامات پر شدید تنقید کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں عدم استحکام پیدا کر ر ہے ہیں۔لیکن1960 ء اور 70ء کی دہائی میں انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے انہی لوگوں نے خود ایک خونخوار آمریت مسلط کی تھی۔حالیہ عام انتخابات میں بھی ان کا پروگرام اور زیادہ نجکاری، ڈی ریگولیشن اور لبرلائیزیشن، یعنی محنت کشوں پر مزید حملے تھا۔
ترک حکمرانوں کا رویہ ترک سرمایہ داری کی بوسیدگی اور طفیلی کردار کا عکاس ہے۔ان کے خلاف کسی بھی جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔ترک اور کرد محنت کشوں کے مفادات مفادات الگ الگ یا متضاد نہیں ہے۔اس نظام کی بربریت انہیں حکمران طبقے کے ٹکروں کی خاطر ایک دوسرے سے لڑنے پر مجبور کرتی ہے اور دولت مند اور با اثر اشرافیہ لوگوں کے لیے عذاب پیدا کرتے ہوئے خود انتہائی پرتعیش زندگی بسر کر رہی ہے۔نجات کاواحد راستہ تمام مظلوموں کی متحدہ جدوجہد ہے جس کا مقصد تمام وسائل پر قبضہ کر نے انہیں اجتمائی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو۔