حالیہ بلدیاتی انتخابات کی طویل براہ راست نشریات کے دوران تجزیہ نگاروں نے ان انتخابات کو ''گراس روٹ ڈیموکریسی‘‘ ، جمہوریت کے نکھار اور تسلسل وغیرہ کے لئے بڑا اہم قرار دیا ہے۔ بعض نے تو انتخابات میں ہونے والی قتل و غارت، دھینگا مشتی اور گالی گلوچ کو جمہوریت کا حسن قرار دے دیا ہے۔ سطحی طور پر دیکھا جائے تو روز مرہ کے مسائل کا گلی محلوں کی سطح پر حل ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن قومی یا صوبائی انتخابات سے لے کر ان بلدیاتی انتخابات اور ملکی سیاست سے لے کر بین الاقوامی سفارتکاری تک، حکمران طبقے کے دانشوروں کا سب سے بڑا فریب یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاست اور معیشت کو ایک دوسرے سے الگ کر دیتے ہیں۔ اس طرح نہ معیشت کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے نہ ہی سیاست کا کوئی تناظر بن سکتا ہے۔ ایسا غیر دانستہ طور پر نہیں ہے بلکہ حکمران طبقے کے نصاب اور دانش میں سماج کے ہر پہلو کو دوسرے سے کاٹ کر اس لئے بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بحیثیت مجموعی تلخ معاشرتی حقائق کی منظر کشی ہی نہ ہو سکے۔اس کے بر عکس جدلیاتی مادیت کے مارکسی طریقہ کار کے تحت جہاں مختلف سماجی عوامل کو الگ سے پرکھا جاتا ہے وہاں ان کے ایک دوسرے پر اثرات اور پھر بحیثیت مجموعی پورے سماج کی حرکیات کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔ فلسفے کی زبان میں 'جزو‘ اور 'کل‘ دونوں خاطر میں لایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر لینن نے واضح کیا تھا کہ ''سیاست آخری تجزئیے میں مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے۔‘‘
اس ملک کے انتخابات میں سے اگر دولت اور معیشت کا عنصر منفی کر دیں تو کیا یہ سیاست باقی بچے گی؟ یہی نمائندگان الیکشن جیتیں گے؟ سیاست پر حاوی موجودہ پارٹیاں اپنا وجود بھی برقرار رکھ سکیں گی؟ اس طرح کی حکومتیں اور پالیسیاں بنیں گی؟ عوام کی حالت یہی رہے گی؟ یہی اقدار اور یہی معیار ہوں گے؟یقینا سارا منظر نامہ ہی بدل جائے گا۔آج جب عزت، پارسائی، رشتے اور تعلق دولت کے مرہون منت ہیں تو انتخابا ت اور ''جمہوریت‘‘ بھلا سرمائے کی جکڑ سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟ دولت جب کردار اور اخلاقیات کے تعین میں کلیدی عنصر بن جائے تو اس سے بڑی ذلت انسانیت کے لئے کوئی نہیں ہو سکتی۔ قومی اسمبلی کا الیکشن اگر پیسے کے خطیر حجم کے بغیر لڑا نہیں جا سکتا تو بلدیاتی الیکشن بھی بغیر پیسے کے جیتا نہیں جا سکتا۔ جہاں علاج، غذا، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی ترین ضروریات زندگی کی قیمتیں وسیع آبادی کی پہنچ سے باہر ہیں وہاں الیکشن لڑنے کی عیاشی کے بارے میں اس ملک کے کتنے فیصدلوگ سوچ بھی سکتے ہیں؟ یہ ایسی ''جمہوریت‘‘ ہے جس میں 99فیصد لوگوں کے پاس ووٹ دینے کا اور 1فیصد کے پاس لینے کااختیار ہے۔
سیاست کے یہ جغادری انتخابات پر پیسہ پانی کی طرح کیوں بہاتے ہیں ؟ اور اس سے پہلا سوال ہے کہ ان کے پاس اتنی دولت آتی کہاں سے ہے؟ اس پر ''جمہوریت‘‘ کے دلدادہ ان تجزیہ نگاروں اور ''ماہرین‘‘ کے منہ کو تالے لگ جاتے ہیں۔ میر تقی میر کوئی مارکسسٹ نہیں تھا لیکن اتنا ادراک اسے بھی تھا کہ دوسروں کو غریب کئے بغیر کوئی امیر نہیں ہو سکتا ؎
امیر زادوں سے دِلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے انہی کی دولت سے
ماضی کے حکمرانوں میں ضمیر کی کچھ رتی موجود ہوا کرتی تھی۔ معیشت میں کالے دھن کی سرایت سے ایک نیا حکمران طبقہ وجود میں آیا ہے جس کا سماجی و سیاسی کردار بھی سیاہ ہے۔بدعنوانی، جرائم، ضمیر فروشی اور کرپشن کی پیداوار یہ مخلوق شرم و حیا سے ماورا ہے۔ سیاسی پارٹیوں پر بھی انہی کا غلبہ ہے، ریاستی ادارے بھی ان کے تابع، اور یہی سرمائے کی اس ''جمہوریت کا حسن‘‘ ہے۔
بات صرف سیاست میں دولت کے کردار تک ہی محدود نہیں ہے۔ ان بلدیاتی انتخابات میں جو ماردھاڑ، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کم و بیش ہر شہر اور حلقے میں ہوئی سے اسی سے اس ملک کے ثقافتی معیار کی گراوٹ اور پراگندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خود غرضی، عناد، تضحیک، خود کو بڑا اور دوسروں کو گرا ہوا دکھانے کی نفسیات، ذات پات اور برادری کے تعصبات، فرقہ واریت اور دوسرے غلیظ تعصبات کھل کر سامنے آئے ہیں۔
یورپ میں جو صنعتی انقلابات اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برپا ہوئے ان کے پیچھے نشاۃ ثانیہ کا عمل کار فرما تھا جس کے ذریعے نہ صرف کلیسا کی جکڑ کو توڑا گیا بلکہ سائنس اور فنون لطیفہ کو نئی جہت ملی۔ ہالینڈ، فرانس اور برطانیہ وغیرہ میں برپا ہونے والے انقلابات ہی تھے جنہوں نے جاگیرداری کا خاتمہ کیا، جدید قومی ریاستیں تخلیق ہوئیں اور تیز صنعتکاری ہوئی، ان سماجوں کی اخلاقی قدریں اور معیار ہی بدل گئے۔ ان ممالک میں جو مہذب سرمایہ دارانہ جمہوریت نظر آتی ہے اور جسے یہاں کے دانشور بڑا آئیڈیلائز کرتے ہیں وہ قومی جمہوری انقلاب کی پیداوار ہے۔ لیکن تاریخی طور پر کرپٹ اور نا اہل یہاں کا حکمران طبقہ گزشتہ سات دہائیوں میں قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی ادا کر پایا ہے؟ تیسری دنیا کی مفلوج سرمایہ داری کا ہی کمال ہے کہ سماجی حالات آج 1947ء سے بھی بد تر ہیں۔ ہم سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی صدیوں پر محیط یورپی طرز ارتقا کو پھلانگ کر آگے بڑھ سکتے ہیں وگرنہ اسی لولی لنگڑی سرمایہ داری کی ذلت کو برداشت کرنا ہوگا۔اس نظام میں ثقافتی تنزلی اور انتشار بڑھے گا اور بربریت، تہذیب کا نام و نشان ہی مٹا دے گی۔
اس سرزمین کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ معاشرے اتنے برباد اور بیہودہ ہمیشہ سے نہیں تھے۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کی باقیات امن و آشتی پر قائم مہذب معاشرے کا پتا دیتی ہیں۔ آرکیالوجی کی نئی دریافتیں بتاتی ہیں کہ اس تہذیب میں ''گراس روٹ ڈیموکریسی‘‘ آج سے کہیں زیادہ فعال اور صحت مند تھی۔ ہزاروں سال پیشتر اگر ایسا انسانی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے تو آج یہ سب کیونکر ممکن نہیں ہے؟ منافع خوری کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل اگر پیداوار کا مقصد بن جائے تو نہ صرف تیز معاشی ترقی ہو سکتی ہے بلکہ تہذیب و ثقافت کا وہ معیار حاصل ہو سکتا ہے جس کے سامنے ترقی یافتہ مغرب کی ظاہری چمک بھی ماند پڑ جائے۔
سرمایہ داری کی بجائے منصوبہ بند معیشت پر قائم سماج میں دولت سے پاک انتخابات ایسے نہیں ہوںگے۔ پھر جمہوریت دولت کی نہیں جمہور کی ہوگی۔ پیسے اور دھونس کی بجائے نظرئیے، احساس، ہمدردی اور رویے کی بنیاد پر لوگ منتخب ہوں گے۔ فنڈ افسر شاہی کھا سکے گی نہ پارلیمانی اور بلدیاتی نمائندے۔منصوبے ٹھیکوں میں لوٹ مار کے لئے نہیں انسانوں کی آسودگی کے لئے ترتیب دئیے جائیں گے۔مقابلہ بازی اور نمائش کی وہ نفسیات ہی رفتہ رفتہ مٹ جائے گی جو نفسا نفسی، لالچ اور بدعنوانی کو جنم دیتی ہے۔آج جو ٹیکنالوجی، ذرائع پیداوار، قدرتی وسائل اور افرادی قوت موجود ہے اسے منافع کی بجائے ضرورت کے تحت بروئے کار لا کر ہر انسان کو غذا، صحت، تعلیم، علاج، رہائش، روزگار کی فراہمی ممکن ہے ۔انفرادی بقا کی جدوجہد کی بجائے جب تمام توجہ اجتماعی معیار زندگی میں اضافے، آرٹ، سائنس اور تسخیر کائنات پر مرکوز ہو گی تو خود غرضی اور خودنمائی جیسے پست رویوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
بالشویک انقلاب کے قائدین ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی نے سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کے لئے جو بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا اس کی اکائی ''سوویت‘‘ تھی جسے ہمارے معاشرے میں عوامی پنچایت یا یونین کونسل کہا جا سکتا ہے۔سوشلسٹ جمہوریت کے ان اداروں کے تین بنیادی اصول تھے:
1) منتخب نمائندہ عوام کے سامنے جوابدہ ہو گااور اس کو اکثریتی فیصلے سے کسی بھی وقت معزول کر کے نیا نمائندہ منتخب کیا جا سکتا ہے۔
2)کسی منتخب نمائندے یا ریاستی اہلکار کی تنخواہ ہنر مند مزدور کی اجرت سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
3)عہدیدار تبدیل ہوتے رہیں گے تاکہ سماج کا ہر فرد حکمرانی میں شریک ہو سکے اور لینن کے الفاظ میں ''باورچی بھی وزیر اعظم بن سکے گا‘‘۔
ایسی براہ راست اور بنیادی جمہوریت تبھی ممکن ہے جب ذرائع پیداوار اور بینکوں کو اجتماعی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے ۔ دولت کے مکروہ میک اپ سے پاک اس ''جمہوریت کا حسن‘‘ نہ صرف جمالیاتی طور پر زیادہ لطیف ہو گا بلکہ سماجی طور پر بھی زندگی کو سہولت، اعتماد اور رعنائیوں سے بھر دے گا۔محنت کشوں کی جمہوریت ہی وہ منزل ہے جہاں انسان ہر قسم کے جبر و استحصال سے آزادی حاصل کرے گا۔