"DLK" (space) message & send to 7575

نظام زر کے طریقہ ہائے حاکمیت

پچھلے دو دونوںسے 'فوجی سویلین‘ معاملات پر پھر سے بات ہو رہی ہے۔پہلے حکومت اور فوج کی مشترکہ میٹنگ ہوئی ‘ پھر کورکمانڈروں کا اجلاس ۔ ہمیشہ کی طرح جب اپوزیشن نے حکومت پر اسمبلی میں وار کیے تو پھر حکومت کو بھی وضاحت کرنا پڑی۔ظاہری طور پر یہ صورتحال اتنی سنگین نہیں معلوم ہو رہی تھی لیکن ٹیلی ویژن کے بیشتر چینلوں پر شدت اختیار کرگئی۔
پاکستان کی تاریخ میں سول ملٹری تنائو، تضادات اور تصادم کا سلسلہ مسلسل جاری رہا ہے ۔ پچھلے 8سالوں میں گو ''جمہوری‘‘ حکومتیں براجمان رہی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکا رہے ہیں۔ عسکری اشرافیہ اسی معاشرے کے ہی افراد پر مشتمل ہے ۔خارجہ پالیسی سے لے کر داخلی معاملات، بھاری انفراسٹرکچر کی تعمیر، صنعت اور سروسز کے اہم حصوں پر یہ قومی ادارہ حکومت کے شانہ بشانہ ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کی اپنی تاریخی نا اہلی اور معاشی کمزوری بھی سب کے سامنے ہے۔یہ کرپٹ سرمایہ دار طبقہ کلاسیکی طرز کی صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست قائم ہی نہیں کر پایا، جوں جوں وقت گزرتا گیا ریاستی اداروں کا معیشت اور کاروبارمیں کردار بھی بڑھتا گیا ہے۔یہی کاروبار جب ڈسپلن کی ''گڈ گورننس‘‘ کے تحت بہتر اور فعال انداز میں چلایا گیا تو منافع بخش ٹھہرا اور پھیلتا چلا گیا، معاشی کنٹرول ہی سیاسی غلبے کو جنم دیتا ہے ۔ 
سویلین حکومتوں میں مارشل لائوں کی نسبت فوج کے اداروں کا کردار اور دفاعی بجٹ زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ اس کا سیاسی اظہار صرف اس بیان سے ہوجاتا ہے جو بلوچستان کے 
وزیر اعلیٰ کے نمائندہ خاص نے براہمداغ بگٹی کے الزام کے جواب میں دیا ہے۔ یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ مرکزی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے سوئٹزر لینڈ اور دوسرے مقامات پر بلوچستان کے باغی لیڈروں سے خفیہ ملاقاتیں کی ہیں ۔ براہمداغ بگٹی نے یہ بیان دیا کہ ''بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنے کا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ ہی سیاسی طاقت‘‘۔اس کے جواب میں ڈاکٹر مالک کی جانب سے یہ بیان آیا کہ''وزیر اعلیٰ کے پاس مکمل مینڈیٹ ہے جو وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ نے دیا ہے‘‘۔ اب اس بیان میں ہر چیز بے نقاب ہوگئی ہے۔ اگر کسی اورنے وزیر اعلیٰ کو مینڈیٹ دینا ہے تو پھر آئین کیسا‘ جمہوریت کیسی اور سیاست کے کیا معنی؟ ویسے یہاں وزیر اعظم کا نام بھی رسماً ہی لیا گیاہے۔ یہ صورتحال صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ وفاق سے ہر صوبائی حکومت کا یہی حالت اور یہی ''مینڈیٹ‘‘ ہے۔اور اس ''جمہوریت‘‘ کی ہی نہیں ''آزاد میڈیا‘‘ کی بھی یہی کیفیت ہے۔
میڈیا کا ایک بڑا حصہ فی الوقت فوج کی حمایت کررہا ہے اور اس حکومت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے، وہ بالواسطہ کہہ رہا ہے فوج کی ''گڈ گورننس‘‘ کی بدولت اس کومختلف علاقوں میں صرف آپریشنز کرنے کی بجائے پورے ملک کا اقتدار براہِ راست ہی سنبھال لینا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فوج کیا دوبارہ براہِ راست اقتدار حاصل کرنے کے لیے تیار ہے؟ یا پھر صرف توازن کو اپنے حق میں رکھ کے اسی سیٹ اپ کو جاری رکھنا چاہتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ توازن بار بار بگڑ کیوں جاتا ہے؟ فوجی اور سویلین حکمرانوں میں تضادات کچھ عرصے کے بعد کیوں پھٹ پڑتے ہیں؟ اصل وجہ ملک کا معاشی اور اقتصادی بحران ہے جو مسلسل بڑھتا جارہا ہے اور نتیجے میں جنم لینے والی سماجی تنزلی انتشار اور غم وغصے کو جنم دے رہی ہے۔عوام کی حکمران طبقے کے ہر ادارے سے نفرت کی حرارت سماج میں حاوی سطحی سکوت کے باوجود ریاست اور سیاست کے ایوانوں میں اتنی حدت پہنچا رہی ہے کہ ان کے آپسی معاہدے پگھلنے لگتے ہیں، توازن ٹوٹ جاتا ہے۔ جس معاشرے میں اتنی محرومی ہو وہاں بدعنوانی ناگزیر ہوجاتی ہے، جرائم معمول بن جاتے ہیں۔ یہ بحران اس نظام کا بحران ہے، جمہوریت یا آمریت کے سیاسی ڈھانچوں کا نہیں ہے۔ وہ بنیاد ہی لڑکھڑا رہی ہے جس پر یہ ڈھانچے قائم ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی مستحکم یاپر اعتماد حاکمیت قائم نہیں رہ سکتی۔
آج ''گڈگورننس‘‘ کی بڑی طلب اس نظام کے دانشور وں اور اینکرز کو ہے لیکن فوج براہِ راست مداخلت کرکے اقتدار سنبھالتی ہے تو اس کا اسے فائدہ نہ ہو گا۔امریکی سامراج اورتھوڑا گہرا تجزیہ رکھنے والے عسکری اسٹیبلشمنٹ کے پالیسی سازوں کو اس نازک کیفیت کا پورا ادراک بھی ہے، ایوب خان کے آخری دنوں سے لے کر مشرف کے زوال کی صورتحال کو یہ ماہرین بھولے نہیں ہیں۔ اسی طرح ضیاء الحق کے دور میںجو صورتحال پیداہوئی تھی وہ شاید سقوطِ ڈھاکہ کے وقت سے بھی مختلف تھی۔ لیکن دوسری طرف جس رفتار اور شدت سے ریاست کا بحران بڑھ رہا ہے ایسے میں کوئی بڑا واقعہ دھماکہ خیز حالات کو بھی جنم دے سکتا ہے اور یہ حالات نہ چاہتے ہوئے بھی فوج کو براہ راست مداخلت پر مجبور کر سکتے ہیں۔
حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ بحران یا تحریک کو جبر کے ذریعے کتنا عرصہ دبایا جاسکتا ہے؟ جلد ہی عوام فوجی آمریت کے عادی ہوجاتے ہیں اور اس کے خوف پر قابو پالیتے ہیں ۔ پھر ریاست کے اس طاقتور ترین ادارے اور محنت کش عوام کا براہِ راست تضاد سامنے آتا ہے۔ تحریکیں چلتی ہیں اور آمریتیں کھوکھلی ہو کر ٹوٹنے لگتی ہیں۔ پاکستان کی ساری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ماضی میں اس ملک کے سیاستدان ''جمہوریت‘‘ کے نام پر ان انقلابی تحریکوں کو زائل کر لیتے تھے۔ لیکن پچھلے چند سالوں میںاس جمہوریت نے عوام کا جو حشر کیا ہے اس کے پیش نظر ''جمہوریت‘‘ کا ناٹک بھی چلنے والا نہیں۔یوں سامراجی آقا اور یہاں کے ریاستی پالیسی ساز اپنا آزمودہ ہتھیار گنوا بیٹھے ہیں اور خاصے پریشان بھی ہیں۔ اس لیے ان کی کوشش ہے کہ یہ سیٹ اپ جاری رہے ۔ لیکن یہ ''سٹیٹس کو‘‘ اتنا گل سڑ چکا ہے، توازن اتنا بگڑ گیا ہے کہ اس کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہے اور اس کو ختم کرکے براہِ راست فوجی آمریت سے بھی صورتحال قابو میں آنے کی بجائے مزید بگڑے گی۔ 
آج محنت کش عوام اگرچہ پے درپے قیادت کی غداریوں اور معاشی بربادیوں کے صدمے سے دوچار ہیں لیکن وہ اس کھلواڑ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور پرکھ بھی رہے ہیں ۔اسباق بھی حاصل کررہے ہیںاور نجات کی راہ بھی تلاش رہے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ سویلین اقتدار ہو یا فوجی آمریت، مالیاتی سرمائے کا جبر مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہ کارپوریٹ لٹیرے اپنے نمائندوں کو کبھی شیروانی میں ملبوس کرلیتے ہیں تو کبھی وردی میں۔ ان کے منافعے اور دولت کے حجم بڑھتے جارہے ہیں۔ ''جمہوریت اور آمریت‘‘ کا تضاد اب محنت کش عوام کے لیے بہت ہی بے معنی ہو چکا ہے۔ اگر آمریتوں نے جبر کیا ہے تو سرمائے کی جمہوریت نے کونسا ستم ہے جو روا نہیں رکھا؟ حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اب اس ملک کے نوجوان اور محنت کش ایک ہی نظامِ کے ان مختلف بہروپوں کو جان گئے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں