"DLK" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات کا تضاد

پچھلے اتوار کو شروع ہونے والے پاکستان کے آرمی چیف کے دورۂ امریکہ سے متعلق بہت قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ اس سے چندہفتے قبل ہی وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی صدر بارک اوباما سے ان کے اوول آفس میں ملاقات کی تھی، جس میں افغان امن مذاکرات اور پاکستان کے جوہری پروگرام جیسے موضوعات پر بات چیت ہوئی تھی۔ اب آرمی چیف بھی یہی ایجنڈا پھر سے لے کر امریکہ گئے ہیںجسے سیاسی قیادت کی کمزوری سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ داخلہ اور خارجہ پالیسی پر حتمی فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔ وزرا آرمی چیف کی امریکہ یاترا کو ''معمول کا دورہ‘‘ قرار دے کر وضاحتیں پیش کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ، جو سابق فوجی جنرل بھی ہیں، نے وزیر اعظم کے دفاع میں فرمایا ہے کہ ''فوج سویلین گورنمنٹ کے تابع ادارہ ہے۔‘‘
تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود نے دورے کی غیر معمولی نوعیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ''امریکیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ طاقت کس کے پاس ہے۔امریکیوں نے انہیں نہیں بلایا، وہ خود ہی مدعو ہوئے ہیں...عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس سے ان مسائل کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک اس خطے میں بالخصوص افغانستان کی وجہ سے دو چار ہیں۔‘‘
عارضی طور پر ہی سہی، لیکن قندوز پر طالبان کے قبضے سے واضح ہوتا ہے کہ 2001ء کی جارحیت کے بعد افغانستان میں ''آزادی‘‘ اور ''جمہوریت‘‘ لانے کے ''مشن‘‘ میں امریکی سامراج بری طرح ناکام رہا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں طالبان کی کاروائیوں میں شدت آئی ہے اور افغانستان میں ''استحکام‘‘ کا تاثر ہوا ہو گیا ہے۔ اوباما نے انہی حالات کے پیش نظر پچھلے مہینے اعلان کیا تھا کہ ہزاروں امریکی فوجی 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں رہیں گے۔ اس سے قبل 12ستمبر کو جارج ٹائون یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے افغانستان میں ''تعمیر نو‘‘ کے انسپکٹر جان سوپکو نے کہا تھا کہ ''افغانستان باغیوں کے نرغے میں ہے، حکومتی آمدن قلیل ہے،کرپشن ناسور کی طرح پھیلی ہے، منشیات اور سمگلنگ سے وابستہ جرائم پیشہ عناصر کی یلغار ہے، حکومت بنیادی ترین فرائض ادا کرنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے...اس سنگین صورتحال پر اگر افغان اور ان کے مغربی حمایتی انتہائی دیانتداری سے غور نہیں کرتے تو ملک دوبارہ خانہ جنگی میں غرق ہو جائے گا اور طالبان سے بھی زیادہ شدت پسند گروہ پیدا ہوجائیں گے، جیسا کہ عراق اور شام میں ہو چکا ہے۔‘‘
نیویارک ٹائمز میں احمد رشید نے لکھا ہے کہ ''چار اضلاع سے امریکی فوج کا انخلا کر کے تمام انتظام افغان حکومت کو دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن 2002ء سے 2013ء تک 640ارب ڈالر کے امریکی اخراجات کے باوجود کہیں بھی ایسا ممکن نہ ہو سکا۔‘‘پچھلے سال 16ستمبر کو کابل میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ محمد عمر دادوزئی نے کہا تھا: ''پچھلے چھ مہینے افغان پولیس کے لئے خونریز ترین رہے ہیں۔ 34میں سے 18اضلاع میں جنگ چل رہی ہے۔ بیشتر علاقوں میں افغان فوجی خود اپنی چوکیوں کا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں، کھوئے ہوئے علاقے واپس لینا تو دور کی بات ہے۔ شمالی افغانستان میں منشیات کی وسیع پیداوار کرنے والے صوبے ہلمند پر طالبان قبضہ کرنے کو ہیں۔ اگر یہاں قبضہ ہو گیا تو پورا شمالی افغانستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘واشنگٹن پوسٹ نے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے: ''افغان حکومت ڈھے رہی ہے اور اسے 537ارب ڈالر کی فوجی امداد چاہئے۔اس مہینے پانچ لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑی مشکل سے ادا کی گئی ہیں۔نئے سکول اور ہسپتال بنے ہیں لیکن وہ بیرونی فنڈنگ پر ہی چل رہے ہیں۔ زراعت اور بنیادی صنعت میں کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ معیشت کا زیادہ تر دارو مدار بیرونی فوجوں کے اخراجات اور ان کو فراہم کی جانے والی سہولیات پر ہی ہے۔ اور اب تو یہ فوجی بھی جانے والے ہیں۔‘‘
یہ تمام تر بیانات اور اطلاعات عیاں کرتی ہیں کہ امریکی افغانستان میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں،لیکن گزشتہ 14 سال کے دوران اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ وہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں اپنے ''اتحادی‘‘ پاکستان پر ڈالتے رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کے طاقتور اداروں کے افغانستان میں عزائم سے قطع نظر، یہ امریکی ہی تھے جنہوں نے اس خطے میں 1979ء میں ''جہاد‘‘ کا آغاز کروایا تھا۔ ضیاالحق کی آمریت اور اس کی چھتری تلے پلنے والے بنیاد پرست اُس وقت امریکیوں کے سب سے بڑے اتحادی تھے۔رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر ان کی شجاعت اور جرأت کے قصے پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔ امریکی سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کی ان پالیسیوں نے نہ صرف افغانستان کو تاراج کیا بلکہ پاکستان کے سماج اور ثقافت میں بھی رجعت کا زہر گھول دیا۔ خلیج کی بعض مطلق العنان حکومتوں نے اربوں پیٹرو ڈالر اس جہاد میں پمپ کئے جس کا مقصد افغانستان کے ثور انقلاب سمیت پورے خطے میں بائیں بازو کے رجحانات کو کچلنا تھا۔ یہاں سے ہی منشیات اور دوسرے جرائم پر مبنی کالی معیشت کا جنم ہوا جو آج پاکستان کی سرکاری معیشت سے بھی دو گنا ہو چکی ہے۔ اسی کالے دھن کی بندر بانٹ کے نتیجے میں طرح طرح کے جہادی اور فرقہ پرست گروہ پیدا ہوئے۔سوویت یونین کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ان میں سے بیشتر کو ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی کے تحت اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ 
فی الوقت تمام تر لعن طعن اور الزامات کے باوجود واشنگٹن کے پاس اسلام آباد کے علاوہ کوئی ایسی علاقائی قوت نہیں ہے جو ''طالبان‘‘ کو مذاکرات کی میز پر لا سکے۔طالبان کے حاوی دھڑے کا نیا امیر ملا اختر منصور پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح حقانی نیٹ ورک کو امریکی پالیسی ساز پاکستانی ایجنسیوں کا ''دایاں ہاتھ‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ملٹری نے کئی دہشت گرد گروہوں کو تتر بتر کر دیا ہے لیکن حقانی نیٹ ورک جیسے گروہوں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورۂ امریکہ میں اوباما نے انہی گروہوں کے خلاف کاروائی پر زور دیا تھا۔
ستمبر میں ملا عمر کے انتقال کی خبر آنے پر طالبان سے ''امن مذاکرات‘‘ آغاز میں ہی انجام کو پہنچ گئے تھے جس کے بعد امریکی دبائو اور بھی بڑھ گیا ہے۔ پچھلے مہینے وزیر اعظم نواز شریف نے مذاکرات کے عمل میں افغانستان کی مدد کا عندیہ دیا تھا لیکن ایسے کسی کامیاب مذاکرات کی امید امریکیوں کو کم ہی ہے۔ دوسری طرف طالبان تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، منشیات کے دھندے اور کالے دھن کی حصہ داری پر لڑائی پچھلے کچھ عرصے میں بڑھ گئی ہے۔ ملا منصور اختر کے دھڑے سے الگ ہونے والا گروہ افغانستان میں سرگرم داعش سے جا ملا ہے اور اپنا الگ امیر بنا لیا ہے۔ آرمی چیف کے دورے میں پاکستانی اہلکاروں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ افغان طالبان رہنمائوں کو مارا جائے اور ان سے مذاکرات کی امید بھی کی جائے۔ ایک انگریزی اخبار نے مذاکرات کے امکانات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ''امریکیوں کو بتایا گیا ہے کہ جتنا انتشار ہے، اس کے پیش نظر بات چیت ممکن نہیں ہے۔ سرخ قالین کے استقبال کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل شریف کو واشنگٹن میں کچھ کڑوی باتیں بھی سننا ہوں گی۔ پاک افغان تعلقات کچھ عرصے کے لئے بہتر ہوئے تھے لیکن اب تلخی کے پرانے دن واپس آگئے ہیں، بالخصوص قندوز پر طالبان کے حملے کے بعد ...‘‘
دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوت کی جارحیت اگر ناکام ہوئی ہے تو ''مذاکرات‘‘ کی کامیابی کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ افغان پاکستان گمبھیرتا اس نظام کی حدود میں سلجھنے والی نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف جنگ اور دہشت گردی بلکہ معیشت اور ثقافت کے تاریخی بندھن میں بھی منسلک ہیں۔ ان کا مستقبل بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔ڈیورنڈ لائن ایک مصنوعی تقسیم ہے جس کے ذریعے برطانوی سامراج نے 1893ء میں پشتونوں کو چیرا تھا۔ دونوں طرف مشترک زبان، ثقافت اور مذہب کے لوگ آباد ہیں۔ سامراج، بنیاد پرستی اور ان کے نظام کی بربادی سے نجات کا انقلابی راستہ اور منزل بھی مشترک ہی ہے۔ پاکستان میں اور افغانستان میں دو الگ الگ انقلاب نہیں ہو سکتے۔ ایک ہی انقلاب اس پورے خطے کی تقدیر بدلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں