"DLK" (space) message & send to 7575

دہشت کا عفریت

ایک اور تعلیمی ادارہ دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔ دہشت گردی کے معمول بن جانے کے باوجود سماج اس واقعے پر صدمے میں ہے۔بدھ کے روز چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پرہوئے اس حملے میں 21افراد جاں بحق اور پچاس زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر طلباء ہیں۔ جب میڈیا، حکمران اشرافیہ اور ریاست یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور دہشت گردی کے ناسور پر تقریباً قابو پا لیا گیا ہے اسی وقت دہشت گردی کا ایک اور واقعہ رونما ہو گیا۔2016ء کے پہلے بیس روز میں پورے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں 60سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔عام لوگ تشویش اور اس سے زیادہ ہولناک حملوں کے خوف کا شکار ہیں۔آخری تجزیے میں یہ واقعات مجبور عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں جو پہلے ہی اس متروک اور ظالم نظام کے معاشی اور سماجی بحران کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اگرچہ2015ء میں حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن دہشت گردی کا عفریت جوں کا توں موجود ہے اور چارسدہ کے حملے سے یہ واضح ہے کہ دعوئوں کے بر عکس دہشت گردی کا نیٹ ورک اور خطرہ بدستور قائم ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں انٹیلی جنس آپریشن اور جنگجوئوں کی بڑی تعداد کو گرفتار یا ہلاک کیا جا چکا ہے۔تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ 
دہشت گرد قبائلی علاقوں میں موجود پنا ہ گاہوں سے نکل کر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جا گھسے ہیں جہاں سے وہ قاتلوں کے جتھوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان بھیج رہے ہیں۔کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کا سابقہ سرگرم رکن خلیفہ عمر منصور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں اپنے گروپ کا سربراہ ہے۔ اس نے باچاخان یونی 
ورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وہ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے ضلع نازیان سے کارروائیاں کر رہا ہے۔دہشت گردوں کی تمام فون کالز افغانستان سے ٹریس ہوئی ہیں۔ دسمبر2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول اور گزشتہ برس ستمبر میںپی اے ایف بیس بڈ بیر پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی یہی ہے۔ فروری 2015ء میں پشاور میں امامیہ مسجد پر فرقہ وارانہ حملے میں بھی اسی کا ہاتھ تھا جس میں20نمازی ہلاک ہو ئے تھے۔
اے پی ایس کے دلخراش حملے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف فوراً کابل گئے ۔ اس دورے کا مقصد ننگر ہار، کنڑ اور دوسرے علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے اشرف غنی سے مدد مانگنا تھا۔اشرف غنی نے پاکستان سے بھی اسی طرح کی کارروائیوں کا مطالبہ کیا۔ ایک مرتبہ پھر چارسدہ کے دہشت گردوں کی کالز افغانستان سے ٹریس ہونے پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل شریف نے اس ہولناک کارروائی کے منصوبہ سازوں تک رسائی اور ان کے خاتمے میں مدد مانگنے کے لیے افغان حکومت سے رابطہ کیاہے۔سچ تو یہ ہے کہ بیچارے افغان صدر اور ان کی حکومت کا دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر بمشکل ہی کوئی کنٹرول ہے۔ افغان ریاست سامراجی حملہ آوروں کا بنایا ہوا مصنوعی اور کمزور ڈھانچہ ہے اور ملک کے طول و عرض میں اس کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔نیٹو کی سنگینوں تلے جمہوریت ایک بیہودہ تماشا ہے۔اگر پاکستان کی ریاستی ایجنسیاں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتی ہیں تو افغان حکومت کے کچھ حصوں کے بھی یہاں بربادی پھیلانے والے پاکستانی طالبان کے ساتھ مراسم ہیں۔افغان ریاست کے دھڑوں کی پاکستان دشمنی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ان ریاستی اشرافیہ کے آپس میں بھی اختلافات ہیں۔پاکستانی ریاست کے کچھ حصے ہندوستان کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں لیکن جنرل راحیل اور نواز حکومت نے یہ الزام نہیں لگایا۔افغانستان کی پیچیدہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سے کسی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔لیکن حکامِ بالا میں پایا جانے والا یہ اختلاف رائے حکمران ڈھانچے میں تنائو اور اس مسلسل جنگ کے ریاست پر اثرات کو عیاں کر رہا ہے۔
اب پاکستان کے اکثر تجزیہ نگار اس حقیقت کو دہرا رہے ہیں جس کا سب سے پہلے اعتراف ہلیری کلنٹن نے کیا تھا کہ یہ دہشت گرد انہی کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔اس گھنائونے دہشت گرد نیٹ ورک کو بنا نے میں پاکستانی اداروں کو بطور اوزار استعمال کیا گیاجس کا مقصد 1978ء میں شروع ہونے والے ڈالر جہاد کے ذریعے افغانستان کی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔منشیات اور بہیمانہ جرائم پر مبنی انفرا سٹرکچر سامراجیوں نے ہی تعمیر کیا تھا۔ اب یہ دہشتگردوں کو اربوں ڈالر کی فنڈنگ کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔خطے میں اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کے لیے پراکسی بننے والے کہیں زیادہ پھیل کر کئی حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں ۔ لوٹ مار اور کالے دھن میں حصے کی خاطر ان کے کئی زہریلے جتھے بن چکے ہیں۔اس کاروبار میں کسی چیز کی بھی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے دہشت گرد حملے جتنے زیادہ ظالمانہ اور درندگی پر مبنی ہوں گے اتنی ہی ان گروپوں کی تشہیر ہو گی اور ان کی قیمت اور ان کے منافعے اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ خطے میں کئی گروپوں کی جانب سے داعش کا نام استعمال کرنے کی وجہ داعش کی تنظیم میں ان کی شمولیت کی بجائے ان جنگی سرداروں کی مارکیٹنگ کی خواہش ہے ۔ 
تقریباً چار دہائیوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ دہشت گرد اور ان کا سرمایہ ان ریاستوں کے دھڑوں کے اندر سرائیت کر چکا ہے۔اس ساز باز پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر اسے Political Islamکے نظر یے کا نام دیا جاتا ہے۔سماجوں کے معاشی زوال اور عوام کی شدید محرومی اور ذلت میں یہ لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کو کچھ روزگار فراہم کرتے ہیں جن کا مستقبل تاریکی کے سوا کچھ نہیں۔بائیں بازو کے انہدام اور بائیں بازو کے پاپولسٹ لیڈروں کی غداریوں سے عوام مزید بے حسی اور مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔سامراجیوں اور علاقائی ریاستوںکی جانب سے بنائی گئی بنیاد پرست جنگجوئی پراکسیاں اب عفریت بن کران کے قابو سے باہر ہو چکی ہیں۔نہ صرف ریاستوں کا نظم و ضبط اورادارے بکھر چکے بلکہ ریاستوں اور سماجوں میں ان کی متحارب اور درندہ صفت مداخلت ایک خطرہ بن چکی ہے۔یہ آسیب بن کر اپنے ہی خالقوں کو ڈرا رہے ہیں جنہوں نے اپنے لالچ اور بالا دستی کی خاطر نہیں تخلیق کیا تھا۔
دہشت گردی اب ایک عالمگیر عمل بن چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا اور افریقہ کے سماج تاراج ہو رہے ہیں۔سامراجی فوجی مداخلتیں اور معاشی لوٹ مار اسے ہوا دے رہی ہیں۔آخری تجزیے میں یہ عفریت ان ریاستوں کی چالبازیوں کی پیداوار ہیں جنہوں نے ان کو اپنے حکام اور حکمران طبقات کی حرص کی خاطر کی جانے والی جنگوں کا متبادل بنا لیا۔اب تاریخ ان سے انتقام لے رہی ہے۔ان ریاستوں کی ناکامی کی ایک اور وجہ معاشی زوال اور بڑھتا ہوا سماجی خلفشار ہے اور سماج پر گرفت کمزور پڑنے سے یہ معذور ہوتی جا رہی ہیں۔لیکن سب سے بڑھ کر سرمایہ داری کا بحران اتنا شدید ہے کہ اس کی تاریخی متروکیت اور معاشی دیوالیہ پن کا اظہار ان شکلوں میں ہو رہا ہے۔نیم رجعت اور سماجی جمود کے عہدوں میں گلتے سڑتے سماجوں کی بدبو دار جھاگ اور غلاظت دہشت اور تشدد کی شکل میں سامنے آتی ہے۔دہشت گردی ان درندوں کے ساتھ کسی مذاکراتی حل اور نہ ہی انہیں تخلیق اور پالنے پوسنے والی ریاستوں کے ہاتھوں طاقت کے ذریعے ختم ہو سکتی ہے۔صرف نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی تحریکیں ہی ان اندھیری رجعتی طاقتوں کا صفایا کر سکتی ہیں۔یہ معروضی صورتحال اور عہد زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔ہم نے حالیہ برسوں میں مجبور عوام کی تحریکیں دیکھی ہیں ۔ نئی بغاوتیں ابھرنے میں زیادہ وقت نہیں ہے۔ان بربادیوں کو پیدا کرنے والا یہ نظام لینن کے الفاظ میں '' مسلسل وحشت‘‘ ہے۔اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے ایک انقلاب کے ہاتھوں خاتمے سے ہی انسانیت نسل در نسل سے چلی آ رہی سماجی و معاشی ذلت سے آزاد ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں