"DLK" (space) message & send to 7575

توہین کا انتقام!

طبقات پر مبنی معاشرے میں ریاست اور سیاست کی طرح معیشت کا کردار بھی طبقاتی ہوتا ہے۔ حکمران طبقہ جس معیشت کی 'ترقی‘ کے گن گاتا ہے اس کا عوام سے متضاد تعلق ہی ہوتا ہے۔ میگا پروجیکٹس ہوں یا جی ڈی پی کے اعشاریے میں ہیرپھیر، آبادی کی وسیع اکثریت کا معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہی رہتا ہے۔ محنت کش طبقے کی حقیقی اجرت اور قوت خرید گرتی چلی جاتی ہے اور نئی نسل کا بڑا حصہ بیروزگاروں کی فوج کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہی آج کے عہد کی سرمایہ دارانہ معیشت کا سماجی کردار ہے جو عالمی سطح پر 2008ء کے بحران سے برائے نام بحالی کے بعد پہلے سے گہرے بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چین سے لے کر خلیج، یورپ اور امریکہ تک، ہر طرف معیشتیں زوال کا شکار ہیں، تفریط زر عالمی مظہر بن چکا ہے جس کی بنیادی وجہ قوت خرید اور طلب میں مسلسل کمی ہے۔ یورپ کے بعد جاپان میں بھی شرح سود منفی میں جا چکی ہے، جس کا مطلب ہے کہ سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے کے تمام طریقے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور معیشت کے ہر اصول کے برعکس منفی شرح سود کا طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکانومسٹ جیسے سرمایہ داری کے سنجیدہ جریدے لکھ رہے ہیں کہ ''ایسا ہو نہیں سکتا، اگر ہو سکتا ہے تو ہونا نہیں چاہئے۔‘‘ 
ان حالات میں، جہاں تاریخی طور پر ترقی یافتہ ترین ممالک کی معیشتیں ڈوب رہی ہیں، پاکستان جیسے ملک میں ''استحکام‘‘ یا ترقی کی باتیں مذاق سے کم نہیں اور یہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہی کرتی ہیں۔قرضے پہلے ہی ناقابل واپسی حد سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور اس سال جولائی تا ستمبر 30 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے‘ جس کے لئے سخت شرائط پر مزید قرض لیا 
جائے گا اور ساتھ ہی نئے ٹیکس بھی لگائے جائیں گے۔ حکمران اپنی تمام تر نااہلی اور داخلی کمزوری کے باوجود ریاستی، سیاسی اور سماجی جبر کے ذریعے اپنے اقتدار اور نظام کو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہیں۔ حکمران طبقے اور اس ریاست کے ہر ادارے کا تقدس عوام پر مسلط ہے اور اس کے بارے میں بات کرنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے۔ غریب اگر حکم نہ مانیں تو یہ بھی جرم بن جاتا ہے۔ اگر اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو وطن سے غداری کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ اگر ملائیت کی رجعت سے بغاوت کی جائے کفر کے فتوے تیار پڑے ہیں۔ اگر ''جمہوریت‘‘ کے تحت ہونے والے استحصال اور معاشی قتل عام پر بات کی جائے تو ''جمہوریت کا تسلسل‘‘ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ غرضیکہ حکمرانوں نے اپنے ظلم و استحصال کو جاری رکھنے کے لئے آئین، قانون، اخلاقیات اور اقتدار کے ایسے جال بچھا رکھے ہیں کہ محنت کش عوام کو سر جھکا کر ہر ظلم ہر اذیت ہر ذلت کو برداشت کرتے رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
اگر یہاں کسی کی توہین کی آزادی ہے تو وہ محنت کش عوام ہیں۔ دن رات ہر طرف ان کی توہین لامتناعی طور پر جاری ہے۔ ان کی محنت کے استحصال سے، اجرت کو لوٹ کر، انہی کی توہین اس طبقاتی سماج کا شیوہ ہے۔ محنت کرنے والے ہاتھ اس سماج کو چلاتے ہیں، بلند و بالا عمارات کو تعمیر کرتے ہیں، فیکٹریوں میں پیداوار کرتے ہیں، ریل چلاتے ہیں، اس معاشرے کا ہر پہیہ گھماتے ہیں، جن کی محنت کے بغیر کوئی بلب نہیں جل سکتا، کوئی فون کی گھنٹی نہیں بج سکتی، زمین اناج نہیں اگل سکتی، یہ زندگی کو زندگانی بخشتے ہیں۔ انہی آہنی ہاتھوں کو حکمران سرکاری اور نجی بھیک کے آگے پھیلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیا یہ توہین نہیں ہے؟ 
پاکستان کی سماجی خستہ حالی کا اندازہ 'مرسر‘ کی جانب سے کئے گئے تازہ سروے سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق اس ملک کے دو 'ترقی یافتہ ترین‘ شہروں، یعنی کراچی اور لاہور کا شمار زندگی گزارنے کے لئے دنیا کی بدترین جگہوں میں کیا گیا ہے۔ معیار زندگی کے حوالے سے 230 ممالک کی فہرست میں کراچی 202ویں اور لاہور 199ویں نمبر پر رہا۔ اگر یہاں کے 'میٹروپولیٹن‘ شہروں کا حشر یہ ہے تو پسماندہ علاقوں کی صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس معاشرے میں روز 1200 بچے بھوک اور غربت سے مر جاتے ہیں، 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے یعنی تقریباً 13 کروڑ لوگوں کی ساری بھاگ دوڑ ہی دو وقت کی روٹی کے لئے ہے، ہر سال 5 لاکھ خواتین زچگی کے دوران نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے مناسب دیکھ بھال اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی سے محروم ہو جاتی ہیں، زچہ و بچہ کی اموات کی شرح جنوب ایشیا جیسے پسماندہ خطے میں بھی سب ممالک سے زیادہ ہے، ہر روز ہزاروں افراد خط غربت سے نیچے گر رہے ہیں، 90 فیصد آبادی پانی کے نام پر زہر پی رہی ہے، ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے 20 لاکھ نوجوانوں کے لئے چند ہزار نوکریاں بھی نہیں ہیں، جو بزرگوں کو سہولیات کی فراہمی میں سب سے پیچھے ہے اور جہاں غربت کے ہاتھوں اجتماعی خود کشیاں معمول بن چکی ہیں، دہشت گردی اور جرائم کا عفریت لوگوں کو جیتے جی مار رہا ہے، عورت کو عزت بیچنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، وہ اور اس کا نظام توہین انسانیت کا مرتکب نہیں ہو رہا؟ لیکن یہاں کے عوام کی وسیع تر اکثریت کی توہین کو کون پوچھتا ہے۔ دولت کی ہوس پر مبنی اخلاقیات، اقدار اور ریت و رواج میں غرق یہ معاشرہ اندر سے سلگ رہا ہے، سسک رہا ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کی ذلت، بجلی گیس پانی کی قلت، تعلیم، علاج، ٹرانسپورٹ، رہائش، نکاس کے عذاب۔ لیکن برداشت لا محدود نہیں ہو سکتی۔ لاوا سلگتا رہتا ہے اور جب یہ آتش فشاں بن کے پھٹے گا اس ظلم و جبر کی ہر زنجیر کو مٹا کر ہی دم لے گا۔ صدیوں سے نسلوں کی توہین کا انتقام محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس نظام، اس کے حاکموں، اس کے رکھوالوں، اس کے حواریوں، اس کے دانشوروں، اس کے جواز گھڑنے والوں اور توہمات کے ذریعے اعتقادی جذبات سے کھلواڑ کرنے والوں سے لینا ہے‘ جنہوں نے ان کو یہ محکومی تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔
یہ انتقام مثبت اور خوش آئند صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی سیاسی اور معاشی ڈھانچوں کو یکسر تبدیل کرے۔ منڈی، منافع، نجی ملکیت اور طبقات کا خاتمہ کر کے ہی کوئی انقلاب اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکتا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کا واحد راستہ صرف انقلابی سوشلزم ہی ہے جس کا بھوت اس کی ''ناکامی‘‘ اور ''خاتمے‘‘ کے باوجود یورپ، امریکہ اور لاطینی امریکہ میں سامراج اور حکمران طبقات کے سر پر ایک بار پھر منڈلا رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہی ایسے سماج کی نوید بن سکتا ہے جہاں کوئی غریب اور کمزور نہیں ہو گا، کسی انسان کی تضحیک اور توہین نہیں ہو گی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اتنے وسائل، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت موجود ہے کہ انسانی ضروریات کے مطابق انہیں سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت بروئے کار لایا جائے تو چند سالوں میں آج کے ترقی یافتہ ترین ممالک سے بھی بلند معیار کا معاشرہ تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ ایسے غیر طبقاتی سماج میں ریاست جبر نہیں بلکہ اشتراک کا ادارہ بنے گی۔ تعلیم، علاج، روزگار، بجلی اور دوسری بنیادی سہولیات کی فراہمی مراعات نہیں عوامی حق کا درجہ اختیار کرے گی۔ قومی محرومی اور لسانی تعصبات کا خاتمہ ہو گا اور اقوام کی ایک رضاکارانہ فیڈریشن میں شمولیت بلند معیار کی تہذیب کو جنم دے گی۔ یہ اشتراک انسان سے نفرت کی بجائے عالمی بھائی چارے کی نوید دے گا۔ مادی حالات بدلیں گے تو نام نہاد ''انسانی فطرت‘‘ بھی بدل جائے گی، اور انسان حقیقی معنوں میں انسان بن کر تخلیق، تحقیق اور تسخیر کائنات کے سفر پر رواں دواں ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں