2015ء کے دوران یورپ میں دس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کی آمد ہوئی ۔ ان میں سے نوے فیصد کا تعلق شام، عراق یا افغانستان سے ہے۔یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانوں کی سب سے بڑی نقل مکانی ہے۔اس کے نتیجے میں سات یورپی ممالک بارڈر کنٹرول نافذ کر چکے ہیں۔ہنگری جنوبی سرحد پردیوار تعمیر کر رہا ہے۔ڈنمارک آتے ہی مہاجرین کے پاس موجود اثاثے ضبط کر رہا ہے۔ سویڈن سیاسی پناہ کے 80,000طلب گاروں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور برطانوی وزیر اعظم کیمرون غیر ملکیوںسے نفرت کرنے والے اپنی ہی جماعت کے دائیں بازو کے دبائو میں ہے۔
یہ سب کچھ سرمایہ داری کی وسیع تر منڈیوں کی جستجو اور قومی ریاست کے وجود کے مابین تضاد کا اظہار ہے۔گلوبلائزیشن کے عمل کا خاتمہ ہو رہا ہے اور یور پ کا ادغام جسے کبھی نا قابل واپسی سمجھا جاتا تھا اب پیچھے کی جانب جارہا ہے۔
شینگن کا علاقہ یورپی یونین کے بائیس ممالک پر مشتمل ہے اور آبادی چالیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان اندرونی سرحدوں کو سالانہ 1.25 ارب مرتبہ عبور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب اب تیزی سے ختم ہونے کی طرف جا رہا ہے۔شینگن کے ضوابط کے مطابق رکن ریاستیں ''غیر معمولی‘‘ حالات میں سرحدوں پر کنٹرول نافذ کر سکتی ہیں جب '' پبلک پالیسی یا داخلی سکیورٹی کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہو‘‘۔ عام طور پر یہ تیس دن سے زیادہ کے لیے نہیں ہوتا،لیکن شینگن کوڈ کی شق نمبر26 کے تحت یورپی کمیشن کو دو سال تک کے لیے بارڈر کنٹرول نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
گزشتہ ستمبر میں جرمنی نے آسٹریا کے ساتھ بارڈر کنٹرول نافذ کیا تھا۔نومبر میں پیرس حملو ں کے بعد سے فرانس نے ایمر جنسی اور بارڈر کنٹرول نافذ کر رکھے ہیں۔20جنوری کو میسیڈونیا نے یونان کے
ساتھ اپنی سرحد بند کر دی ہے۔میسیڈونیا یورپی یونین کا رکن ہے نہ ہی شینگن علاقے میں شامل۔ ''مغربی بلقان راستے‘‘ کے تقریباً تمام ممالک یعنی سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریا اور سلووینیا نے ایسی شقوں کا اجراء کیا ہے جن سے وہ عارضی طور پر سرحدوں پر رکاوٹیں قائم کرسکتے ہیں۔ عملی طور شینگن معطل ہو چکا ہے۔
جرمن چانسلر اینجلا مرکل ایک مرتبہ پھر ترکی جا رہی ہیں تاکہ اردوعان کو یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو روکنے پر آمادہ کر سکیں۔ صورتحال کی سنجیدگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے صرف گزشتہ چنددنوں میں ہزاروں نئے شامی مہاجرین ترک سرحد پر جمع ہوئے ہیں۔ نومبر میں یورپی یونین نے ترکی کو تین ارب یورو کے ساتھ ساتھ بغیر ویزہ کے سفر جیسی سیاسی رعایتوں کی پیشکش کی تھی،لیکن ترکی کے لیے یہ نا کافی ہے جو مہاجرین کی رہائش، تعلیم اور صحت پر 8ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے ۔
یورپ میں سرمایہ داری نے قومی ریاست کو تخلیق کیا تھا جو بعد ازاں اس کی حدود سے تجاوز کر گیا۔پھر انہوں نے سستے خام مال اور نئی منڈیوں کی جستجو میں ساری دنیا میں نو آبادیات قائم کیں۔اس کے باوجود عالمی منڈی بڑی طاقتوں کی مجموعی پیداواری صلاحیت کی کھپت کے لیے ناکافی تھی۔ اس کے نتیجے میں دو عالمی جنگیں ہوئیں جن کا مقصد یورپ اور ساری دنیا میںبالا دستی کا تعین کرنا تھا۔ ان سے یورپی طاقتیں اپنے عالمی غلبے سے محروم ہو گئیں۔
دوسری عالمی جنگ کے کھنڈرات سے یورپین اکنامک کمیونٹی (ای ای سی) اور بعد ازاں یورپی یونین کا ظہورہوا۔اس کے قیام کی وجہ یورپی بورژوازی کی قومی ریاست اور اس کا محدود قومی منڈی کی بندشوں سے آزاد ہونا تھا۔
آج سرمایہ داری کا بحران اس حقیقت سے عیاں ہے کہ ساری دنیا میں جڑت کا عمل واپس ہو رہا ہے۔2015ء کے نصف اوّل میں عالمی تجارت میں2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد شدید ترین گراوٹ آئی ہے۔ ماہانہ تقابل میں 2015ء میں چین میں درآمدات اور برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
دسمبر میں امریکہ نے چین سے فولاد کی درآمدات پر256فیصد محصول عائد کر دیا ہے۔ یو رپ زائد پیداوارکے مرض کا شکار ہے اور1.1ٹریلین ڈالر یورپ کی غیر ما لیاتی کمپنیوں کے پاس بیکار پڑے ہیں۔سرمایہ دارانہ نقطہ نگاہ سے جب پہلے سے موجود مال نہ بک رہا ہو تو پھر پیداوار میں نئی سرمایہ کاری کیوں کی جائے؟
ہر روز سترہ لاکھ یورپی محنت کش شینگن کی اندرونی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں۔یورپی یونین کے صدر یاں کلاڈ جنکر کے مطابق ان پر کنٹرول نافذ کرنے سے کاروبار میں سا لانہ تین ارب یورو کا نقصان ہو گا۔جرمن کاروباری حکام نے بارڈر متعارف کروانے سے ملکی معیشت کو سالانہ 10ارب یورو کے نقصان کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔فرانسیسی حکومت کی معاشی منصوبہ بندی کی ایجنسی فرانس سٹریٹجی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کو اس کی110ارب یورو قیمت چکانی پڑے گی اور ایک دہائی میں اس کی معیشت0.8فیصد سکڑ جائے گی۔اس رپورٹ کے مطابق یورپ میں پھر سے سرحدیں کھڑی کرنے سے فرانس کو قلیل مدت میں ہر سال ایک سے دو ارب یورو کا نقصان ہو گا۔سیاحت میں 500ملین سے ایک ارب یورو کی کمی آئے گی اورتجارت پر منفی اثرات 60ملین سے120ملین یورو تک ہوں گے۔اس سے ڈوبتی ہوئی عالمی معیشت کے بحران میں شدت آئے گی۔یورپی یونین سابقہ نو آبادیاتی طاقتوں کا اتحاد ہے جو اپنے پُرشباب عہد کو حسرت سے یاد کرتے ہیں اور اس کے لوٹ آنے کو ترس رہے ہیں۔ان کی سلطنتیں ختم ہو جانے کے بعد امریکہ اور جاپان جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مقابلے میں ان کی صنعت بھی زوال کا شکار ہو گئی۔اپنی بقا کی خاطر وہ اکٹھے ہونے پر مجبور ہوئے۔ عالمی جنگ کے بعد کے معاشی ابھار کے دوران تمام رکن ریاستوں کو کسی نہ کسی حد تک اس یونین سے فائدہ پہنچا لیکن جرمنی نے ان میں برتری حاصل کر لی جس کا نقصان دوسرے ممالک کو پہنچا۔داخلی تضادات حل ہونے کے بجائے مزید گہرے ہو گئے۔
محنت کش طبقہ فطری طور پر آزادانہ نقل و حرکت چاہتا اور شینگن اس کا علمبردار بنا ہو ا تھا ، لیکن اب یہ سرمایہ داری کے خلقی تضادات سے متصادم ہے ۔ سرمایہ داری اب قوتِ محنت کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دے سکتی۔یورپی یونین کے مزید زوال سے داخلی صورتحال بد تر ہو رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی شرح نوجوانوں میں کہیں زیادہ ہے۔ان حالات میں یورپی یونین کے کئی ممالک میں غیر ملکی محنت کشوں کی آمد کے خلاف دبائو بڑھ رہا ہے جسے دائیں بازو کی جماعتیں ہوا دے رہی ہیں۔
یورپ کی قومی حکومتوں کی مہاجرین کی مخالفت نسل پرستانہ پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا ہے۔انہیں کچھ عرصے کے لیے چند مخصوص پرتوں میں کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ مزدور تحریک کے لیڈرکوئی متبادل پیش نہیں کر رہے۔سستی لیبر کا جواب غریب تارکین وطن کے خلاف لڑ نا نہیں بلکہ انہیں منظم کرنا، ٹریڈ یونین میں شامل کرنا اور قوم، نسل، رنگ اور مذہب سے بالا ترہو کر محنت کشوں کو متحد کر کے تمام ممالک کے سرمایہ داروں کے خلاف لڑنا ہے۔
شینگن کا خاتمہ اور سرحدیں کھڑی کرنا در حقیقت ہر ملک کے سرمایہ دار کی اپنی قومی سرحدوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش ہے۔یہ یورپی یونین کے تاریخی زوال کے سفر میں ایک قدم ہے۔سماجی ا ور معاشی مسائل میں اضافے کے ساتھ طبقاتی جدوجہد بھی ابھر رہی ہے اور آنے والے وقت میں سارے یورپ میں اس کا اظہار ہو گا۔ایک کے بعد دوسرے یورپی ملک میں عوامی جدوجہد، مظاہرے، ہڑتالیں اور عام ہڑتالیں ہوں گی۔طبقات کی کشمکش میں سماج کی دائیں اور بائیں جانب پولرائزیشن ہو گی۔بائیں بازو کی حکومتیں بر سر اقتدار آئیں گی جن کے بعد ردِ انقلاب کے ادوار اور جدوجہد کی نئی لہریں سامنے آئیں گی۔آنے والے عہد میں اس عمل کے ذریعے یورپ کے محنت کش عوام انتہائی ریڈیکل نتائج اخذ کریں گے۔