"DLK" (space) message & send to 7575

سودے بازی؟

ایک اور سنسنی خیز نان ایشو کا دور دورہ ہے۔ ''ملٹری سویلین تعلقات‘‘ اور ''طاقت کے توازن‘‘ کی بحث اگلے کئی دن تک میڈیا پر براجمان اس نظام کے رکھوالوں کے درمیان جاری رہے گی۔ عوام پر بھی اس سیاسی اور ریاستی نظام کی حقیقت ایک بار پھر آشکار ہو گی‘ جس کا بنیادی مقصد انہیں پُرفریب محکومی کی جکڑ میں رکھ کے حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہ آئین اور قانون محنت کش طبقات پر ہی لاگو ہوتا ہے، طاقتور اور امیر اسے چیر پھاڑ کے نکل جاتے ہیں۔ نظام کا بحران بڑھنے کے ساتھ حکمران طبقات کی آپسی چپقلش اور تضادات بھی بڑھتے ہیں لیکن پھر اپنے نظام کی حفاظت کے پیش نظر وہ کسی بڑے ٹکرائو یا دھماکہ خیز واقعے سے قبل ہی لین دین کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مشرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ 
پرویز مشرف کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرنے والے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی سپریم کورٹ کی جانب سے معطلی کے بعد 18 مارچ کو علی الصبح وہ دبئی روانہ ہو گئے۔ قانونی طور پر حکومت مشرف کے سفر پر پابندی کے نئے احکامات جاری کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ رویہ حکومت کے 2013ء میں برسر اقتدار آتے وقت کئے گئے ''احتساب‘‘ اور ''جمہوریت کی بالادستی‘‘ کے دعووں سے بالکل متضاد تھا۔ 
اس سے پہلے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور تجارت بڑھانے کا عندیہ دیا گیا تھا جس کے بعد 2014ء کے لانگ مارچ اور دھرنوں نے انارکی کی کیفیت پیدا کر دی۔ ان دھرنوں کے بعد سے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ساتھ ساتھ مشرف کے ٹرائل کا معاملہ بھی ٹھنڈا ہو کر منظرنامے سے کم و بیش غائب ہو گیا۔ 
پرویز مشرف مارچ 2013ء میں عام انتخابات میں حصہ لینے اور اپنے خلاف مقدمات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان واپس آئے تھے۔ یہاں آ کر انہیں معلوم ہوا کہ فیس بک پر ان کے لاکھوں 'فالوورز‘ ان کا استقبال کرنے نہیں پہنچ سکے اور ان کی 'تیزی سے بڑھتی ہوئی‘ مقبولیت سوشل میڈیا تک ہی محدود رہی۔ چند درجن افراد ہی ان کے استقبال کو آئے۔ اب ان کی واپسی سے بظاہر تو یہ باب ختم ہو گیا ہے‘ لیکن عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے میں ناکام حکمران طبقہ اور سیاسی اشرافیہ اس نان ایشو کو اچھالتے رہیں گے۔ مشرف شاید مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے واپس آئیں اور سیاسی کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کریں‘ یا پھر وہ مستقل جلا وطنی بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کا انحصار سیاست کی حرکیات پر ہے۔ 
پرویز مشرف 1999ء میں ایک فوجی کُو کے ذریعے برسر اقتدار آئے تھے۔ وہ 2008ء تک اقتدار میں رہے اور پیپلز پارٹی کی سویلین حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک چھوڑ کر دبئی اور لندن میں قیام پذیر رہے۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ اپنی پارٹی 'آل پاکستان مسلم لیگ‘ کی قیادت کرنے کے لئے وطن واپس آئے لیکن انتخابات کے لئے قانونی طور پر نااہل قرار پائے۔ ان پر بینظیر بھٹو کو دانستہ طور پر مناسب سکیورٹی نہ فراہم کرنے کے الزام میں قتل کا مقدمہ درج ہوا۔ باقی مقدمات بھی سال 2007ء کے واقعات کے تحت درج ہوئے جن میں ایمرجنسی کا نفاذ، ججوں کی معطلی اور لال مسجد آپریشن کے دوران مولوی عبدالرشید کی ہلاکت وغیرہ شامل ہیں۔ جنوری میں انہیں اکبر بگٹی کی ہلاکت کے مقدمے میں بری قرار دے دیا گیا، یہ ان کے خلاف قائم مقدمات میں ان کی پہلی بریت تھی۔ 
پرویز مشرف کے معاملے میں جو کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ حقائق بے نقاب ہو رہے ہیں۔ اداروں کے درمیان نازک تعلقات ایک بار پھر عیاں ہو ئے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ہر جمہوری حکومت کی بقا کا انحصار قومی اداروں پر رہا ہے۔ ان کے مفادات اور دبائو سے بچ نکلنا حکومتوں کے لئے کم و بیش ناممکن ہوتا ہے؛ تاہم موجودہ صورتحال میں داخلی کمزوری کے پیش نظر اس کے برعکس صورتحال کی غمازی ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال آخری تجزیے میں بحیثیت مجموعی ریاستی مشینری کی کمزوری، معیشت کے مسلسل زوال، رائج الوقت نظام کے بڑھتے ہوئے بحران اور سماجی خلفشار کا نتیجہ ہے۔ 1979ء میں افغان ڈالر جہاد کے بعد سے کالے دھن کی ریاست اور سماج میں گہری سرایت اس سلسلے میں اہم عنصر رہا ہے۔ معیشت جس حد تک دیوالیہ ہو چکی ہے‘ اس کے پیش نظر فوج فی الوقت براہ راست اقتدار میں آنا نہیں چاہتی۔ ان حالات میں باہمی کمزوری اور انحصار کے تحت دونوں اطراف سے ''سویلین ملٹری تعلقات‘‘ میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
یہاں کی سویلین سیاسی اشرافیہ بھی تاریخی طور پر کرپٹ اور نااہل ہے۔ اس حکمران طبقے کی شرح منافع اور دولت کے اجتماع کا انحصار روز اول سے ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار، ٹیکس چوری، قرضہ خوری اور بدعنوانی پر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران طبقہ مغربی طرز کی کلاسیکی اور صحت مند پارلیمانی جمہوریت استوار ہی نہیں کر پایا اور ریاست کے بعض اداروں کے تسلط میں رہا‘ جو اس کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کو کرپشن اور لوٹ مار کے چارجز پر معزول کرتے رہے ہیں۔ لیکن فوجی آمریتیں بھی جلد بے نقاب ہو کر اپنی محدود عوامی حمایت سے محروم ہوتی رہی ہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں یکسر ناکامی اور ریاستی جبر کے پیش نظر تمام فوجی حکومتوں کے خلاف بغاوت اور تحریکیں اٹھی ہیں۔ 
''جمہوریت‘‘ کی شیدائی سیاسی اشرافیہ، بالخصوص اس کے دائیں بازو اور بنیاد پرستوں نے ہمیشہ فوجی آمریتوں سے تعاون کر کے انہیں سیاسی تحفظ فراہم کیا۔ بدلے میں ان کی لوٹ مار اور کاروباری مفادات کو مکمل تحفظ اور ریاستی مشینری کی حمایت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ حکمرانوں کا مالیاتی اور سیاسی ابھار اس عمل کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اہم کاروباری خاندان مختصر عرصے میں ملک کی امیر ترین مالیاتی اکائیوں میں شامل ہو گیا۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آمریت کا جعلی تضاد عوام کے سامنے یکسر بے نقاب ہو کر ایک مذاق بن گیا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر لوگ جان چکے ہیں جمہوریت اور آمریت درحقیقت ایک ہی معاشی اور ریاستی نظام کو چلانے کے دو طریقے اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان کی زندگیاں ہر دور میں محرومی، غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں عذاب مسلسل بنی رہی ہیں۔ 
سیاسی اشرافیہ، سرمایہ داروں، ملائوں، بیوروکریسی اور کالے دھن کے ان داتائوں کا ایک استحصالی جال ہے‘ جو اس ملک کی حکمران پرت کو تشکیل دیتا ہے۔ ان کی آپسی لڑائیوں کی بنیاد صرف مالی مفادات ہیں۔ سرمایہ داری کی زوال پذیری کے ساتھ ان کے آپسی تضادات شدید تر ہو کر کئی بڑے واقعات کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔ افراد بدل سکتے ہیں، حکمرانی کے طریقہ ہائے کار تبدیل کئے جا سکتے ہیں لیکن رائج الوقت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصالی جال کو محنت کش طبقہ ہی اپنی جدوجہد اور بغاوت سے توڑ سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں