آج سے سینتیس سال قبل 3 اور 4 اپریل 1979ء کی درمیانی شب پاکستان کے منتخب وزیراعظم اور 1968-69ء کی تحریک کے عوامی راہنما ذوالفقار علی بھٹوکو جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں پھانسی چڑھا دیا گیا‘ اور اس طرح بھٹو کو سیاست سے نکالنے کے بجائے ضیاء نے بھٹو کو ظلم اور استحصال کے خلاف جدوجہد کی تاریخی علامت بنا دیا۔ 1971ء سے 1977ء تک کے دورِ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور سے انحراف کے باوجود بھٹو نے حکمرانوں کے ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کی میراث چھوڑی۔ امریکی سامراج کے آشیرباد سے فوجی آمریت کے ہاتھوں اسیری اور پھر موت نے بھٹو کی عوامی مقبولیت میں دوبارہ اضافہ کیا اور یہ اس بدنصیب سرزمین پہ بسنے والے نادار اور محکوم لوگوں کے لئے ایک میراث بن گئی۔ بدقسمتی سے بعد میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی تمام قیادتیں اس میراث سے منحرف ہو گئیں‘ اور آج کی پیپلز پارٹی نے اس کی مکمل طور پر دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت اُس دہانے پر ہے جہاں مظلوم و محکوم طبقے کی سیاسی روایت کے طور پر اس کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ میڈیا میں بھی اس کے وجود کی واحد وجہ محنت کش طبقے میں اس قدر بڑے اور عوامی متبادل کا فقدان ہے۔
1967ء میں لاھور میں ہونے والی تاسیسی کانفرنس میں پارٹی کا سوشلسٹ نظریات پر مبنی پروگرام وضع کیا گیا۔ یہ جنرل ایوب خان کی ایک دہائی کی جابرانہ حکومت کے بعد کی صورتحال تھی‘ جس میں بڑے پیمانے پر صنعت کاری ہوئی، شرح نمو میں تیزی سے اضافہ ہوا، اور سماجی و طبعی انفراسٹرکچر کو خاطر خواہ استحکام ملا۔ اس ترقی اور صنعت کاری کی بنیادی وجہ مغربی و عالمی سرمایہ داری کے عروج کے اثرات تھے‘ مگر اس کنیشین طرز کی معیشت نے بحران کو حل کرنے کی بجائے معاشرے میں موجود تضادات کو مزید بڑھایا‘ جو عوامی لاوے کے پھٹنے کی وجہ بنے۔
بھٹو اور بائیں بازو کے بہت سارے سرگرم کارکنان نے جمہوریت کی بجائے انقلابی سوشلزم کو اپنایا‘ جو بائیں بازو کی مقامی بورژوائی طبقات کے ساتھ مفاہمت کی پالیسیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ یہ بورژوا جمہوریت کے بنیادی مطالبات سے آگے کا وہ پروگرام تھا‘ جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے عروج کو ممکن بنایا اور بھٹو کو ایک زندہ مسیحا کے طور پر ابھارا‘ جس کی میراث عوام کی بائیں بازو کی روایت بنی۔ یہ پاکستان کی ایک منفرد کیفیت نہیں تھی‘ بلکہ 1950ء اور1960 ء کی دہائیوں میں مختلف نوآبادیاتی ممالک میں جہاں کمیونسٹ اور دوسری بائیں بازو کی قیادتیں عوامی تحریکوں کو انقلابی امنگوں سے ہمکنار نہ کر سکیں‘ وہاں قیادتوں کا یہ خلا مختلف افراد اور گروپس نے پُر کیا۔ وہ ایسے سوشلسٹ نعروں اور پروگرام کے ساتھ اُبھرے جن کی بنیاد پر موجودہ معاشی، ریاستی اور معاشرتی نظام میں جست لگ سکے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان عوامی لیڈروں کے پاس نہ تو کیڈروں پر مشتمل پارٹی تھی اور نہ ہی حکمتِ عملی اور نظریاتی پختگی جس کی بنا پر سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جاتا۔ اس قسم کے پاپولسٹ حالات ہمیں ارجینٹینا میں پیرون، کانگو میں پیٹریس لوممبا، انڈونیشیا میں سوئکارنو، چلی میں سلواڈورآلاندے کی شکل میں اور مختلف دوسرے نوآبادیاتی ممالک میں بھی نظر آتے ہیں۔ اگرچہ بڑی عوامی مزاحمتوں کا انحصار ان لیڈروں اور پارٹیوں پر ہی تھا‘ لیکن
اس کے بعد بورژوا ریاست کے ظالمانہ جبر نے محنت کشوں کی ان سیاسی روایتوں کے بننے میں بہت اہم کردار ادا کیا جو نسل در نسل منتقل ہوئیں‘ لیکن ان قیادتوں کے بعد‘ اگلی نسلوں کی موروثی قیادتوں نے ان پاپولسٹ تحریکوں کو فاش کر دیا ہے۔
اگرچہ یہ تحریکیں اب بھی ان ممالک کے سیاسی افق پر موجود ہیں‘ لیکن ان کا اثر و رسوخ ختم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ کچھ حوالوں سے ان معاشروں کی ثقافتی پسماندگی اور مشترکہ مگر ناہموار طرز کی ترقی نے ان تحریکوں کو بڑی حد تک افراد کے تشخص کا مطیع کر دیا ہے۔ اسی لیے ان پارٹیوں کا موروثیت میں بدل جانا ناگزیر عمل ہے۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی بھی انہی مسئلوں سے دوچار ہے‘ جس میں اس کے جانشینوں کا بڑا کردار ہے‘ جنہوں نے اس سیاست، نظام اور ریاست کو پاکستان پیپلز پارٹی کا لازمی جُز بنا دیا ہے‘ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور اس جیسی تمام دوسری پاپولسٹ پارٹیاں، ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی روایتی سوشل ڈیموکریٹک اور کمیونسٹ پارٹیوں کی طرح بالکل نہیں ہیں‘ کیونکہ ان کے نہ تو حقیقی پارٹی ڈھانچے موجود ہیں اور نہ پارٹی کے اندر کوئی جمہوریت ہے۔ مختلف سطحوں پر تقرری شاہانہ انداز میں اوپر سے کی جاتی ہے۔ اسی لیے کلاسیکی اعتبار سے یہ صحیح معنوں میں سیاسی پارٹیاں ہی نہیں ہیں۔ دراصل یہاں دو پیپلز پارٹیاں ہیں۔ ایک کھلی بورژوا پارٹی ہے جس کے نامزد اہلکار اور ڈھانچے ہیں جو کہ ریاست اور حکمران طبقے کی طرف سے حقیقی طبقاتی لڑائی کے موقع پر عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اور دوسری وہ پیپلز پارٹی ہے جو محنت کش طبقے کے ذہنوں میں ہے‘ جو کہ اسی روایت کی پالیسیوں تلے دبے ہوئے ہیں مگر ان کے پاس بڑے پیمانے پر کوئی ایسا متبادل نہیں ہے جو سنجیدہ طور پر طاقت میں آ کر ان کے سلگتے مسئلوں کا حل دے سکے۔ یہی حقیقی پیپلز پارٹی ہے جو قیادتوں کی شکستوں اور نظریاتی غداریوں سے دوچار ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی محنت کشوں کی جڑت کی علامت رہی ہے‘ اور عوام کے کسی تحریک میں متحرک ہونے پر ان کے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم اور راستہ موجود ہے‘ جو ان کو اس جڑت میں یکجا کر سکتا ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ اس کا ماضی کا مقام اور اہمیت کیا اب بھی موجود ہے؟
سمجھوتہ کر لینے والی قیادتوں کے معذرت خواہان اور خاص طور پر وہ جو بائیں بازو کا لبادہ فراہم کرتے ہیں‘ کے دلائل انتہائی افسوسناک ہیں۔ یہ کہنا کہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے سوشلزم کی ضرورت ختم ہو گئی ہے‘ در اصل عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے جو اس سرمایہ داری کی زوال پذیری کی وجہ سے برباد ہو رہے ہیں۔ ہاں! حالات بدلے ہیں مگر کس طرح؟ 1960ء کی دہائی کی نسبت آبادی کی وسیع تر اکثریت کی غربت، مصائب، محرومی اور تکالیف میں شدت آئی ہے۔ معاشرے، ریاست اور معیشت کے گہرے بحران اور عوام کی تباہ حال صورتحال کی وجہ سے آج سوشلزم کی ضرورت چار دہائیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ مختصراً1977ء کا فوجی شب خون پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت اور خود بھٹو کی سرمایہ داری کو اکھاڑنے کی ناکامی کی وجہ سے تھا۔ یہاں تک کہ سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی میں بہت سی ریڈیکل اصلاحات بھی عوام کی غربت اور محرومی کا خاتمہ نہیں کر سکیں اور نہ ہی کر سکتی ہیں۔ بھٹو کے زوال کے اسباق اور بعد میں آنے والے لیڈروں کا قتل یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیم دلانہ اور کثیرالطبقاتی پالیسیوں کا نتیجہ تباہی اور بربادی کی شکل میں نکلتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری یادداشتوں میں لکھا تھا: ''طبقاتی جدوجہد ناقابلِ مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک طبقے کی دوسرے پر فتح ہے‘‘۔ یہی بھٹو کی ساڑھے تین دہائیوں کی میراث کی اصل بنیادیں ہیں۔ بھٹو نے لکھا: ''یہ اس کی زندگی اور موت کا نچوڑ ہے‘‘۔ بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی میں جان ڈالنے کی تمام کوششیں نیم دلانہ ہیں جو اس کے والدین اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ سوشلزم کے پروگرام کے لیے اس کے ریڈیکل جذبات نپے تلے اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ عوام اور نوجوان انقلابی تبدیلی کے پروگرام کے لیے تڑپ رہے ہیں‘ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنی بنیادی دستاویز میں انقلابی سوشلزم کے باوجود شاید صرف لیڈرشپ ہی ہے جو روگردانی کر رہی ہے، یہاں تک کہ ایسے بیانات سے بھی گریز کر رہی ہے۔ اس قسم کی مصنوعیت نہ تو پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی عوامی ساکھ کو روک سکتی ہے‘ اور نہ ہی پارٹی کی قسمت بدل سکتی ہے۔ ان حالات میں جب ایک عوامی تحریک پھٹے گی تو وہ پھر ایک نئی پارٹی اور روایت کو جنم دے گی‘ اور یہی 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کو مکمل کرے گی۔