"DLK" (space) message & send to 7575

افغانستان: انقلاب اور ردِ انقلاب

افغانستان کی حالیہ پُر آشوب تاریخ میں اپریل کا مہینہ انتہائی اہم ہے۔اڑتیس برس قبل انہی دنوں میں افغان تاریخ کا سب سے ترقی پسند واقعہ یعنی 1978ء کا ثور انقلاب رونما ہوا تھا۔اورگزشتہ ہفتے طالبان نے2016ء کے موسم گرما کی جنگی مہم کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ منگل کو طالبان نے کابل شہر کے مرکز میں ایک اعلیٰ فوجی تربیتی ادارے کو بارود سے بھر ٹرک کے دھماکے سے نشانہ بنایا۔مسلح دہشت گرد عمارت میں گھس گئے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک طویل مقابلہ ہوا۔ کم از کم64افراد ہلاک اور350کے قریب زخمی ہوئے۔ 2001ء کے بعد یہ کابل میں سب سے تباہ کن حملہ ہے۔
اگر چہ کابل میں ایسے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس دھماکے نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ۔ دھماکے کی شدت کئی کلو میٹر دور کی عمارتوں میں بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔موسم بہار اور گرما میں طالبان کے حملے ایک سالانہ معمول بن چکے ہیں لیکن اس مرتبہ تو سردیوں میں بھی لڑائی نہیں تھمی۔ سامراجی قوتوںکے انخلاء سے جنم لینے والے طاقت کے خلا کا فائدے اٹھاتے ہوئے طالبان نے نہ صرف جنوب اور مشرق میں اپنے روائتی مضبوط خطوں بلکہ شمال میں بھی پیش رفت کی ہے۔ملا عمر کی تین سال قبل موت کی خبر کے بعد طالبان کے نئے لیڈروں کو اپنا لوہا منوانے کے لیے عسکری کامیابیوں کی ضرورت تھی۔اس حملے کا مقصد جنگجوئوں کے جذبے کو بلند رکھنا اور ان کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ اس وقت 2001ء کے بعد سب سے زیادہ علاقہ طالبان کنٹرول کر رہے ہیں یا پھر اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔گزشتہ برس سامراج کی حمایت یافتہ ریاستی سکیورٹی فورسز کوبد ترین نقصان اٹھانے پڑے ۔ اوسطاً ہر ماہ ایک ہزار سے زائد فوجی یا پولیس اہلکار ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم طالبان کی مکمل فتح تقریباً نا ممکن ہے۔ یہ محض فوجی طاقت کے توازن کا سوال نہیں ہے بلکہ افغانستان کے عوام بالخصوص بڑے شہروںکے لوگ اس دہشت گردی سے متنفر ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان بنیاد پرست جنونیوں کے خلاف عوامی مزاحمت بھی کریں گے۔لیکن سامراجی افواج، خطے کی سامراجی طاقتوں کی پراکسی جنگوں ، منشیات اور دوسرے جرائم پیشہ گروہوں کی موجودگی اور سرمایہ داری کے رہتے ہوئے یہ خلفشار اور بد امنی جاری رہیں گے۔شکست خوردہ سامراجی اپنی قوتوں کو افغانستان میں نہیں رکھ سکتے لیکن وہ اپنی ہی بنائی ہوئی اس دلدل سے مکمل طور پر نکل بھی نہیں سکتے۔
اس وقت افغانستان میں 9,800امریکی فوجی موجود ہیں اور رواں برس کے آخر تک یہ تعداد5,500تک لانے کا منصوبہ ہے۔لیکن اوباما کوایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ ہلیری کلنٹن کے صدر منتخب ہونے پر اس کا فطری جھکائومزید سامراجی جارحیت کی جانب ہوگا۔وہ بغاوت کو کچلنے کے لیے سامراجی فوجوں میں اضافے اور مشترکہ فضائی حملے بڑھانے کی کوشش کرے گی۔لیکن افغانستان کی موجودہ خونریزی سامراجیوں کی اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔امریکی سامراجیوںنے انہی جنونیوںکو افغانستان کی تاریخ کے سب سے ترقی پسند انقلاب کا تختہ الٹنے کے لیے استعمال کیا تھا۔یہ تباہی اور بربادی سامراج کی پشت پناہی سے ہونے والے رد انقلاب کا نتیجہ ہے۔
27اپریل1978ء کو ہونے واکے ثور انقلاب کے نتیجے میں دور رس اور ریڈیکل اصلاحات کی گئیں۔ لیکن تب سے ہی کارپوریٹ میڈیا اور دانشور تاریخ کے اس درخشاں باب کو کو مسخ اور بدنام کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ثور انقلاب نے ہی افغان عوام کو صدیوں کے جبر اور سامراجیوں کی بربادی سے آزاد کروانے کی جرات کی تھی۔بورژوا تاریخ دان جان بوجھ کر ثور انقلاب کو افغانستان پر سوویت فوج کے قبضے سے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے ہیں اور مجرمانہ طریقے سے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ روسی افواج ثور انقلاب کے اٹھارہ ماہ بعد 29دسمبر1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔انقلاب کے بعد افغانستان کے پہلے دو صدور اور پی ڈی پی اے کے خلق دھڑے کے رہنما نور محمد ترکئی اور حفیظ الامین کو سوویت یونین کی بیوروکریسی پر کوئی اعتماد نہیں تھا اور وہ سوویت یونین سمیت کسی بھی بیرونی مداخلت کے سخت خلاف تھے۔ترکئی پہلے ہی قتل ہو گئے اور قوی امکان ہے کہ روسی مداخلت کی رات حفیظ الامین کے قتل میں سوویت خفیہ ایجنسی کے جی بی ملوث تھی۔
اگرچہ مارکسی نکتہ نظر سے یہ ایک کلاسیکل سوشلسٹ انقلاب نہیں تھالیکن جاگیر دارانہ بیگار، قبائلی پسماندگی، مذہبی جبر ، سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف یہ جنوبی ایشیا میں سب سے بڑا وار تھا۔ لاکھوں مظلوم افغانوں نے فوراً ہی انقلابی فرمانوں کا خیر مقدم کیا جن کی رو سے غریب کسانوںکے سود خوروں اور بڑے زمین داروں کو واجب الادا قرضے ختم کر دئے گئے ( جو اکثر نسل در نسل وراثت میں چلے آ رہے تھے)۔
خواتین کے مساوی حقوق اور میاں بیوی کے درمیان پدری سماج کے غیر منصفانہ تعلق کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے۔پیسوں کے عوض لڑکیوں کی شادی، زبر دستی کی شادیوں اور بیوائوں کو شادی سے روکنے یا ان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا۔بچپن کی شادی پر پابندی لگا دی گئی۔ جاگیر داروں، ملائوں اور شاہی خاندان کی زمینوں کوبلا معاوضہ ضبط کر نے بے زمین ہاریوں میں تقسیم کر دیا گیا۔پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی کو آپریٹوز قائم کی گئیں۔
بڑے پیمانے پر خواندگی کے پروگرام شروع کیے گئے۔ 1984ء تک پندرہ لاکھ افراد یہ کورس مکمل کر چکے تھے اور ملک بھر میں ایسے 20,000 پروگرام جاری تھے جن میں377,000لوگ پڑھ رہے تھے۔شہروں میں1986ء اور 1990ء تک سارے افغانستان سے ناخواندگی کے خاتمے کا ہدف تھا۔ثور انقلاب سے پہلے صرف 5,265افراد نے خواندگی کے کورس مکمل کیے تھے۔اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ پی ڈی پی اے (خلق) کی قیادت نے یہ سب فرمان روسی فوجوں کی مداخلت سے پہلے جاری کیے تھے۔ان اقدامات کے آغاز سے پہلے سرمائے کے تسلط کا خاتمہ ضروری تھا۔ثور انقلاب نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا کہ نو آبادیاتی ممالک میں بورژا جمہوری انقلاب کے بنیادی فریضے بھی بوسیدہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ادا نہیں کیے جا سکتے۔
ایسے ریڈیکل اقدامات سامراجی مفادات کے لیے موت کا پروانہ تھے اور اسلام آباد سے ریاض، لندن اور واشنگٹن تک اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔افغانستان میں اس انقلابی تبدیلی کے خلاف سی آئی اے نے سب سے بڑا خفیہ رد انقلابی آپریشن شروع کیا۔یہی 'کمیونسٹ کافروں‘ کے خلاف سامراج کے جہاد کی اصلیت ہے۔یہ ایک رجعتی بغاوت تھی جس سے پورے خطے میں بربادی پھیلی ہے۔سامراجیوں اور ضیا الحق نے منشیات، اسلحے کی سمگلنگ اور جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے بنیاد پرستی کو پالا پوسا۔اس رد انقلابی سامراجی جنگ سے سارا خطہ ایک خونریز فساد کی لپیٹ میں آ گیا اور عام لوگ نسل در نسل برباد ہو تے رہے۔
ثور انقلاب کے قائد نور محمد ترکئی انقلاب کی بقا کے لیے سوشلزم کے بین الاقوامی کردار پر بالکل واضح تھے۔27اپریل1979ء کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ــ''میں ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ پر اپنے ہم وطنوں، دلیر سپا ہیوں، میرے پشتون اور بلوچ بھائیوں اور ایشیا، افریقہ، یورپ، اور امریکہ کے محنت کشوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ثور انقلاب افغانستان کے محنت کشوں اور فوجیوں تک محدود نہیںہے۔یہ ساری دنیا کے محنت کشوں اور مظلوم عوام کا انقلاب ہے۔خلق پارٹی کی زیر قیادت مسلح فوجیوں کی جانب سے کیا گیا یہ انقلاب ساری دنیا کے محنت کشوں کے لیے ایک عظیم فتح اور کامیابی ہے۔1917ء کے عظیم اکتوبر انقلاب نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہی انقلاب ہمارے انقلاب کے لیے رہنمائی اور شکتی کا سر چشمہ ہے جس سے ایک مرتبہ پھر دنیا ہلنا شروع ہو چکی ہے۔ـ‘‘
ثور انقلاب کا بنیادی سبق یہی ہے کہ افغانستان، پاکستان اور سارے خطے کو جنگوں، بربادی، خونریزی، غربت، ذلت اور محرومی سے نکالنے کے لیے سوشلسٹ انقلاب کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن اس انقلاب کو خطے کے دوسرے ممالک تک پھیلانا ہو گا ورنہ سامراج اور رجعت کی اندھیریطاقتیں اس کا دم گھونٹ کر اسے خون میں نہلا دیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں