"DLK" (space) message & send to 7575

یوم مئی: یونہی الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق!

اس سال یوم مئی ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب سرمایہ دارانہ نظام کے سنگین بحران کے نتیجے میں دنیا بھر میں تمام ملکوں کے محنت کشوں پر شدیر ترین حملے کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ 130 برسوں سے کروڑوں لوگ اس تاریخی دن پر دنیا سے جبر، جنگوں، غربت اور سرمایہ داری کا ننگا استحصال ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے آ رہے ہیں۔
جہاں سرمایہ دارانہ معیشت میں ریاستی مداخلت کا کینیشیئن ماڈل محروم عوام کے لیے بربادی ہے‘ وہاں آزاد منڈی کی معیشت کی مالیاتی (مانیٹراسٹ) پالیسیاں بھی ظلم ہیں۔ ڈی ریگولیشن، پرائیویٹائزیشن، ری سٹرکچرنگ، ڈائون سائزنگ اور لبرلائزیشن کی پالیسیاں دنیا بھر کے محنت کشوں کو غارت کر رہی ہیں۔ انڈونیشیا سے چلی، ارجنٹینا سے یونان اور پاکستان تک محنت کشوں کو اپنے دفاع میں منظم ہونا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا مسلسل زوال اور بحران اشرافیہ کی منافقت اور نااہلی کو عیاں کرتا ہے‘ جو سماج کو آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ حکمران طبقے کے کسی بھی دھڑے، ریاست یا اشرافیہ کے پاس سماج اور ملک کو اس بربادی سے نکالنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ بے حس، سنگ دل ہے اور عوام کے لیے ان کی نفرت و حقارت سب کے سامنے ہے۔
تیل اور دوسری اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باوجود سامراجی اداروں کو قرضوں کی ادائیگی کے نام پر لوٹ مار میں کمی نہیں آ رہی۔ نون لیگ اور دوسری جماعتوں کی منظم کرپشن اس کے علاوہ ہے۔ صحت، تعلیم اور دوسرے ریاستی ادارے نیلامی کے لیے پیش ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت محنت کشوں اور غریبوں کی نمائندہ نہیں ہے۔ اس ماحول میں تمام بڑی پارٹیوں کے معاشی پروگرام میں نجکاری کو معاشی ترقی کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے، جس سے مصنوعات اور خدمات مزید مہنگی ہو جاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر برطرفیوں سے پہلے سے موجود بے روزگاروں کی فوج میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ ''منڈی‘‘ کی قوتیں بڑی بے رحمی کے ساتھ مظلوموں کو کچلتی ڈالتی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کارپوریٹ ٹیکس میں ایک کے بعد دوسری طرح کی چھوٹ دیے جا رہی ہے۔ اس کا مقصد اپنے اور اپنے حامیوں کے منافعوں کی شرح میں اضافہ کرنا ہے‘ لیکن یہ بھی ان کی دولت کی حوس کے لیے ناکافی ہے‘ اور ان کے لیڈر آف شور بینکوں میں اربوں روپے چھپائے بیٹھے ہیں‘ جن کا انکشاف حال ہی میں پاناما پیپرز میں ہوا۔
معاشی استحکام ایک فریب، سماجی ترقی ایک جھوٹ اور غربت میں کمی ایک دھوکہ ہے۔ غربت اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بحران قہر بنتا جا رہا ہے۔ بورژوا جمہوریت ناکام ہے۔ نظام میں اسے برقرار رکھنے کی سکت ہی نہیں ہے۔ پاکستانی بورژوازی کی بوسیدگی اور کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اسے تقریباً آدھا وقت غیر جمہوری حکومت کو استعمال کرنا پڑا۔ فوجی حکومت بار بار ناکام ہو چکی‘ اور اس وقت یہ آپشن نہیں ہے۔ نسبتاً جمود کے حالیہ برسوں میں بھی وقتاً فوقتاً محنت کشوں کی تحریکیں اور ہڑتالیں ابھرتی رہی ہیں۔ جیسے اس سال پی آئی اے کی ہڑتال نے سماج اور ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایسے مزید واقعات رونما ہوں گے۔ سماج گل سڑ رہا ہے اور مظلوم عوام تبدیلی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ جس عنصر کی کمی ہے وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی اپنی تقدیر بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں آمد ہے۔ جب وہ تحریک میں آئیں گے تو پھر سرمایہ دارانہ جبر کے یہ فوجی اور جمہوری ڈھانچے بکھر جائیں گے۔ سیاسی شعبدہ بازی کا ناٹک ختم ہو جائے گا۔ تحریک اپنی انقلابی قیادت اور پارٹی خود تراشے گی۔
سرمایہ داری کا نامیاتی بحران روز بروز شدید ہوتا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کو ایسے پروگرام سے لیس ہونے کی ضرورت ہے جو ان کی ضرورتوں اور اُمنگوں کا جواب سے سکے۔ انہیں یوم مئی کی جدوجہد کی روایت کو پھر سے اپنانا ہو گا۔ یوم مئی جہدوجہد کی علامت ہے۔ یکم مئی1886ء کو شکاگو میں امریکی محنت کشوں پر بے رحمانہ ریاستی جبر اور مزدوروں کے قتل نے اس دن کو دنیائے پرولتاریہ کے عالمی کیلنڈر کا اہم ترین دن بنا دیا۔ وہ آٹھ گھنٹے یومیہ اوقات کار کے مطالبے کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے‘ جب انہیں امریکی مالکان اور ان کے ریاستی کرائے کے قاتلوں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ جولائی 1889ء میں پیرس میں عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز کی زیر قیادت منعقدہ دوسری انٹرنیشنل تاسیسی کانگریس نے اس دن کو پرولتاری بین الاقوامیت کی علامت کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ یوم مئی واحد موقع 
ہے جو مذہب، رنگ، نسل، قومیت یا انسانوں کو تقسیم کرنے والے ماضی کے کسی بھی تعصب سے بالاتر ہو کر منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کش ہر ملک اور ہر کونے میں اسے مناتے ہیں۔ اس جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل ''یوم مئی‘‘ کی تاریخی جدوجہد ہے۔ مئی کی بے نظیر جدوجہد نے مزدوری کے دن کو بیس گھنٹے سے نکال کر آٹھ گھنٹے کے اوقات کار میں تبدیل کرا کے گویا 'مزدور تحریک‘ کی نئی سمتوں کا تعین کرا دیا۔ پہلی دفعہ مزدورکی اجرت کو کام کے دورانئے سے منسلک کرنے سے 'انسانی محنت‘ کی قدر اور منڈی میں اس کے 'بدل‘ کے رشتوں کی کھلے عام وضاحت کی گئی۔ یہ ایک نظریاتی اور طبقاتی لڑائی ہے‘ جو حتمی فتح یابی تک جاری رہے گی۔ ''یوم مئی‘‘ مزدوروں کے حوصلے، جرات، جدوجہد، قربانیوں اور فتح یابی کی علامت ہے۔
دوسری انٹرنیشنل تاسیسی کانگریس کی نظریاتی اور سیاسی زوال پذیری کے ساتھ یوم مئی کی پرولتاری بین الاقوامیت کی روح مائوف پڑنا شروع ہو گئی۔ محنت کشوں کی تنظیموں میں سوشل حب الوطنی غالب آنا شروع ہو گئی‘ اور سوشل ڈیموکریسی کے اصلاح پسند اور موقع پرست لیڈروں نے یوم مئی کو ایک قومی تہوار بنانا شروع کر دیا۔ پیرس کی انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس کا یوم مئی کو منانے کے فیصلے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ تمام ممالک میں ایک ہی دن محنت کشوں کے مظاہروں سے انہیں انقلابی سوشلزم کے لیے ایک عالمی پرولتاری تنظیم میں یکجا کیا جا سکے۔ اسے 1864ء میں کارل مارکس اور فریڈ رک اینگلز کی قیادت میں کمیونسٹ لیگ کی جانب سے قائم کردہ پہلی مزدور انٹرنیشنل کی طرز پر تعمیر ہونا تھا۔ مارکسی انٹرنیشنل پرولتاریہ کی ایک عالمی پارٹی ہوتی ہے‘ جو محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتی ہے، اور پرولتاریہ کو توڑنے کے لیے حکمران طبقے کی جانب سے قومی، مذہبی یا دوسری تقسیموں سے بالاتر ہو رہی ہے۔ یہ تنظیم جمہوری مرکزیت کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ یعنی تنظیم کے اندر مکمل جمہوریت اور بحث کی آزادی کے ساتھ عمل میں مکمل یکجہتی۔ عالمی سیاست، سفارت اور جنگوں کے دور میں ایک عالمی انقلاب ہی نسل انسانی اس کو ذلت، غربت، قلت اور محرومی سے نجات دلا سکتا ہے جو ایک متروک اور بے رحم نظام کی دین ہے۔
اس سال یوم مئی کہیں زیادہ ولولے اور جوش سے منایا جائے گا۔ محنت کشوں کی زندگیاں روز بروز تلخ اور صورتحال ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ''سیاست معیشت کا نچوڑ ہوتی ہے‘‘۔ بربادی اور بحران کے دور میں اجتماعی شعور تیزی سے معاشی حقیقت کے نزدیک آ رہا ہے۔ اس کا اظہار سیاسی میدان میں طبقاتی جہدوجہد کے نئے دھماکوں کی شکل میں گا۔ یوم مئی کا چیلنج یہ ہے کہ اس کے آغاز کی روح کو سمجھا جائے، یعنی 'دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جائو!‘۔ جب کروڑوں محنت کش اور نوجوان ایک ہی ایشو پر، ایک ہی نعروں کے ساتھ، ایک ہی دن مظاہرہ کریں گے تو یہ محنت کشوں کی عوامی انٹرنیشنل کے قیام کا اعلان ہو گا۔ آج کی جدوجہد کا مقصد دنیا بھر کے خطوں اور براعظموں کے محنت کشوں کی جدوجہد کو متحد کرتے ہوئے سماج کی دوسری مظلوم پرتوں کی مدد سے اس بیمار نظام کا خاتمہ کرنا ہے۔ آج دنیا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ کسی ایک اہم ملک میں سوشلسٹ فتح سے ساری دنیا میں یہ انقلابی تبدیلی پھیلتی چلی جائے گی۔
یونہی الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق 
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں