بجٹ ہر سال جون کے مہینے میں ہر حکمران پیش کرتا ہے۔ اس سال بھی آیا ہے اور ہفتہ بھر ٹیلی ویژن چینلوں اور دانشوری کی بحثوں میں ایک نان ایشو کے طور پر بجٹ سے متاثرہ محنت کشوں اور غریبوں کے اصل مسائل پر اور مٹی ڈال کر چلا جائے گا۔ لیکن اگر ہم حکمرانوں کی اس کارروائی کا بھی جائزہ لیں تو اب سالانہ کیا بلکہ ششماہی بجٹ بھی اپنی مدت اہداف اور مختص کردہ رقوم کے استعمال کو پورا نہیں کرتے۔ 1960-70ء کی دہائیوں میں جب معیشت کی طرز زیادہ تر ریاستی سرمایہ داری پر مبنی تھی تو کسی حد تک حکمرانوں کو نیم منصوبہ بندی کرنے کی گنجائش ملا کرتی تھی ۔ ان ادوار میںپانچ سالہ اور دس سالہ منصوبے بھی بنائے جاتے تھے۔ اس نظام میں اتنی گنجائش تھی کہ کم ازکم حکمرانوں کو ‘چاہے کاغذی طور پر ہی منصوبے بنانے کی کاوش کرنے کو ملتی تھی۔ اس' کینشین‘ ماڈل کی سرمایہ داری میں تعلیم ،علاج، پانی،بجلی اور دوسری سماجی اور صنعتی انفراسٹرکچر کے شعبوں پر ریاست کی اجارہ داری نہ سہی کم از کم وسیع حصہ ریاستی تحویل میں تھا۔ ریاست کسی حد تک اس ملک کے سرمایہ داروں کو تھوڑی بہت ہنر مندی والی مزدوری اور بنیادی انفراسٹرکچر کی نیم خستہ ہی سہی سہولیات فراہم کرکے ان کے منافعوں کے لیے آسانیاں پید ا کردیتے تھے۔ لیکن 1974-75ء کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران میں اس کو چلانے کا یہ طریقہ کار مفلوج اور ناکارہ ہونا شروع ہوگیا۔ 1980ء میں ضیاء الحق کی آمریت نے عالمی سامراجیوں کی نیولبرل پالیسیوں کے تحت ہر شعبے کو نجی ملکیت میں دینے کا آغاز کیا تاکہ منافعوں کی سکڑتی شرح کو بڑھانے کے لیے علاج سے لے کر بندرگاہوں تک معیشت کے ہر شعبے کو ان سیٹھوںکی تجوریاں بھرنے کے لیے وقف کردیا جائے۔ اب تمام حکومتیں اسی '' فری مارکیٹ‘‘( آزاد منڈی) کی پالیسی کے تحت ہی
معیشتیں ''چلاتی‘‘ اور بجٹ بناتی چلی آئی ہیں ۔ منڈی اور منصوبہ بندی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس لیے حکمرانوں کی دسترس اور ریاست کی معیشت پر رٹ بہت ہی کمزور اور لاغر ہوگئی ہے۔ ریاست اور اس پر براجمان طبقہ ''سرمایہ کاری‘‘ کے نام پر مراعات اور رعایت دینے کے لئے سرمایہ کاروں کے آگے بِچھے چلے جاتے ہیں۔ دوسری جانب معیشت کی مسلسل تنزلی سے ریاستی قرضوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے ۔ سامراجی ادارے نہ صرف ان قرضوں سے‘ اس ملک کے محنت کشوں کی خون پسینے سے پیدا کردہ دولت کو' سود اور وصولی‘ کی مد میں لوٹ رہے ہیں۔ لیکن انہی قرضوں کے جبر کے ذریعے وہ معاشی پالیسیوں اور بجٹ کی تیاری میں آخری احکامات بھی صادر کرتے ہیں۔جس کی تعمیل کی جاتی ہے۔ سارا بوجھ غریبوں پر ہی لاددیا جاتا ہے۔ اگر ہم اس سال کے بجٹ کی دستاویزات کا جائزہ لیں تو ترجیحات واضح طور پر بالادست طبقات اور ریاستی اداروں کی اشرافیہ کے لیے ہی ہیں ۔سرکاری ذرائع کی اطلاعات کے مطابق کل وفاقی بجٹ کا تخمینہ 4.5 کھرب روپے ہے۔ ان میں سے1.45 کھرب براہِ راست سامراجی مالیاتی اداروں اور بینکاروں کی سود اور ادائیگیوں کی مد میںچلے جائیں گے۔ 860 ارب سے ایک کھرب روپے ''دفاع‘‘ کے لیے مختص ہیں۔ لیکن فوجی اخراجات میں پنشنوں ایٹمی پروگرام‘ خفیہ اداروں کی سرگرمیوں اور آپریشنوں کے وسیع تر اخراجات شامل نہیں ہیں ۔ ویسے پاکستان میں1964ء کے بعد 2009ء وہ پہلا سال تھا جب پارلیمنٹ میں کھل کر فوجی بجٹ پیش کیا گیا تھا۔لیکن اس دفاعی بجٹ میں 2009ء سے اب تک
50فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جبکہ شاید اس سے بھی زیادہ اس شعبے کے اخراجات اور ان کی آمدن کے ذرائع اب تک خفیہ رکھے جارہے ہیں ۔ جہاں تک ''ترقیاتی‘‘بجٹ کا تعلق ان میں پھر کٹوتی کردی گئی ہے۔اس سال پہلے اس شعبے کے لیے مختص کی جانے والی رقم 1.514 کھرب میں113 ارب روپے کی کمی کرکے اس کو 1.41 کھرب کردیا گیا ۔ باقی اخراجات داخلی ریاستی اخراجات حکومتوں کے خرچوں اور دوسرے ایسے شعبوں میں صرف ہوتے ہیں جن کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ براہِ راست استحصالی طبقات کے مفادات اور حکمرانو ں کے نمائشی اور 'پیدا گیری‘ کے منصوبوں پر صرف کیے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سامراجی اداروں کی لوٹ مار، فوجی اخراجات اور حکمران کی شاہ خرچیوں کے بعد عوام کے لیے بجٹ صرف پیچیدہ اصطلاحات،لفظوں اوراعدادوشمار کا گورکھ دہندہ ہی رہ جاتا ہے۔ سوائے 1972-73ء کے بجٹ کے‘کسی بھی حکومت نے سماجی ضروریات (انفراسٹراکچر) کے د واہم ترین شعبوں تعلیم اور علاج پر‘کبھی 4فیصد سے زائد مختص نہیں کیا گیا۔ پہلے کہیں نہ کہیں سے ان شعبوں میں مزید رقوم مختص کرنے کا دبائو ہوتا تھا۔مگر اب چونکہ سیاست اور ریاست کی اشرافیہ کا کوئی دھڑا بھی ان شعبوں کو ریاستی تحویل اور چلانے پر یقین نہیں رکھتا، اس لیے مروجہ سیاست میں ان شعبوں پر مزید رقوم کے اضافے کا سوال ہی غائب سا ہو کر رہ گیا ہے ۔ لیکن اب حکمران ان شعبوں میں یا اس سے ملتے جلتے دوسرے سماجی بہبود کے شعبوں کے اخراجات میں اضافہ کریں بھی توکیوں؟ اب چونکہ خصوصاً علاج اور کسی حد تک تعلیم کے دوہی فیشن اور رجحان غالب آچکے ہیں۔ ایک طرف خیراتی ہسپتالوں وغیرہ کا بہت واویلا ہے جبکہ خیراتی ہسپتالوں میں علاج کروانے والوں کو تجربہ ہوتا ہے کہ یہاں علاج کی فراہمی کتنی ''خیراتی‘‘ ہے۔ دوسری جانب ان شعبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نجی شعبہ سرکاری علاج وتعلیم کو ختم کرتا جارہا ہے ۔جب زیادہ ترسیاسی پارٹیوں اور ریاستی اشرافیہ کے بڑے حصہ خود ان شعبوں میں سرمایہ کاری اور منافع خوری میں ملوث ہوں تو پھر سرکاری شعبے میں ان سہولیات کی فراہمی ان کے لیے تو نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔ لیکن سرکاری شعبے میں اس لالچ اور مالیاتی ہوس کے رحجانات کے غلبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور دوسرے اہل کار (متوازی نجی علاج معالجے کا کاروبار چلانے کی وجہ سے ) نجی شعبے کو ترجیح دیتے بھی ہیں اور دلواتے بھی ہیں۔ ایسے میں مفت علاج وتعلیم کی فراہمی کی آئین میں لکھی ہوئی ضمانت سے ‘سیاست، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی واقفیت معدوم ہوتی چلی جارہی ہے۔ سرکاری شعبے کی تنزلی اس نظام زر کی موجودہ کیفیت میں ناگزیر ہے ۔ حکمران ایک بتدریج طریقہ کار سے اس کو' علامتی‘ درجے تک محدود کئے جارہے ہیں۔ ایک آدھ سرکاری ہسپتال بنواکر اس کے نمائش کروا دیتے ہیں ،جبکہ سارا کاروبار نجی شعبے کے حوالے کرتے ہی چلے جارہے ہیں۔دوسری جانب گوادر سے لے کر سیالکوٹ تک ہر طرف خصوصی سرمایہ کاری کے ٹیکس فری زون بنتے ہی چلے جارہے ہیں۔ سامراجی اجارہ داریوں کو بجلی سے لیکر پانی تک کے شعبوں میں بے پناہ مراعات دی جارہی ہیں، جن میں ان کی چاندی لگی ہوئی ہے۔موجودہ دور میں‘ بیروزگاری الائونس سے لے کر مفت علاج وتعلیم کی سہولیات‘اس ''فلاحی ریاست ‘‘کے ایجنڈے میں آخری نقطے میں بھی نہیں ہیں۔ ماضی میں موجوداسکی چند علامات بھی ہٹا دی گئی ہیں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ طبقے کی روایتی اور کلاسیکی پارٹی 'مسلم لیگ نواز‘ حکومت نے‘ اپنے طبقے کی مراعات اور منافع خوری کے لیے ہر پالیسی جاری کر رکھی ہے ۔ ان کی ترجیحات واضح ہیں ۔ حال ہی میں انگریزی جریدے نیوز ویک نے 7مئی کے شمارے میں اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی کے حوالے سے یہ تبصرہ چھاپہ ہے۔
اس بجٹ میں بھی کتابوںاور فرنیچر جیسے ''لگژری آئٹمز‘‘ پر ٹیکس لگ جائیں گے۔ ''نجی طیارے‘ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے‘‘۔ طبقات کی ترجیحات بہت واضح ہیں۔ ایک طبقے کی کامیابی دوسرے کی شکست ہے۔سرمایہ دار طبقہ کی حکمرانی،محنت کش طبقے کے خلاف جارحانہ عزائم پر مبنی ہے۔ محنت کش طبقہ‘ ایک طبقاتی جنگ میں ان کو شکست دے کر ہی آزاد اور سہل ہوسکتا ہے۔ آج حکمران'وقت ‘کی ستم ظریفی اوراس عہد کے سکوت سے کمک پاکر رعونت زدہ ہیں ۔وہ مسلسل معاشی جارحیت سے معاشرے کو تاراج کررہے ہیں۔ لیکن یہ رُت ضرور بدلے گی۔ کشمکش جو آج ماند ہے، کل ابھر کررہے گی۔ استحصال اور معاشی کھلواڑ کا جبر ٹوٹ کے رہے گا۔