"DLK" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم: دوست ہوئے دشمن!

ایم کیو ایم کے حالیہ بحران سے نہ صرف کراچی اور شہری سندھ کی سیاست کا انتشار بڑھ گیا ہے بلکہ شخصیات، پارٹیوں اور اداروں کے کردار بھی بے نقاب ہوئے ہیں۔ جب سے طبقاتی معاشرے نے جنم لیا ہے تب ہی سے ایک اقلیتی حکمران طبقہ اپنے اقتدار کے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے طرح طرح کے اوزار، ہتھکنڈے اور طریقہ ہائے واردات ایجاد اور استعمال کرتا آیا ہے۔ اقتصادی ترقی میں معاشرتی ارتقا نسبتاً مستحکم ہوتا ہے لیکن جونہی معیشت کا بحران بڑھتا ہے تو پورا سماج عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے اور حکمرانوں کو ریاستی جبر‘ تعصبات‘ عوام میں پھوٹ ڈالنے جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے محنت کش طبقے کی بغاوتوں کو کچلنا پڑتا ہے۔ ایم کیو ایم بھی بنیادی طور پر اس ملک کے حکمران طبقے اور اس کی ریاست کی ایسی ہی ایک ایجاد تھی۔
'نان سٹیٹ ایکٹرز‘ بھی آخرکار 'سٹیٹ ایکٹرز‘ کے آلہ کار کے طور پر ہی تخلیق کئے جاتے ہیں لیکن ایک مرحلے پر آ کر یہ نان سٹیٹ ایکٹرز ذہنی طور پر طاقت کے خبط اور گھمنڈ اور احساس برتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے آقائوں کو ہی کاٹنے لگتے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی ضیا آمریت میں تخلیق کیا گیا ایسا ہی ایک 'نان سٹیٹ ایکٹر‘ تھا۔ بائیں بازو کے معروف رہنما معراج محمد خان (مرحوم) نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ 1977ء میں رہائی کے بعد ان کو ایوان صدر بلایا گیا اور طبقاتی سیاست سے غداری کرکے ''مہاجروں‘‘ کے نام پر کراچی میں نسل پرستی اور لسانی فرقہ واریت کی سیاست کرنے کی ترغیب خود ضیاالحق نے دی تھی۔ بدلے میں ریاستی پشت پناہی اور دولت سے مالامال کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا‘ لیکن معراج مارکسزم کا مطالعہ رکھتے تھے اور ان حکمرانوں اور ان کے اداروں کے اصل کردار سے بخوبی واقف تھے‘ اس لئے انہوں نے اس پیشکش کر ٹھکرا دیا۔ لیکن یہ پالیسی تو اس حاکمیت نے لاگو کرنا ہی تھی۔ بھٹو کی پھانسی سے اس حکمران طبقے اور ریاست کی قطعاً کوئی تشفی نہیں ہوئی تھی‘ کیونکہ ان کا اصل 'مجرم‘ محنت کش طبقہ تھا جس نے 1968-69ء میں ایک انقلابی بغاوت کرکے اس استحصالی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ کراچی کے محنت کشوں نے اس تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا‘ اور پرولتاریہ کے وسیع حجم اور جڑت کے لحاظ سے کراچی پاکستان کے پیٹروگراڈ کا درجہ رکھتا تھا جو دوبارہ ایک بغاوت میں بھڑک سکتا تھا۔ ایسے میں جہاں مذہبی فرقوں کو ہوا دینا اور بنیاد پرستی کو سماج پر مسلط کرنا ضیاالحق کی پالیسی تھی وہاں نسل، برادری اور قومیتی تعصبات کو پروان چڑھا کر محنت کش عوام کو منقسم کرنا اور ان کی جڑت میں دراڑ ڈالنا بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ لیکن صرف ریاستی پشت پناہی سے لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں کبھی خاطر خواہ سماجی بنیادیں حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔ اس لئے یہ مفروضہ کہ اس ملک میں ساری تحریکیں سی آئی اے یا مقامی ایجنسیاں پیسے اور ریاستی طاقت کے ذریعے بنوا اور چلا سکتی ہیں، محض خام خیالی ہے۔ حقائق پر مبنی تجزیہ سماجی سائنس کی بنیاد پر معاشرے میں ایک مخصوص وقت میں حاوی رجحانات، شعوری معیار اور تحریک کے عروج و زوال کی کیفیت کو پرکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر رہتے ہوئے 'جمہوری‘ ہتھکنڈوں میں 1968-69ء کے انقلاب کے زائل ہو جانے کے بعد 1970ء کی دہائی میں کی گئی بھٹو حکومت کی اصلاحات کی ناکامی ناگزیر تھی۔ ایسی پسپائی میں جہاں شعور پست ہونے لگتے ہیں وہاں معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھ جاتا ہے۔ معاشی بدحالی اس کو شدید تر کر دیتی ہے۔ ایسے میں جب آگے بڑھنے کا کوئی اجتماعی راستہ نہ ہو تو محنت کش کبھی قومی اور لسانی پہچان اور کبھی فرقہ واریت، ذات پات اور برادری کے پرانے تعصبات میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔
ہجرت مختلف لسانی اور ثقافتی پس منظر بھی اپنے ساتھ لائی۔ پاکستان بناتے وقت مسلمان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو زعم تھا کہ وہ ایک جدید ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاست اور ملک تعمیر کریں گے لیکن وہ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے تھے کہ تاریخ میں سامراج اور عالمی منڈی کے تسلط کے جس عہد میں وہ یہ کرنے جا رہے ہیں اور جس مالیاتی اور تکنیکی پسماندگی سے وہ دوچار ہیں اس کے پیش نظر سرمایہ داری کے تحت جدید معاشرے کی تخلیق ناممکن ہے۔ جب کوئی نظام معاشرے کو ترقی دے کر آگے بڑھاتا ہے تو اس مثبت حرکت اور ارتقا کے عمل میں لسانی، قومیتی اور مذہبی تعصبات زائل ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہاں تو مسلسل زوال اور بدحالی کا سفر تھا اور سماجی ارتقا انتہائی بے ہنگم اور ناہموار انداز میں ہوا۔ حتیٰ کہ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں عالمی سطح پر سرمایہ داری کے عروج میں بھی یہاں جو ترقی ہوئی اس نے سماجی تضادات کو تیز تر ہی کیا اور آبادی کی اکثریت کے حالات زندگی میں بہتری نہیں آئی۔ انہی تضادات نے 1968-69ء کی بغاوت کو جنم دیا لیکن قیادت اور انقلابی پارٹی کے فقدان کی وجہ سے اس انقلاب کی ناکامی نے معاشرے میں بحران کو مزید گہرا کر دیا۔ پرانے تعصبات منافرت کے زخم بن کر اُبل پڑے۔ فرقہ واریت اور نسل پرستی ابھرنے لگے۔ ضیا الحق اور حکمران طبقات کے تابع اداروں نے اس رجعت کو اپنے مفادات کے تحت مزید بھڑکایا اور یہاں کی بوسیدہ سرمایہ داری کے جبر و استحصال کو مزید شدت سے مسلط کیا جانے لگا۔ 
جہاں ضیا آمریت کی پیدا کردہ بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کئی دہائیوں سے اس سماج کو تاراج کر رہی ہے وہاں ایم کیو ایم نے بھی اپنی لوٹ مار اور بربادی کا بازار گرم کئے رکھا۔ حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ ان کی کارروائیاں اور من مانیاں انہی کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی ہیں جنہوں نے ایک وقت میں انہیں تخلیق کیا تھا۔ اس لئے دوست دشمن ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم نے جب اداروں کے تابع رہنے کی بجائے اپنی طاقت کو ابدی سمجھا اور رعونت حد سے باہر ہونے لگی تو اس کی سرگرمیاں کراچی اور دوسرے شہروں کے نظم و نسق کے لئے حد سے زیادہ تباہ کن ہونے لگیں۔ لیکن موجودہ ریاستی کارروائی اس کے وجود کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس کو تبدیل اور پھر سے تابع کرنے کی کاوش ہے۔ اصل مسئلہ ان غریب مہاجر عوام کا ہے جو کہیں بے بسی اور کہیں سماجی و ثقافتی بیگانگی سے خوفزدہ ہو کر ایم کیو ایم کے پیچھے چلتے رہے۔ ووٹ دھونس اور دھاندلی سے بھی حاصل کئے گئے اور کہیں کسی متبادل کے فقدان کی مجبوری میں بھی مہاجر عوام نے ایم کیو ایم کو انتخابات میں حمایت دی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلسل اقتدار کی کئی دہائیوں میں ایم کیو ایم کراچی کے عوام کا کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کر پائی اور حالات بدتر ہی ہوئے ہیں۔ 
لیکن بالفرض ایم کیو ایم ختم ہو بھی جائے تو اس نظام میں تعصبات، خونریزی، جرائم اور انتشار ختم نہیں ہو گا۔ اس نظام میں استحکام اور امن کی گنجائش ہی تاریخی طور پر ختم ہو گئی ہے۔ یہ تعصبات اسی صورت میں ختم ہوں گے جب کراچی پھر سے اس محنت کش طبقے کا شہر بنے گا جس نے اسے تعمیر کیا ہے اور روشنی بخشی ہے۔ یہ محنت کش عوام ایک نئی انقلابی تحریک میں اتر کر ہی کراچی کو سرمائے کے خونیں پنجوں سے آزاد کرائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں