قیام پاکستان سے اب تک اس ملک میں سیاسی انتشار بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یہاں کے محنت کشوں کی شعوری اور رجائیت پر مبنی میدان عمل میں متحرک سیاست ہمیں مکمل صورت میں صرف 1960ء کی دہائی کے آخری سالوں اور 1970ء کے چند ماہ میں نظر آئی۔ باقی ساری سیاست بالادست طبقات کے باہمی تنازعات اور مفادات کے ٹکرائو کا اکھاڑہ ہی بنی رہی۔ دولت کی سیاست کے آقائوں کو جب اس ذلت‘ غربت اور محرومی کا جمہوریت میں شدت اختیار کرنا اور اس ''نظام‘‘ کے تحت معاشرے کی بربادی کے حقائق پیش کیے جائیں تو ان سب کی جانب سے ایک ہی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ مارشل لائوں کا لگایا جانا تھا‘ جبکہ اس وقت شاید ہی کوئی ایسی پارٹی ہو جس کی قیادت خود کسی فوجی آمریت کی دم چھلا اور پیداوار نہ ہو! لیکن ہندوستان میں تو کبھی کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ پھر وہاں پاکستان سے بھی زیادہ غربت ذلت اور محرومی کیوں ہے؟ یہاں پھر ثقافتی‘ مذہبی اور دوسرے مفروضے‘ بہانے سائنسی دلائل کی جگہ لے لیتے ہیں۔ درحقیقت ہندوستان جیسے ممالک میں‘ جہاں جغرافیائی وسعت‘ صنعت اور اقتصادیات کا بڑا حجم ہو‘ ریاست کا وسیع پھیلائو ہو اور جس میں مختلف قوموں‘ نسلوں‘ ثقافتوں اور زمانوں کی بھرمار ہو‘ وہاں نظام ایک سطحی منافقانہ اور پُرفریب جمہوری ناٹک کے تحت ہی چل سکتا تھا‘ جو نیچے کی انارکی اور افراتفری میں چلایا جاتا رہا ہے۔ فوجی مرکزیت اور جبر کا اقتدار ہندوستان کی ٹوٹ پھوٹ کو تیز کر دیتا۔ اسی وجہ سے حکمران طبقات اور سامراجی آقائوں نے آمریت کو یہاں اجازت اور تقویت کبھی نہیں دی۔
پاکستان میں آمریتوں کے آنے کی وجہ نسبتاً چھوٹی معیشت اور بالادست طبقات کے مختلف دھڑوں کی تکرار سے جنم لینے والے تصادموں پر قابو پانے کی ضرورت اور عوامی بغاوتوں کا خوف تھا۔ بالادست طبقات کے سنجیدہ ماہرین اور سامراجی آقائوں نے یہاں فوجی آمریتوں کو مسلط کیا‘ لیکن اقتدار جمہوری ہو یا فوجی آمریت پر مبنی‘ نچلے معاشرے کا نظام ایک ہی رہا ہے۔ موجودہ نظام میں سیاست‘ عزت‘ مرتبہ‘ حیثیت‘ رسائی اور طاقت کا تعین صرف اور صرف دولت کرتی ہے۔ حکمران اشرافیہ ثقافت سے لے کر کھیل اور مذہب تک سب کا استعمال دولت‘ اپنے مفاد اور زر کے ارتکاز کے لیے کرتی ہے۔ ریاستی اور حکومتی اقتدار میں فرق صرف طرز حاکمیت کا ہوتا ہے۔ لیکن جس جمہوریت کے لیے اتنا تقدس معاشرے میں ٹھونسا جاتا ہے اور قربانیوں کی تلقین کی جاتی ہے‘ جن اداروں کو مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جس آئین اور قانون کو ایک مذہبی عقیدے کا درجہ دے دیا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر مغربی سرمایہ دارانہ انقلابات سے پھوٹنے والی طرز حاکمیت ہے‘ جس کی ایک فرسودہ نقل ہمارے پیروکار حکمران کرتے ہیں۔ اس کا زیادہ پرچار لبرل سیکولر بورژوازی کے نمائندہ سیاستدان اور اہل دانش کیا کرتے تھے‘ لیکن کچھ عرصے سے امریکی سامراج نے فوجی آمریتوں کے ذریعے اپنے تسلط کو لاگو کرنے طریقہ کار ترک کر دیا ہے۔ مذہبی اور دائیں بازو کی پارٹیاں بھی اس جمہوریت کے ریلے میں داخل ہو کر عوام میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مغرب میں جمہوریت کا جو سیاسی طرز حاکمیت ہے وہ اٹھارہویں اور انیسیویں صدی میں سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب کی دوسری معاشی‘ اقتصادی‘ ریاستی اور سماجی ترقی کی حاصلات سے منسلک تھا۔ اسی لیے وہاں استحصال ہماری طرح کا ننگا اور سفاک نہیں ہے بلکہ منافقانہ اور میٹھے زہر کی طرز کا رہا ہے۔ گو اب ان ترقی یافتہ ممالک میں معاشی زوال کی وجہ سے اس استحصال میں کھلے جبر کے اجزا نمایاں ہو رہے ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس اقتصادی اور معاشی نظام میں جو جمہوریت پائی جاتی ہے‘ اس کے نظام میں رہتے ہوئے نجی ملکیت کے تقدس اور مالیاتی سرمائے کی اطاعت کو تسلیم کیے بغیر کوئی پارٹی یا لیڈر اقتدار کو چلا نہیں سکتا۔ یونان میں انتہائی بائیں بازو کی سائریزا حکومت کے سرمایہ داری کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ اصلاح پسندی‘ چاہے وہ جتنی ریڈیکل اور انتہائی بائیں بازو کے نظریات پر مبنی ہی کیوں نہ ہو‘ آج کے بحران میں ناکام اور نامراد ہوتی ہے۔ پاکستان کی ابتدائی سرمایہ دارانہ اشرافیہ چونکہ معاشی اور تیکنیکی طور پر مغربی سامراجیوں کی اطاعت پر مجبور تھی‘ اس لیے اس نے جہاں ان کی صنعتی اور اقتصادی پالیسیوں کی پیروی کی‘ وہاں ان کے سیاسی سطحی ڈھانچوں کو بھی مصنوعی طور پر پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔ ہم آج کے ادب‘ ثقافت‘ فلم‘ تہذیب‘ رویوں‘ اقدار اور اخلاقیات کی خستہ حالی سے اس سماج کی معاشی بنیاد اور اس کے مالک طبقات کے رجعتی کردار کو پرکھ سکتے ہیں‘ لیکن ہمارے لبرل مفکرین کی اشرافیہ ہمیں ارتقا کے جن مراحل سے یورپ گزرا ہے اس کو زبردستی اپنانے اور ہمارے اوپر مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے؛ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کے لیے معاشرے کا ان مراحل سے گزرنا ضروری ہے جن سے یورپ گزرا تھا؟
لیون ٹراٹسکی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''انقلابِ روس کی تاریخ‘‘ میں لکھا تھا کہ‘ ''ایک پسماندہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی مادی تیکنیکی اور فکری فتوحات کو ذخیرہ کر لیتا ہے‘ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اس معاشرے کو ایک محکومانہ انداز میں انہی ماضی کے مراحل کو دوبارہ جنم دینا ہوتا ہے۔ گو پسماندہ ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے پیچھے چلنا پڑتا ہے لیکن وہ چیزوں کو اسی ترتیب میں نہیں لیا کرتے۔ تاریخی پسماندگی کی یہ تاریخی فوقیت اور مراعات ہیں کہ ان کو اجازت دیتی ہے بلکہ مجبور کرتی ہے کہ وہ کوئی طریقہ بھی اپنا لیں اور بہت سے درمیانے مراحل کو پھلانگ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جنگلی اپنے تیر کمان پھینک کر بندوقیں اٹھا لیتے ہیں‘ گو وہ ان فاصلوں اور وقت سے گزرے ہی نہیں ہوتے جو ماضی میں ان دو ہتھیاروں کے درمیان گزرا ہوتا ہے۔ ارتقا کا یہ عمل بے ہنگم پیچیدہ اور مشترک کردار کا حامل ہوتا ہے۔ بیرونی ضرورت کے کوڑے کا جبر پسماندہ ثقافتوں کو بہت بڑی جست لگا کر آگے نکل جانے کے مواقع فراہم کرتا ہے‘‘۔ اگر ہم پاکستان میں جدید موٹرویز کا جائزہ لیں تو ان کے چند میٹر پر بنے چھوٹے دیہاتوں کے گھروندوں اور ان موٹرویز کی ٹیکنالوجی میں ہزاروں سال کے فاصلے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان فاصلوں کی دوری قلت اور ہوس کے اس سرمایہ دارانہ نظام میں مٹایا نہیں جا سکتا۔ حکمران طبقات جس مالیاتی اور تکینکی محکومی اور پستی کا شکار ہیں اس میں وہ معاشرے کو مساوی ترقی دے کر اپنی سماجی اور معاشی حیثیت برقرار ہی نہیں رکھ سکتے۔ اس مالیاتی سیاست میں عوام کی جمہوریت ممکن ہی نہیں۔ جب معاشی اور مالیاتی تفریق اتنی شدید ہے تو ایسے میں سیاسی اور جمہوری برابری معاشرے میں کس طرح ممکن ہے؟ مغربی سرمایہ داری کی معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی پیروی ہمارے حکمرانوں کا شیوہ اور کردار بن چکا۔ ان کا نظام اپنانے سے ان کے اقتدار اور اخلاقیات کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ''جمہوریت کی ماں‘‘ برطانیہ میں ابھی تک بادشاہت بھی موجود ہے اور ریاست کی وحشت اور جبر بھی کسی دوسری سرمایہ دارانہ ریاست سے کم نہیں‘ لیکن جمہوری ریاکاری اور قانونی و عدالتی فریبوں سے وہ اس کرپشن اور جبر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی جمہوریت دنیا کی سب سے مہنگی اور بدعنوان جمہوریت ہے۔ محنت کش عوام کی جمہوریت اس وقت تک ممکن نہیں‘ جب تک اقتصادی سماجی اور ثقافتی برابری نہ ہو۔ یہ صرف دولت وسائل اور معیشت کی اشتراکی ملکیت یعنی سوشلزم میں ہی ممکن ہے۔ ولادیمیر لینن نے اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کی خوب تعریف کی تھی۔
''اگر ہم عام سوچ اور تاریخ کا مذاق نہیں اڑا رہے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمیں طبقات کی موجودگی میں ''خالص جمہوریت‘‘ کا کہیں نام و نشان نہیں ملے گا۔ ہاں البتہ ہم طبقاتی جمہوریت کی بات ضرور کر سکتے ہیں۔ ''خالص جمہوریت‘‘ محنت کشوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کسی لبرل کا کاذب اور مکارانہ فقرہ ہے۔ بلاشبہ سرمایہ دارانہ جمہوریت قرونِ وسطیٰ کے مقابلے میں ایک جدید تصور ہے مگر یہ سرمایہ داری کے زیر اثر ہمیشہ محددو‘ اپاہج‘ تنگ نظر‘ جھوٹی اور منافقانہ ہے۔ یہ امیروں کے لیے تو ایک جنت سے کم نہیں مگر یہ محروموں اور غریبوں کے لیے ایک پھندہ‘ ایک لعنت‘ ایک دھوکہ ہی ہوتی ہے‘‘۔