ادھر نواز لیگ دھرنے کی شکست کا جشن منا رہی تھی ‘ عمران خان یوم تشکر کی آڑ میں پناہ لے رہے تھے ‘بلاول شادی شادی کھیل رہا تھا اور سیکولر لبرل سیاست دان جمہوریت کے تحفظ کی گھسی پٹی فلم چلا رہے تھے اور اسی دوران میں گڈانی کے مزدور انہی کے نظام کی ہوسِ زر کی آگ میں جھلس جھلس کر مررہے تھے۔لیکن حکمرانوں کو اپنی دولت کی سیاست کے نشے میں چور غریبوں کے بارے میں غور کرنے کی فرصت ہی کہاں رکھتے تھے۔ 22 اکتوبر کو نیروبی سے آ نے والے' ایم ٹی ایس ایس ‘نامی تیل کے سمندری جہاز کوتوڑنے کیلئے گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ نمبر54پر لایا گیا تھا۔مختلف شعبو ں سے تعلق رکھنے والے تیس سے پچاس ہزار کے قریب مزدوروں کا روزگار ان پرانے جہاز توڑنے والی ورکشاپس سے وابستہ ہے ۔کراچی اور دوردراز سے آئے ہوئے مزدوروں میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑجاتی ہے ‘جب ان کی دیہاڑی لگنے کے امکانا ت پیدا ہوجاتے ہیں۔'مگر ایم ٹی ایس ایس‘ ان مزدوروں کیلئے موت کا پیام لیکر آیا تھا۔اس فرسودہ جہاز کے نئے خریدار ‘نے معمول کے مطابق لالچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 'ہارڈ پرمٹ اوراین او سی‘ حاصل کئے بغیرہی جہاز توڑنا شروع کرادیا۔10کلو میٹر طویل ساحلی پٹی پر پھیلی ہوئی132جہاز توڑنے والی ورکشاپس میںسیفٹی نام کی چیز رو ز اوّل سے ہی موجود نہیں ہے۔' ایم ٹی ایس ایس ‘پر بھی کسی حفاظتی تدبیر اورسیفٹی انجینئرز کی نگرانی کے بغیر ہی جہاز توڑنے کا کام شروع کردیا گیا۔دوران کام‘ یکم اکتوبر کو ویلڈنگ کی ایک چنگاری نے گیسوںسے بھری ہوئی ایک 'ویسل‘ میں بہت بڑے دھماکے کے ساتھ آگ بھڑکا دی۔ اس حادثے میں آنکھ جھپکنے سے پیشتر ہی دو مزدور جل کر کوئلہ ہوگئے تھے۔مگر گڈانی کے واقعے کی شدت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ یہاں مرنے والوںکی تسلیم شدہ تعداد 22اور 70زخمی بتائے جاتے
ہیں۔جبکہ ذرائع کے مطابق 50سے زائد مزدورابھی تک لاپتہ ہیں۔چاردن تک بھڑکنے والے شعلے اور سات دن گزرنے کے باجود جہاز کے لوہے کی ناقابل برداشت تپش 'جس کی حدت انسانی جسم کیلئے جان لیوا ہے ‘کے بعد یہ توقع رکھنا کہ مذکورہ لاپتہ مزدور زندہ ہونگے‘ حقائق سے منہ موڑنے والی بات ہے۔ویسے بھی سرکاری ذرائع کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی حادثے میں ہلاکتوں کو کم ازکم مشتہر کرکے اس کی سنگینی کم کی جاسکے ۔ذرائع کے مطابق150فٹ بلند اور 100فٹ چوڑے سمندری تیل بردار جہاز پر کام کرنے والے جن 70مزدوروں نے سمندر میں چھلانگیں لگا کر جان بچائی یا ان زخمی مزدوروں کے ساتھیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ان کو جہاز سے نیچے اتارا،ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے ہاتھ ،پائوں یا مختلف اعضاء ہوا میں اڑتے ہوئے لوہے کی بڑے بڑے ٹکڑوں کی زد میں آکر کٹ چکے ہیں۔ ان زخمیوں کی بقیہ زندگی کیسے گزرے گی؟ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس سنگین حادثے کے کئی پہلو پاکستان کے اندر مزدوروں کی زندگی ،موت اور حالات کارکی زبوں حالی کو عیاں کرتے ہیں۔اسی ساحلی پٹی پر ناکارہ بحری جہازوں کو کاٹ کر پاکستان بھرکی 300سے زائد لوہے کی فونڈریوں کو خام مال، شیر شاہ کے کباڑ بازار اور ملک کے دوسرے حصوں میں مشینری وغیرہ مہیا کیجاتی ہے۔ جہازوں پر دھماکے، حادثات،مزدوروں کی اموات اور زندگی بھر کے لئے معذور ہوجانے کے واقعات 'معمول‘ کی بات ہے۔ دھائیوں پرانے تیل بردارجہازوں میں مضر صحت اور بہت دفعہ انسانی ہلاکت کا باعث بننے والے خطرناک کیمیکل موجود ہوتے
ہیں۔ان خطرناک کیمیائی مادوں سے مزدور کس طرح محفوظ رہیں ؟یہ معاملہ حل کرنے کی بجائے اس کو قدرت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ''دستانوں، فیس ماسک، یونیفارم اور حفاظتی آلات سے محروم مزدوروں کو ناکارہ جہازوں میں موجود کینسر اور سانس کی مہلک بیماریوں کا سبب بننے والے خطرناک آلودہ تیل کا سامنا کرنا پڑتاہے ،ایسبیسٹوس، گلاس وول، پولی کلورینیٹڈ بائی فنائل، بلج اور ڈسٹ واٹرنامی کیمیکلزان مزدوروں کو دمے اور کینسر سمیت کئی مہلک بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ مزدوروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حادثات سے خود بچیں، کیوں کہ قریب قریب کوئی جان بچانے والاہسپتال موجود نہ ہونے کی وجہ سے حادثات سے متاثر ہونے والے مزدور عام طور پرزیادہ خون بہنے کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ اس پورے علاقے میں حکومتِ بلوچستان کی جانب سے صرف ایک ایمبولینس فراہم کی گئی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ڈسپنری کے بارے میں مزدوروں کا کہنا ہے کہ یہاں صرف نزلہ، کھانسی وغیرہ کا علاج ہوتا ہے یا پھر معمولی زخموں کی مرہم پٹی کی جاتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے شپ بریکنگ کہلانے والی ورکشاپس کے اس پورے علاقے میں برائے نام لیبر قوانین پر بھی عملدرآمد کرانے کیلئے کسی قسم کی حکومتی مشینری یا ادارے موجود نہیں ہیں۔ البتہ پولیس اور چند دیگر ادارے ناکارہ جہازوں کے مالکان اور ٹھیکے داروں سے رشوت اور بھتہ لے کر مزدوروں کیلئے جان لیوا حالات پر آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں۔حکومت کو جس علاقے سے سالانہ دس ارب روپے ٹیکس وصول ہوتا ہے اسکی حالت زار کسی کچرے کے ڈھیر سے مشابہت رکھتی ہے۔سفید، بھورے اور نیلے رنگ کا یہ مادہ پھیپھڑوں، حلق، معدے اور آنتوں کے کینسر سمیت نظام تنفس اور دل کی متعدد بیماریوں کا باعث ہے۔ مزدور گلاس وول، 'ایسبیسٹوس‘ اور دیگر کیمیائی مادوں کی ہلاکت خیزی سے بے خبر‘ ان کے درمیان اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں اور انجانے میں کھانسی، دمے اور جلد کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ یہ مادے کارسینوجینک ہیں، یعنی ان کی وجہ سے کینسر لاحق ہوسکتا ہے، لیکن اس کا علم ان مزدوروں کو نہیں ہے۔زیادہ طبیعت خراب ہونے پر مزدوروں کو جبری رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج معالجے کی سکت نہ ہونے کے سبب وہ پھیپھڑوں کی بیماری یا کینسر میں مبتلا ہوکر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یکم نومبر کے اندوہناک واقعے پر،جس ومیں سینکڑوں مزدور یا تو جان کی بازی ہارچکے ہیںیا پھر ہمیشہ کیلئے ناکارہ ہوچکے ہیں‘ پر ریاستی مشینری کا ردعمل وہی روائتی چالبازیوں ،دھوکہ دہی،بیان بازی اور مگر مچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان اس سنگین ترین واقعہ کی تفصیلات تک سے واقف نہیں تھے۔بیان بازی کے بعدا یک 'ایف آئی آر ‘ کاٹی گئی ہے ۔سردست اشک شوئی کیلئے عبدالغفور اور پاکستان شپ بریکنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین دیوان رضوان فاروقی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ معاملہ جلد ٹھنڈا ہوجائے گا،کیونکہ مزدور اپنا مقدمہ لڑنے کیلئے ان وسائل ہی محروم ہیں جو پاکستان کے نظام عدل کیلئے درکار ہیں۔مالکان،ٹھیکیدار اور انتظامیہ‘ مزدوروں کے خاندانوں کو 'کفن دفن اور ختم شریف‘ کا خرچ برداشت کرکے ہی 'اخلاقی غلبہ ‘ پالیتے ہیں ۔ غم زدہ خاندان اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہونے کے بعدجس یاسیت اور شکست خوردگی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں وہاں ان میں وہ سکت ہی باقی نہیں رہتی کہ ''قاتلوں‘‘ اور ذمہ داران سے حساب لے سکیں۔حکمران طبقہ ‘اپنے طبقاتی کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہی مالکان اور سرمایہ داروں کو بچانے کیلئے موثر کردار ادا کرتا ہے،اسکی ایک جھلک ہمیں بلدیہ ٹائون میں 155مزدوروں کو دانستہ زندہ جلادیے جانے کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت اور مرکزی حکومتوں کے بیانات،اقدامات،بے حسی اور لاتعلقی سے نظر آتی ہے۔محنت کش طبقہ غیر منظم ‘نحیف ،کمزوراور درکار اثررسوخ سے محروم ہونے کی وجہ سے براہ راست مالکان کے حملوں،کم اجرت، چھانٹیوں،طویل اوقات کار اور انتقامی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ بدترین حالات کار اور حفاظتی بندوبست کے بغیر کام لئے جانے والے جرم وزیادتی کے سامنے چپ چاپ موت کا شکار ہورہا ہے۔یہ چُپ جتنی گہری ہوگی ،موت سے بدتر زندگی اور قرون وسطی کے حالات زندگی مزید بدترین ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ چُپ توڑ کر ہی محنت کش طبقہ ایک انسانی زندگی کے حصول کے راستے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ جل جل کر راکھ ہوتے،مشینوں کی زد میں آکر جسموں کو ریزہ ریزہ کرانے والے مزدوروں کے پاس ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اپنی چُپ توڑ کر جدوجہد میں انکا بڑھتاہوا ہرقدم‘ ان کو ذلت ،رسوائی اور ہلاکت کی زنجیروں سے نجات دلانے کا باعث بنے گا۔