"DLK" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ: بٹوارے کے سو سال

آج سے سو برس قبل 1916ء میں 'سائیکس پیکوٹ‘ کے نام سے سامراجیوں کے درمیان ایک شیطانی معاہدہ ہوا تھا۔ ایک اعلیٰ برطانوی سفارتکار 'مارک سائیکس‘ اور اس کے فرانسیسی ہم منصب 'فرانسو جارج پیکوٹ‘ نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ زارِ روس کو بھی اس معاہدے کی اطلاع دی گئی کیونکہ ٹوٹ پھوٹ اور زوال پذیر سلطنت عثمانیہ کے کچھ حصے اس کے حصے میں بھی آئے تھے؛ تاہم 1917ء میں جب روس میں عظیم اکتوبر انقلاب برپا ہوا تو بالشویکوں کو پرانے حکومتی ریکارڈ سے اس معاہدے کی ایک کاپی ملی۔ لینن کے دوست، اکتوبر انقلاب کے ایک اہم رہنما اور خارجہ امور کے کمیسار لیون ٹراٹسکی نے پارٹی کے اخبار 'ازوسشیا‘ میں 24 نومبر 1917ء کو اس معاہدے کو شائع کیا‘ اور سامراجی طاقتوں کی پہلی جنگ عظیم کے بعد شکست و ریخت کے شکار سلطنت عثمانیہ کے علاقے لیونت پر قبضہ، تقسیم اور غلبہ حاصل کرنے کے منصوبوں کے راز کو افشا کیا۔ فرانسیسی اور برطانوی سامراجی طاقتوں کے درمیان اس خفیہ معاہدے کو لینن نے 'سامراجی چوروں‘ کا معاہدہ کہا تھا۔ اس انکشاف نے دنیا میں ایک ہلچل مچا دی اور برطانیہ اور فرانس کے لیے سیاسی اور سفارتی خجالت کا باعث بنی۔ اس دستاویز میں یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ جب عثمانی سلطنت کو فیصلہ کن شکست ہو گی تو فلسطین سمیت اس کے باقی علاقوں کو متوقع سامراجی فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔ 'بالشویک حکومت‘ کی جانب سے اس سامراجی منصوبے کو افشا کرنے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مارکس وادیوں کی خارجہ پالیسی محکوم طبقات کے مشترکہ مفاد اور اس مارکسی نعرے پر مبنی ہے کہ ''دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جائو‘‘۔ 'بالشویک خارجہ پالیسی‘ کی بنیاد طبقاتی یکجہتی اور محنت کشوں کے مشترکہ مفاد پر مبنی تھی نہ کہ قوم پرستی یا قومی ریاست پر‘ جس میں ملکوں کے درمیان دوستیوں اور دشمنیوں کا تعین حکمران طبقات کے مفادات کرتے ہیں۔ 'سائیکس پیکوٹ معاہدہ‘ جسے ایشیائے کوچک کا معاہدہ بھی کہتے ہیں‘ استعماری طاقتوں کی ظالمانہ اور حریص فطرت کو واضح کرتی ہے، جن کے مقاصد ہمیشہ خطوں کے باسیوں کے مفادات کی بجائے وسائل کی لوٹ مار پر مبنی ہوتے ہیں۔ معاہدے کے دستاویز میں ایک نقشہ تھا جس پر پنسل سے سیدھی لکیروں کے نشانات تھے۔ اس نقشے کے تحت عرب آبادیوں کو مختلف مذاہب، نسلوں، قبیلوں اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو عثمانی سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے نتیجے میں جنم لینے والے ان نام نہاد ممالک کو مختلف حلقہ ہائے اثر میں تقسیم کیا گیا اور سامراجی لوٹ مار کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فرانس کے حصے میں خطے کے جنوبی علاقے اور ترکی کے مشرقی حصے، شمالی عراق بشمول موصل، شام اور لبنان کے بیشتر علاقے آئے۔ برطانوی سامراجیوں کے حصے میں اردن، جنوبی عراق، حیفا، فلسطین میں عکا، بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان کی ساحلی پٹی آئی۔ زارِ روس کو اس کا سب سے پسندیدہ علاقہ استنبول بشمول آرمینیا کے کچھ علاقے اور سٹریٹیجک 'آبنائے ترک‘ دیا گیا۔ اس عارضی نقشے میں‘ فاتحینِ جنگ کے مختلف علاقوںکی مختلف رنگوں میں حد بندی کی گئی تھی۔ عرب علاقوں کو فرانسیسی اور برطانوی سامراجیوں کے درمیان سٹریٹیجک اور مالیاتی مفادات کے تحت بندر بانٹ کیا گیا۔ ان مصنوعی سرحدوں اور ظالمانہ بندر بانٹ کے نتیجے میں یہاں کے باسیوں کی زندگیوں میں ہونے والی فرقہ وارانہ خونریزی، جنگوں اور دہشت گردی کے ہولناک نتائج کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ ان پوری تہذیبوں کو بغیر کسی ندامت کے تقسیم کر دیا گیا۔ دستاویز میں لکھا ہے، ''نیلے رنگ کے علاقوں میں فرانس اور سرخ رنگ کے علاقوں میں برطانیہ کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ عرب ریاستوں یا عرب ریاستوں کی کنفیڈریشن کے ساتھ ملک کر بالواسطہ یا بلا واسطہ انتظامی کنٹرول قائم کریں‘‘۔ فوجی اور سفارتی ماہرین نے پہلے سے ہی اس منصوبے کو حتمی شکل دے دی تھی۔ ان عرب ریاستوں کو برطانوی اور فرانسیسی اثر و رسوخ میں دے دیا گیا‘ جنہیں قومی انقلابات کے تخلیقی عمل سے گزرے بغیر نئی نوآبادیاتی قومی ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ''ایماندار امن کا ایجنٹ‘‘ کا مغربی خیال، جو خود مشرق وسطیٰ کے ہر جھگڑے میں ایک فریق ہوتے ہیں، کوئی نیا نہیں۔ عربوں کی آرزوئوں سے دغا بازی‘ برطانوی سامراج کا شیوہ دہائیوں پرانا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ دوسری سامراجی طاقتوں سے اپنی گریٹ گیم میں عربوں کو کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کیا‘ اور پھر بعد میں دھوکہ دیتے ہیں، اس کے باوجود اپنے آپ کو دوست کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ فلسطین کے معاملے میں ان کی یہ منافقت اپنی پوری آب و تاب سے نظر آئی۔ 
1882ء میں فلسطین میں پہلی صہیونی ہجرت کا آغاز ہوا‘ جس میں یورپی ممالک نے وسائل مہیا کئے اور آباد کاروں کی غیر قانونی نقل و حمل کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ چھوٹی بڑی آبادیوں کے قیام کے ذریعے خطے کے باسیوں کو غلام بنایا جا سکے۔ اس لیے جب 'بالفور‘ نے 'روتھشیلڈ‘ کو اپنا خط بھیجا تو فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا خیال بظاہر معقول نظر آتا تھا۔ اصولی طور پر سامراجی تاج برطانیہ نے 1918ء میں ہی فلسطین کو صہیونی تحریک کے حوالے کر دیا تھا‘ جب بالفور ڈکلریشن کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ عمل فلسطینیوں کو ایک مسلسل قبضے، نوآبادیات، جنگ اور انتشار کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کے مترادف تھا۔ بے دخل کیے گئے لوگ آج بھی ''تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کی سامراجی پالیسی کے تاریخی جرائم کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ پھر بھی جنگ عظیم کے سالوں میں عربوں کے ساتھ تحقیر آمیز وعدے کیے گئے اور خود ساختہ عرب قیادت عثمانیوں کے خلاف برطانیہ کی جنگ میں ان کے ساتھ تھی۔ فلسطینیوں سمیت‘ عربوں کو فوری آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا۔ عرب قیادت اس بات پر متفق تھی کہ 'لیگ آف نیشنز‘ کا آرٹیکل 22‘ عثمانیوں کے زیر تسلط تمام عرب صوبوں پر لاگو ہے۔ عربوں کو یہ بتایا گیا کہ انہیں ''تہذیب کی مقدس امانت‘‘ کے طور پر ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور ان کے علاقوں کو ''خودمختار ریاستوں‘‘ کے طور پر مانا جائے گا۔ فلسطینیوں کو یقین تھا کہ وہ بھی ان معاہدوں میں شامل ہیں جبکہ ان معاہدوں کی حیثیت اس کاغذ سے بھی کمتر تھے جن پر انہیں لکھا گیا تھا۔ ایک سو سال بعد بھی فلسطینی نہ صرف غلام ہیں بلکہ اپنی ہی سرزمین پر دربدر بھی ہیں۔ امریکی اور یورپی سامراجی طاقتوں کی آشیرباد سے وحشی صہیونی ریاست ان پر شدید جبر ڈھا رہی ہے۔ فلسطینی حکمران ٹولے سے تعلق رکھنے والے ان کے اپنے رہنمائوں نے انہیں ہمیشہ دھوکہ دیا۔ تمام مذاکرات بے معنی ثابت ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کے بنیاد پرست دھڑے محض اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور سامراجی مذاکرات کاروں کی رعایات کے نتیجے میں 
حاصل اقتدار میں فلسطینی عوام پر بدترین جبر کرتے ہیں ۔ فلسطینیوں کی حالت زار بالفور ڈیکلریشن کے وقت سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے اور موجودہ سماجی معاشی نظام کے تحت کوئی حل بھی نہیں ہے۔ پچھلی صدی کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پر ہی صہیونی ریاست اور اس کے مغربی سہولت کاروں کے جبر کو فیصلہ کن طور پر شکست دی جا سکتی ہے۔ 'سائیکس پیکوٹ معاہدے‘ کے ذریعے سامراجیوں کی بنائی ہوئی ریاستیں منہدم ہو رہی ہیں اور یہ معاشرے خونریزی اور عام لوگوں کے قتل عام سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ عراق، یمن اور لیبیا کی ریاستیں منہدم ہو چکی ہیں اور ایک خونریز تقسیم کے تباہ کن مرحلے پر ہیں۔ شامی ریاست تمام اقسام کی 'بنیاد پرست‘ پراکسیوںکی زد میں ہے، جن کو عرب بادشاہتوں، سامراجی مافیا اور ملیشیائوں کی حمایت حاصل ہے۔ قتل عام اور انتشار نے ایک وقت کے نسبتاً خوش حال شامی معاشرے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ یہ جرائم 'سائیکس پیکوٹ معاہدے‘ اور اس طرح کے دوسرے سامراجی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں‘ جبکہ ان کے گماشتہ حکمران انتہائی جابر ہیں۔ 2011ء کی تحریک نے ان مصنوعی طور پر کھینچی گئی سرحدوں کو پچھاڑا، انقلابی لہر پورے خطے میں پھیل گی۔ یہ بات ثابت ہے کہ پورے خطے میں قومی بنیادوں پر نجات ممکن نہیں‘ لیکن اس انقلابی تحریک میں شامل نوجوانوں اور محنت کشوں کو انقلابی سرکشی کے تناظر کی حامل طبقاتی جدوجہد کی پالیسی کی ضرورت ہے، تاکہ ان بوسیدہ رجعتی ریاستوں اور سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا جا سکے، جن کو قائم رکھنے کے لیے کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں کو عذاب مسلسل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تحریک کی یہ انقلابی فتح ہی وہ راستہ ہے جن پر چل کر عوام کو اس بربریت یعنی سامراجیت اور بنیاد پرستی سے نجات مل سکتی ہے جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں