"DLK" (space) message & send to 7575

بے یقینی کا عالم!

گو پاکستان فوج کے ریٹائر ہونے والے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے الوداعی دورے بھی شروع کردیئے ہیں لیکن اس کے باوجودکہ اس تبدیلی کو صرف چند دن رہ گئے ہیں سیاست اور میڈیا میں ایک بے یقینی اور ہیجان کی کیفیت پائی جارہی ہے ۔
اس سارے سسپنس اور غیر یقینی کی کیفیت سے اگر کسی چیز کی عکاسی ہوتی ہے تووہ ہمارے حکمران طبقات اور ان کے سیاسی وریاستی نمائندوں کا عدم تحفظ اور اقتدار وریاست کے مختلف دھڑوں میں بھڑکتے ہوئے تضادات کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے ۔اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس ملک کے حکمرانوں کا اقتدار وقت کے گزرنے کے ساتھ بتدریج غیر مستحکم ناپائیدار اور غیر یقینی کا شکار ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس ملک میں فوجی آمریتوں کے تین طویل ادوار رہے ہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ آمریتیں بھی مختلف قسم کی جمہوریتوں کے ذریعے زیادہ عرصہ برسراقتدار رہی ہیں ۔ فوجی عدالتوں کے ساتھ کھلا مارشل لا ء اور فوجی جبر کو جلد ہی مسلم لیگ کا سویلین لباس اوڑھ کر ڈھانپ لیا جاتا رہا ہے۔ 1988ء کے بعد کی سویلین حکومتوں میں سے ایک بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکی تھی۔ لیکن براہِ راست کوئی مارشل لاء نہیں لگا تھا۔جب ایوب خان کے 1958ء میں مارشل لا لگایاتھا تو اس وقت عالمی طورپر سرمایہ دارانہ نظام کے بعد از عالمی جنگ دوئم کے عروج سے مغرب میں ہونے والی معاشی ترقی کے ثمرات کے چند ٹکڑے پاکستان جیسے ''کولڈ وار‘‘ کے اتحاد ی ممالک کو بھی ڈال دیئے جاتے تھے۔ اس امداد اور سامراجی گرانٹس سے کسی حد تک ترقی ہوئی تھی لیکن اس شرح نمو میں تیز رفتار اضافے نے یہاں سماجی ترقی کو عمومی خوشحالی دینے کی بجائے اس کو زیادہ متضاد کردیا۔ یہی تضادات 1968-69ء کے انقلاب کی صورت میں پھٹے جس سے پہلے ایوب خان گیا اور پھر اس انقلاب کو مکمل طور پر زائل کرنے کے لیے ملک کے ہی ٹکڑے کر دیے گئے کیونکہ ان کی اصل حُب اپنے مال ودولت سے ہوتی ہے وطنوں سے نہیں۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی حکومت نے پارٹی کے پروگرام سوشلسٹ انقلاب کی بجائے اصلاحات سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن ان ریڈیکل اقدامات سے مقامی حکمران طبقات کے چند حصوں کو خراشیں ضرور آئیں تھیں جبکہ سامراجی بھی بھٹو کو اپنے قابومیں نہ کرسکنے کی وجہ سے نالاںتھے نتیجتاً ضیاالحق کا مارشل لا ء اور بھٹو کا عدالتی قتل تھا۔ ضیا ء نے مذہبی فرقہ واریت اور نسلی وقومی تعصبات کے ذریعے حاکمیت کی لیکن اس کے اقتدار کا حتمی اوزار جبر تھا جو یہاں کے محنت کشوں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنان پرڈھایا گیا تھا۔پھر یہ خونی رات اپنے اندر کے تضادات سے پھٹ گئی۔لیکن عام انسانوں کے لیے کوئی اجالا نہیں ہوا۔ جمہوری حکومتوں نے بھی وہی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں اپنائیں جن سے عوام محرومی اور ذلتوں کے اندھیروں میں گھرے رہے۔ پھرمزید تضادات بھڑکے اور مشرف کا اقتدار آگیا۔مشر ف کی تنزلی ایوب خان کی طرح اس کی معاشی ترقی اور شرح نمو ہی میں مضمر تھی۔ 7 فیصد کی شرح نمو نے تضادات کو ختم کرنے کی بجائے انکو پھاڑنے کا کام کیا۔ لیکن اس سارے عمل میں ریاست کے مقدس اداروں' جن میں فوج اور عدلیہ سرفہرست ہیں‘ کی ساکھ کسی حد تک مجروع ہوئی ۔ پچھلی حکومت کے 5سال پورے کرنے میں کسی کی سیاسی چالبازیوں اور بازی گری کا اتنا ہاتھ نہیں تھاجتنا اداروں کی ساکھ کو مزیدمجروع ہونے سے بچانے کے لیے سامراجی ودیسی حکمرانوں کے سنجیدہ ماہرین کی واردات تھی۔ شاید انہی وجوہات کی بدولت میڈیا کے بیشتر چینل جو نواز شریف کو روزانہ فوجی حرکت کے ذریعے معزول کرواتے رہے ان کے تجزیہ کاروں کے تناظر حالات اور واقعات بار بار مسترد کرتے رہے۔ موجودہ بے یقینی کا عالم اس وجہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ صرف چند دنوں میں چیف کی تبدیلی سے پیشتر کوئی ایسا دھماکہ دہشت گردی کی واردات یا پھر کوئی بھاری واقعہ رونما ہوسکتا ہے جو فوجی مداخلت کروانے کا موجب بن سکتا ہے۔اس بے یقینی کی وجہ مسلسل گہرا ہوتا ہوا بحران ہے۔ تمام تر دعوئوں کے باوجود معاشی ترقی، سماجی بدحالی کو جنم دے رہی ہے۔ اس میٹھے زہر والی مہنگائی سے زندگی مزید اجیرن ہوتی چلی جارہی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا' GDP کا 68 فیصد تک پہنچ جانے والا‘ قرضوں کا بوجھ بن گیا ہے۔ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع اور گہری پاکستان کی تاریخ میں بھی کبھی نہیں رہی تھی۔ مذہبی بنیاد پرستی کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا کر محنت کش طبقات میں دراڑیں ڈالنے کی واردات اب حکمرانوں کو اس انتشار اور دہشت گردی کی صورت میں بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ 
جہاں بالا دست حکمران طبقہ ' سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ایک ملغوبہ ‘اتنا کرپٹ ہو وہاں ریاست اور فوج سیاست کے تابع نہیں ہوتے۔ جب یہ سرمائے کی سیاست اس معاشی بدعنوانی سے سارا نظام ہی بگا ڑ دے تو پھر جرنیل مداخلت کرتے ہیں لیکن پھر جب فوجی مارشل لاء کا انجام بھی وہی نکلے تو پھر دوبارہ سیاست دانوںکو اقتدار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سویلین اور فوجی حاکمیت کے کھلواڑ میں محنت کش عوام ہی پستے رہتے ہیں ۔نظام کی تنزلی کے ساتھ جہاں حاکمیت کا بحران بڑھتا ہے وہاں معاشرہ مسلسل بربادیوں میں گرتا جاتا ہے۔ان سماجی بحرانوں کے مضمرات چاہے طبقاتی کشمکش کی صورت میں وقتی طور پر نہ بھی ابھر رہے ہوں لیکن یہ فرقہ وارانہ ‘ قومیاتی‘ ذات برادری نسلی اور علاقائی تعصبات کے ٹکرائو کی شکل میں بھڑکتے رہے ہیں۔ اگر فوج اس لیے اب براہِ راست اقتدار میں آنے سے گریز کررہی ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں اس کے اپنے ڈھانچوں کی جڑت اور ڈسپلن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو سویلین جمہوریت کے حکمرانوں کے پاس بھی اس اقتدار کو استحکام دینے والا کوئی نظام یا نسخہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظامِ سرمایہ جس حد تک گل سڑ چکا ہے اس میں سماجی خلفشار بڑھتا ہی رہے گا۔ ایسے میںکوئی مستحکم جمہوریت یا آمریت کی شکل میں اقتدار پائیدار نہیں ہوسکتا۔ حکمرانوں کا نظام تاریخی طور پر متروک ہوچکا ہے اس نظام کو یکسر تبدیل کیے بغیر کوئی سماجی امن وخوشحالی اور سیاسی استحکام ممکن ہی نہیں۔ آج کی سیاست میں اس نظریے کا فقدان ہے۔لیکن انہی انقلابی نظریات کا ابھار ہی اس معاشرے کا مقدربدلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں