"DLK" (space) message & send to 7575

ٹرمپ اور ایران!

حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا امریکہ کے ایک معمول کے خاتمے کے بعد دوسرے عدم استحکام اور انتشار بھرے معمول کے آغاز کی غمازی کرتا ہے۔ یہ امریکہ کے اقتصادی وسماجی اور ثقافتی بحران میں ایک معیاری تبدیلی کا سیاسی اظہار ہے۔لیکن جہاں ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر بھرپوراحتجاجی مظاہروں اور اس بے ہنگم رجعت سے حقارت کا اظہار مسلسل جاری ہے وہاں وسیع پیمانے پر ہیلری کلنٹن کی شکست پر کسی صدمے یا دکھ کا فقدان بھی پایا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر جہاں ایک خوف خصوصاً تارکینِ وطن میںپایا جاتا ہے وہاں ان سے متعلق کسی یقینی تناظر کے بارے میں ایک ہیجان اور اضطراب بھی بہت زیادہ ہے ۔ جہاں فریب اپنی فطری ہلڑ بازی کا مظاہرہ کرے گا وہاں اس کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور مفادات کے بندھن میں بھی جکڑے رہنا پڑے گا۔
خارجہ پالیسیوں میں وہ ایک حد تک روس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش بھی کرے گا لیکن کمانڈر انچیف بننے کے بعد اس کو یہاں بھی کوئی'' یوٹرن‘‘ لینا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں اس نے جو بیان بازی کی ہے صدر بننے کے بعد شاید وہ اس پر قائم نہیں رہ سکے گا ،خصوصاً پینٹاگان کی افعانستان پاکستان اور پورے خطے میں جو سٹرٹیجی چل رہی ہے اس میں کوئی بہت بڑا بدلائو شاید ممکن نہیںہوگا۔ کیونکہ امریکی صدر جتنا بھی طاقتور ہو اصل طاقت کا سرچشمہ فوج اور ریاست کے کلیدی ادارے ہی رہتے ہیں۔ چین کے ساتھ جہاں وہ تجاری مخاصمت کی کوشش کرے گا وہاں اس کے معیشت دان اس کو یہ بھی بتائیں گے کہ چین نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ جو امریکی خزانے کے بانڈز کی صورت میں رکھا ہوا ہے اس سے امریکہ کو روزانہ ایک ارب ڈالر آمدن ہوتی ہے اورڈالر کے ابھی تک عالمی کرنسی کے طور پر جاری رہنے میں اس چینی پالیسی کا فیصلہ کن کردار ہے۔ شام میں اوباما نے مداخلت سے گریز کیا کیونکہ امریکی ریاست میں اس کی سکت ہی نہیں تھی لیکن ٹرمپ دور میں بھی امریکہ ،شام کو روس کے حوالے کرنے سے بھی مکمل فرار اختیار نہیں کرسکے گا۔ کیونکہ اس سے پورے خطے میں پسپائی ایک مسلسل پالیسی بن جائے گی۔
ٹرمپ کی بڑھک بازیوں کی پرکھ اور قوت کا امتحان ایران کے ساتھ پالیسیوں میںہوگا۔ اگر ہم ٹرمپ کے فرمانوں کا جائزہ لیں تو اس نے ایران کے ساتھ اوباما دورکی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جانے والے جوہری معاہدے کو منسوخ کرنے کا اعادہ کیا ہو ا ہے۔گو یہ معاہدہ بھی امریکی سامراج کی موضوعی کمزوری اور بحران کی ہی غمازی کرتا ہے۔ لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کو منسوخ کرتا ہے تو اس کے مضمرات امریکی خارجہ پالیسی کے لیے کہیں زیاہ تباہ کن اثرات مرتب کریں گے۔ جن چار افراد کے وزیرِ خارجہ بنائے جانے کا امکان ہے ان میں سے تین انتہائی جارحانہ انداز میں ایران سے اس معاہدے کومنسوخ کرنے کو نئی خارجہ پالیسی کی پہلی ترجیح بنانے کے لیے اوتاولے ہورہے ہیں ۔لیکن اس معاہدے (JEPOA) میں صرف امریکہ اور ایران ہی دستخط کرنے والے فریق نہیں ہیںبلکہ 7 دوسرے ممالک جن میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ ممبران ،جرمنی اور یورپی یونین بھی اس معاہدے کے اراکین میں شامل ہیں۔ ابھی بھی باقی تمام ممالک ایران سے اپنے مالی مفادات کے تحت کاروبار اور تجارت کررہے ہیں۔جبکہ واشنگٹن کی ضد پر ابھی تک امریکی کمپنیوں کو اجازت نہیں ملی۔ اس لیے روس، چین اور یورپی ممالک شاید امریکی دبائو کے باوجود بھی ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد نہیںکریں گے۔اکتوبرمیں یورپی یونین 
نے ایران کے بڑے بینک''صدیرت‘‘پر پابندی ختم کردی ہے جس سے اب وہ ان ممالک میں بینکاری کررہا ہے ۔ پچھلے ہفتے فرانس کی اجارہ داری ''ٹوٹل‘‘ نے شمالی ایران میں گیس نکالنے کے4.8 ارب ڈالر کا ٹھیکہ حاصل کرلیا ہے۔ روس ایران کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے منافع بخش معاہدے کرتا چلا جارہاہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور سیاسی تضادات شدت اختیار کرسکتے ہیںکیونکہ ٹرمپ اگر''قوم پرستانہ‘‘ شاونزم کی پالیسی جبر سے لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یورپی سرمایہ دار بھی اپنے مالی مفادات کے لیے اس بحرانی عہد میں اس کو انکار کرکے مسترد کرسکتے ہیں۔ 
دوسری جانب ا س معاہدے کے خاتمے سے جس فریق کو زیادہ تقویت ملے گی وہ ایران کے اپنے سخت گیر مذہبی اشرافیہ کے دھڑے ہیں۔ جن مذہبی رہنمائوں نے ''امریکی شیطان ‘‘ دشمنی کے جواز پر اپنی ساری بنیاد پرستانہ سیاست اور مالیاتی اقتدار مسلط کروایا وہ اس معاہدے سے ناخوش ہیں کیونکہ اس معاہدے سے جہاں اسرائیلی حکمرانوں اور امریکی قدامت پرست سیاستدانوں کی نظریاتی ساکھ مجروح ہوئی ہے وہاں ایرانی سخت گیر مذہبی رہنمائوں کو بھی تو امریکہ دشمنی کو کسی حد تک ترک کرنے کا ایک سیاسی جھٹکا لگا ہے ۔ معاہدہ منسوخ ہونے پر یہ ایرانی مذہبی اشرافیہ سار الزام امریکہ پر دھر سکے گی اور ان کے جنونی حصے ایٹمی پروگرام کو خفیہ طور پر زیر ِزمین لے جا کر بم اور اسلحہ بنانے کا عمل بھی کرواسکتے ہیں ۔ ظاہری طو ر پر ایرانی حکمران '' ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو‘‘( NPT) کے معاہدے پر قائم رہتے ہوئے اپنی واردات جاری بھی رکھ سکتے ہیں اور باقی ممالک ان پر پابندیاں اپنے مالیاتی اور تجارتی مفادات کی وجہ سے لگانے سے گریز بھی کریں گے۔ اس کیفیت میں امریکی سامراجیوں کے پاس پھر صرف فوجی حملے کی گنجائش باقی رہ جائے گی۔ دوسری جانب امریکی سامراجی اگر شام میں براہِ راست زمینی جارحیت نہیں کرسکے تو ایران جس کی ایک بڑی فوج اور اسلحہ سے لیس ریاست ہے وہاں جارحیت سے قبضہ کرناممکن نہیںرہاہے۔ لیکن جہاں امریکی سامراج اور تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی سلطنت آج اس نظام کی تنزلی سے نحیف اور لاغرہوچکی ہے وہاں ایران کے مذہبی رہنمائوں کا اقتدار بھی اتنا مضبوط نہیں جتنا میڈیا میںظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے اندر ابھرنے والی کھرب پتی مذہبی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں ( جن کو میڈیا''اصلاح پسند‘‘ اور''قدامت پرست‘‘ قرار دے رہا ہے) کے درمیان تضادات تصادم میںبدلتے جارہے ہیں۔ قدامت پسند اشرافیہ کے دھڑے مزید جبرسے ایران کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے دباناچاہتے ہیں جن کی بڑی تحریکوں کی ایک تاریخ ہے ۔ ان میں سے خصوصاً 1996ء اور 2009ء کی تحریکوں نے ایرانی مذہبی اشرافیہ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ دوسری جانب صدر روحانی کی قیادت میں'' اصلاح پسند‘‘ اشرافیہ منڈیاں اورسرمایہ کاری کھول کر مروجہ سرمایہ دارانہ تراکیب کے ذریعے معاشرے میں تحریک کو زائل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ امریکہ سے جوہری معاہدہ بھی اسی کاوش کا حصہ ہے۔ معاشی پابندیوں کے خاتمے پر ایران کے عوام نے اس امید کے ساتھ جشن منایا تھا کہ شایدان کو روزمرہ کی ذلتوں والی زندگی سے کوئی چھٹکارا حاصل ہوسکے۔
اگر سرمایہ داری کے تحت سرمایہ کاری اور معاشی ترقی وشرح نمو بڑھتی بھی ہے تو یہ جس قسم کی امارت اور غربت کی تفریق پیدا کریں گی اس سے سماجی تضادات پھٹ کر ایک نئی تحریک کو جنم دے سکتے ہیں ۔ اگرسخت گیروں کی جبر کو شدید کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے تو ایران کے عوام کہیں زیادہ بڑے آتش فشاں کے پھٹنے کے دھماکے جیسی بغاوت کرکے ایک انقلابی تحریک کو جنم دیں گے۔ دوسر ے الفاظ میںایران میں سرمایہ داری کے تحت اب عوام کے سامنے بہتری ہونے کی ہر گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ ٹرمپ اور ہیلری دونوں کا معاشی اوراقتصادی پروگرام ایک ہی تھا۔ برنی سینڈرزنے امریکہ جیسے ملک میں سوشلزم کانعرہ دیا جہاں چندبرس قبل تک سوشلزم اور کمیونزم تضحیک آمیزسمجھے جاتے تھے۔ٹرمپ نے رائج الوقت سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کو گالی دے کر جس تبدیلی کی بات کی ہے اس کا انجام بارک اوباماکے تبدیلی کے نعرے زیادہ مختلف نہ ہوگا۔ امریکی آبادی کی اکثریت غربت اور محرومی کاشکار ہورہی ہے ایک غصہ ہے جس کو ٹرمپ نے استعمال کیا ہے لیکن ٹرمپ جب پہلوں سے بھی زیادہ ناکام اور نامراد ثابت ہوگا تو پھر یہ غصہ ایک تحریک میں بدل کر سوشلزم کے کسی انقلابی متبادل کی تلاش میں ابھرے گا ۔ برنی سینڈز نے سوشلزم کو امریکہ میں مقبول کردیا اور ٹرمپ کا اگر اس سے مقابلہ ہوتا تو سینڈزنے جیت جاناتھا۔ لیکن مسئلہ اس نظام میں جیت کا نہیں رہا مسئلہ نظام کو ایک انقلاب سے مٹانے کا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں