آج کل پاکستان اور برصغیر جنوب ایشیا کی وسیع شمالی پٹی میں خشک سالی اور سوکھے کا موسم چل رہاہے ۔ جہاں اس سے بہت سی وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں وہاں خصوصاً بارانی علاقوں کا شتکاروں اور دہقانوں کے لیے ایک کال پڑ نے کے خطرے سے ان کے معاشی اور سماجی طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پنجاب‘ جس کو تاریخی طور پر برصغیر میں اناج پیدا کرنے کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے وہاں پر بارش کے نہ ہونے سے درختوں اور کھیتوں کے مناظر اس سال کی خزاں میں اور زیادہ اداس اور تلخ ہوگئے ہیں ۔ لیکن پوٹھوار،دھن،کہون اورونہار کے علاقے،جو سالٹ رینج سے لے کر مارگلہ کے پہاڑی سلسلے تک چلتے ہیں،زیادہ تشویش کا شکار ہیں ۔ سیلابوں زلزلوںاور طوفانوں کی طرح خشک سالی بھی ایسی قدرتی آفت ہے جس سے انسانی زندگی اور تہذیبیں متاثر ہوتی رہی ہیں۔ وادی سندھ جو نسل انسان کی سماجی زندگی کی پہلی تہذیبوں کا گہوارہ تھی۔اس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے میں ایک عنصر اسی خشک سالی اور سوکھے کی آفت کا ہی تھا۔ وادی دھن میں اشوکا سے لے کر بابر تک کے تاریخی مقامات اور کھنڈرات ملتے ہیں، اور وہاں کے زیاد ہ مشہور سپاہی اور بیل ہی ہیں ۔ کلر کہار سے شمال میں چکوال تک ا س وادی کا مرکزی قصبہ کبھی بھون ہوا کرتا تھا۔ آج بھون اس نظام کی بربادیوں سے اجڑا ہوا ،ایک ایسا دشت بن گیاہے جہاں بٹوارے سے پہلے کبھی ایک پررونق شہر آبادہوا کرتا تھا۔ ان بارانی علاقوں میں ایک طرف غربت و محرومی ہے تو دوسری جانب یہاں کی زراعت اور غذا کا دارومداربارشی پانی پر ہے ۔ یہی کیفیات ہمیں بلوچستان سندھ اور پختونخواہ کے بہت سے علاقوں میں ملتی ہیں۔لیکن اگر ہم جنوبی ایشیا کے خطے کا تاریخی اور جغرافیائی طو رپر جائزہ لیں تو یہاں کی سرزمین میں اتنی زرخیزی اور زندگی کواتنی غذائیت حاصل تھی کہ مغرب سے آنے والے تمام حملہ آور ہمالیہ کے دروں سے گزر کر اسی زرخیزی اور سہل زراعت کی کشش میںہی برصغیر کا رخ کرتے تھے۔ آج سے 5 کروڑسال پیشتراس خطے کا تعلق آسٹریلیا کے قریب گُنڈوانا کے سپر براعظم سے تھا۔ ایسے میںاسکی گہرائی میں ایک بڑے زمینی جھٹکے سے یہ ٹیکٹونک پلیٹ ٹوٹ کر شمال کی جانب سرکنا شروع ہوگئی تھی اور ایک مخصوص رفتار سے سفر کرتے ہوئے ایشیا کے براعظم سے ٹکرانے پر جوزمینی مادہ ابھرا وہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے سلسلے کی صورت میں بلند ہو کر قراقرمK-2 سے لیکر اروناچل پردیش تک 1500 میل سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے جو اس ٹکرائو اور جڑت کی عکاسی کرتا ہے۔اور آج بھی چند ملی میٹر سے فی صدی کی رفتار سے یہ اونچا ہورہا ہے۔انہی ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں سے ٹکرا کر مون سون ہوائیں برسات کرتیں اورگنگا جیسے دریائوں کو پانی سے سیراب کرتیںتھیں اور یہ خطہ اس مٹی سے، جو زمین کی کوکھ سے نکلے ہوئے ان پہاڑوں سے یہ پانی اپنے ساتھ بہا کر لائے تھے، مزید زرخیز ہونے لگا ۔ لیکن انہی پہاڑوں کے درئوں سے آنے والے یہ بیرونی حملہ آور اس خطے پر قابض ہو گئے۔ سوائے سکندر کے سبھی یہیں رچ بس گئے۔لیکن یہاںپر قائم ہونے والی حاکمیتوں نے، زمینی اورفضائی موحولیات کی پرواہ کیے بغیر، زمیں درازی سے جنگل کاٹ دیئے اور زمینوں کے نقشے بدل دیئے۔ ایک طویل عرصے سے اس ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی آفات کے پھیلائو میں ان بالادست طبقات اور حکمرانوں کی ہوس زر وزمین کا اہم کردار رہاہے۔ دریائوں کے رخ موڑے گئے اور فطرت کو سنوارنے کی بجائے زمین کو لوٹنے کی نفسیات نے موحولیاتی بگاڑ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آریائو ں نے600 قبل مسیح میںوسیع پیمانے پر جنگل صاف کیے اور اپنی جاگیریں بنائیں ،مغلوں اور دوسرے آنے والے حکمرانوں نے اپنی حاکمیت کے لیے جاگیروں کے پرمٹ علاقائی جنگجوئوں میں بانٹ کر ان کو جاگیر دار بنایااور صوفیوں اور پیروں کو اپنی گدیاں چلانے کے لیے وسیع اراضی دی۔ انکی باقیات آج بھی مزاروں کے پاس وسیع ترین جاگیروں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ انگریز سامراج نے اس سلسلے میں مزید شدت پیدا کی انہوںنے اپنے جنگی بحری بیڑوںکو بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر یہاں سے ٹمبر لوٹا۔ 2800 میل کی ریلوے لائن 1905 ء تک تعمیر ہوچکی تھی۔اس میں ہر ایک میل کے لیے لکڑی کے860 سلیب درکار تھے۔ لیکن اس ریلوے نظام نے برصغیر ہند کے عوام کو شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ملا یا تو ضرور لیکن جس بے ہنگم انداز میں یہ پٹڑ یاں بچھائی گئیں ان سے پانیوں کے راستے بلاک ہوئے اورکہیں سیلابوں اورکہیں خشک سالی کا باعث بنے۔ لیکن آزای کے بعدیہ سلسلہ زیادہ ہی شدت اختیار کر گیاہے ۔ لالچ اور ہوس زر و زمین اتنی شدت اختیار کرگئی ہے کہ یہ زمین کبھی نباتات کی بربادیوں اور کبھی کنکریٹ اور سریے کی زخموں سے بانجھ ہی ہوتی چلی گئی ہے ۔ موجودہ حکمرانوں نے، ماضی کے حکمرانوں کی زمینوں کو تحفوں میں دینے کی جگہ، خود قبضہ گروپوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔آج یہی قبضہ مافیا سب سے بڑے سیاست دان ،خیرات گزار اور غریب پرور کے روپ میں اس اندھی قبضہ گیری میں دوڑے چلے جارہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس بے ہنگم اور بے ہودہ طریقے سے شہروں اور قصبوں کا پھیلائو ہورہا ہے قانون بھی انہی کے بنائے جاتے ہیں اورنافذ کرنے والے ادارے بھی انہی کے مالیاتی طور پر مرہون منت ہیں۔مجرم بھی یہی ہیں منصف بھی یہی! عوام کو بس دُعائوں اور درودوں پر لگایا گیا ہے۔ کہیں اجتماعی پوجا ہوتی ہے کہیں بارش کے لیے پارسی آگ کی دعا مانگتے ہیں تو کہیںآذانیں اور خصوصی نمازیں ہوتی ہیں۔لیکن یہ دولت کے ان داتا اپنی ہوس میں اس زمین اور فضا کو اتنا آلودہ کرتے جارہے ہیں کہ یہاں کے عام باسی جو دوسری بنیادی ضروریات سے محروم تو تھے ہی اب ان کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ آلودگی اور بربادی قدرتی آفات سے کم اور ان حکمران طبقات کے لالچ کی وجہ سے زیادہ ہورہی ہے ۔
یورپ اور دوسری ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی قدرتی آفات سے ہر قسم کے نقصان ہوتے ہیں لیکن ہمارے جیسے ممالک کی نسبت خصوصاً جانی نقصان کم ہوتا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ یہاں کی ٹیکنیکی اور اقتصادی ومعاشرتی ترقی اتنی کمزور ہے کہ وہی آفات یہاں زیادہ بربادیوں کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن آنے والے وقتوں میں جس طرح سرمایہ دارانہ نظام مسلسل تنزلی کا شکار ہے اس سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اب بربادیاں زیادہ ہونا شروع ہوجائیں گئیں۔ امریکہ کی ریاست لوسیانہ اور اسکے مرکزی شہر نیو آرلینز میں جو طوفان کترینا نے بربادیاں کیں تھیں وہ اس نظام کی تنزلی کی غمازی کرتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسا ن نے اپنے جنم سے ہی قدرت وفطرت کے مظاہر سے بچنے اور اپنی بقا کے لیے جدوجہد کی ہے۔ان آسمانی آفات سے انسانی زندگی کی تباہ کاریوں کے خلاف مدافعت نہ صرف ٹیکنالوجی کے منافع خوری کے اصراف کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سیارہ وجود انسان کی زندگانی کے لیے زیادہ ناگفتہ بہ ہورہا ہے۔ بڑھتی ہوئی صنعتی وتجارتی آلودگی سے ہونے والی گلوبل وارمنگ نہ صرف فضائوں کو آلودہ کررہی ہے بلکہ موسموں اور مون سون کے معمول پر بھی کاری ضربیں لگارہی ہے۔ ہوس زر کے لیے کم اخراجات کرکے زیادہ منافعوں کا حصول اس آلودگی کا ذمہ دار ہے۔ جنگلوں کی کٹائی سے لے کر زمینوں پر قبضوں کے بلادکار تک ان زمینی حالات اور فضائوں کو زہر آلودہ کر رہی ہے۔ حکمران تو انگزیر آقائوں سے بھی زیادہ لالچی ہیں جو بحرانوں کی شدت میں ہر چیز کو اپنی منافع خوری کے لیے برباد کیے جارہے ہیں۔ جب تک لالچ اور ہوس کا یہ نظام نہیں بدلا جاتا یہ سوکھا اور سیلاب زندگی کو تلخ کرتے رہیںگے۔ انسان کو بھوک اور محرومی کے ساتھ ساتھ اس آلودگی میں سانس لینے پر مجبور سے مجبور تر کیا جارہا ہے ۔ نسل انسان کی زندگی اور اس کے مستقبل کے لیے یہ زر کا نظام ایک ایسا خطرہ ہے کہ اس کو ختم کیے بغیر نسل انسان کے مستقبل کو تاریکی اور بربادیوں سے بچانا ممکن نہیں ہوگا۔