14 جنوری کو لاہور میں طویل عرصے بعد‘ پاکستان ریلوے کے مزدوروں نے آج کے حالات کے حوالے سے بڑی ریلی نکالی۔ یہ مظاہرہ ایک جلوس کی شکل میں ریلوے کیرج ورکشاپ سے شملہ پہاڑی،پریس کلب تک سرخ پرچم اٹھائے پہنچا۔یہ جلوس اپنے مطالبات‘مزدوروں کی جدوجہد اوریکجہتی کے نعرے بلند کرتا ہوا محنت کش طبقے کی اس کلیدی پرت میںبڑھتے ہوئے اضطراب اور ان کی محنت کے استحصال کے خلاف ایک نیا تحرک بن کر ابھرا ہے۔ اگر ایک طرف مزدوروں اور محنت کشوں کی تحریکوں میں تنزلی آئی ہے، وہاں اس سے بڑھ کر 'عہداور اس کے معاشرتی ابلاغ ‘ میں محنت کش طبقے کو شعوری طور پر فراموش کردیا گیا ہے۔ ریل مزدوروں کے ہزاروں کے اس اجتماع کو کارپوریٹ میڈیا نے ایسے نظرانداز کیا‘ جیسے یہ کبھی وقوع ہی نہ ہوا ہو۔ماضی قریب میںیونین کی ٹوٹ پھوٹ اور لیڈروں کی غداریاں‘ پاکٹ یونینز کی زہریلی سرائیت،عمومی طو ر پر تحریک کے ٹھہرائو کی کیفیت‘ سرکاری جبرومعاشی تنائو کی زنجیریں ان مزدوروں کے پائوں کی بیڑیاں رہی ہیں ۔ریلوے کے یہ مزدور اگر ایک لمبے عرصے بعد میدان میں اترے ہیں توان بندھنوں کو توڑ کرہی سڑکوں پر نکلے ہیں ۔ لیکن ان کے پرچم اب بھی سرخ تھے‘ پوسٹروں پر مزدوروں کی انقلابی روش ثبت تھی، بینروں پر طبقاتی جدوجہد کا عزم واعادہ بھی درج تھا ۔ ان کے بنیادی مطالبات بھی کوئی نئے نہیں تھے۔یہ کام کے دوران جان لیوا ثابت ہونے والے حادثات پر قابو پانے ،زیادہ محفوظ کام کے حالات اور اوقات کار اور مرنے والے کے خاندانوں کے لیے نوکریوں اور دوسری رعائتوں کا مطالبہ کررہے تھے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان پر نئے عائد شدہ ٹیکس ختم کیے جائیں ،ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے سروس سٹرکچر کی ٹرینوں پرعائد پابندیوں کو
ختم کیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ ان کی اجرتوں میں کم از کم سو فیصد اضافہ کیا جائے۔ان مزدوروں کا یہ کہنا تھا کہ اگر ممبران پارلیمنٹ اپنی ''تنخواہوں‘‘ میں سو فیصد اضافہ کرواسکتے ہیں تو مزدوروں کی تنخواہوں میں وہی اضافہ کرنے میں کیا تعصب کارفرما ہے کہ کوئی پارٹی کسی بھی اسمبلی میںمزدوروں کی اجرتوں میںاضافے کی نہ کوئی قرار داد پیش کررہی ہے اور نہ ہی ان کی حالت زار پرکبھی کسی نے کوئی تقریر بھی فرمائی ہے ۔ یہ مزدور بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارلیمانی کام کاج کتنا'' کٹھن ـ‘‘ہوتا ہے اور اس ملک کی تمام''بڑی‘‘ پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ ان اسمبلیوں میں کتنی' محنت ومشقت‘کرتے ہیں۔ ریل بانوں کایہ مظاہرہ کئی سالوں کی مذاکراتی جدوجہد کی ناکامی کے بعد مزدوروں کی بڑھتی ہوئی اذیت اور دبائو کی وجہ سے منعقد ہوا۔ جب حکمرانوں اور انتظامیہ کے بار بار کے وعدے اورمعاہدے‘ مزدوروں کے حالات اور ان کے مطالبات تسلیم کرکے بھی مکر جانے کا ایک معمول ہی بن گیا ہے تو پھر اس معمول کو توڑنے کے لیے سڑکوں پرنکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ مظاہرہ کوئی ''دھرنا‘‘ نہیں تھا ‘نہ آج کل کے سیاسی جلسوں کی طرح اس میں دیگیں پکیں اور کھانے دیے گئے۔ ویسے بھی مزدور وہ کرائے کے سیاسی کارکنان نہیں ہوتے جو ان دھرنوں اور سیاسی جلسوں کے ناشتوں اور کھانوں پر ٹوٹ پڑتے اور نہ ہی کسی حقیقی مزدور یونین یا پارٹی کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ طعام کا اعلیٰ بندوبست کریں‘ جن کے بغیر کوئی سیاسی تقریب کروانا آج کل کے دور اور سیاسی ریت رواج میں ممکن ہی نہیں رہا ہے۔ جہاں ہر مذہبی یا
سیاسی تقریب میں مرکزی کردار ''ضیافت‘‘ کا ہی ہو‘ وہ اپنا خون پسینہ بہا کر‘ اپنی محنت لٹوا کر‘ چند روپے کی اجرت سے روکھی سوکھی کھانے والے مزدوروں کی نہ تو روایت بن سکتی ہے اور نہ ہی پرولتاریہ کے ضمیر اورخوداری اس کو قبول کرسکتی ہے۔ ایک طویل عرصے سے جو بحث سیاست اور دانش پربراجمان ہوچکی ہے وہ یہی ہے کہ مزدور طبقہ اپنی کلاسیکی اہمیت اور سماجی کردار ہی کھوچکا ہے ۔ ''کارل مارکس کا کلاسیکی پرولتاریہ اب ختم ہوچکا ہے‘‘۔ اس دلیل کا شور صرف دائیں بازو اور مذہبی پیشوائوں میں ہی نہیں بلکہ 'سابق بائیں بازو‘ اور سول سوسائٹی کے مبلغین اور دانشوروں میں بھی سنا ئی دیتا ہے۔ معروض کے ستم اور بائیں بازو کی موضوعی قیادتوں اور پارٹیوں کی غداریوں اور ٹوٹ پھوٹ کا اس صورتحال کو جنم دینے میں زیادہ بڑا دخل ہے۔ لیکن پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ آج کا مزدور ہی لاغر اور لاچار ہوچکا ہے، وہ طبقاتی بنیادوں پر اب کسی جدوجہد اور جنگ میں لڑنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ ہر طرف اس رجعتی سوچ کے پرچار اور واویلے کے سائے تلے نجکاری‘ ٹھیکیداری‘ برطرفیوں ڈیلی ویجز اور دوسری''ری سٹرکچرنگ ‘‘ کی پالیسیوں کے تحت مزدوروں کو علاج‘ بونس پنشن اور دوسری بنیادی رعائتوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت یونین میں منظم مزدوروں کی شرح گر کر ایک سے ڈیڑھ فیصد ہوچکی ہے۔ ان میں سے بھی بیشتر سرکاری شعبے میں ہیں۔ مارکس نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ'' جو تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ اس کو دہرانے کے مجرم بنتے ہیں‘‘۔ اگر ہم برصغیر کے عام انسانوں کی تاریخ کا جائزہ لیںتو اندازہ ہوگا کہ ریلوے کے محنت کشوں کی تاریخ درخشاں سرفراز اور سیاسی منظر ناموں کو یکسر تبدیل کردینے کی جدوجہد اور طبقاتی لڑائیوں کی تاریخ ہے۔ 1857 ء کی جنگ آزادی پر لکھتے ہوئے کارل مارکس نے تحریر کیا تھا کہ '' برطانوی سامراج ہندوستان میں ریلوے لائن کا ہر ' میل ‘ جوبچھا رہا ہے وہ دراصل اپنی قبر کھودرہا ہے‘‘۔ ریلوے نے برصغیر کے جسم کی رگوں اور شریانوں میں دوڑ کراس کو یکجا کیا۔ پھر انہی ریل بانوں نے مارکس کے اس تناظر کو درست ثابت کیا‘ جب 1936ء کی ریلوے ہڑتال نے پورے برصغیر کو جام کردیا تھا۔ آزادی کی تحریک مقامی اشرافیہ کے سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں سے نکل کر کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے جڑنا شروع ہوگئی تھی۔ 1946ء میں جب برصغیر میں سامراجی نیوی کے مقامی جہازیوں نے بغاوت کردی تو یہ افواج سے بڑھ کر مزدوروں میں آئی۔ جب ٹیکسٹائل مزدوروں سے مزید آگے بڑھ کر یہ ریل بانوں تک پہنچی تو برصغیر میںبرطانوی سامراج کا راج اکھڑنے لگا تھا۔ مقامی بالادست طبقات کی پارٹیاں' کانگریس اور مسلم لیگ‘ کی قیادتیں بوکھلا گئی تھیں اور ولب بھائی پٹیل نے اس مزدور تحریک (جس کی طبقاتی یکجہتی نے مذہبی فرقہ واریت کی تقسیم کو مٹا کر رکھ دیا تھا) کو فریب‘ دھونس اور مکاری سے دوسری اشرافیہ کے لیڈروں کی حمایت سے ناکام کروایا تھا۔ لیکن برطانوی سامراج‘ جس کا برصغیر چھوڑنے کا کم ہی ارادہ تھا، اپنی دی ہوئی تاریخ سے بھی دو سال قبل یہاں سے اپنے براہِ راست اقتدار کو لپیٹ کر فرار ہواتھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد1967 ء کی ریلوے ہڑتال وہ پہلا بھونچال تھا، جس نے بالادست طبقات کی جابر اور مضبوط ترین حاکمیت میں پہلی دراڑیں ڈالیں، جس کو 1968-69ء کے انقلاب نے جلد ہی اکھاڑ پھینکا تھا۔ سرمایہ دار‘اپنی منافع خوری کے راستے میں مزاحمت کم کرنے کیلئے‘ آج چاہے نئی ایجادات، انٹر نیٹ سے لے کر فیس بک اور روبوٹوں تک‘کو محنت کشوںاورنوجوانوں کوالجھانے کی کاوشیں میں استعمال کر لے‘ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی انسانی محنت کے بغیر معاشرے کی ضروریات وسہولیات مہیا نہیں ہوسکتیں اورنہ ہی زندگی کو زندگانی دینے کا کردار قطعاً ختم ہوا ہے۔ آج کے مزدور کا سائنسی طور پر سماجی کردار اسی طرح کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس طرح مارکس نے اس کی' سائنسی توجیہ‘ پیش کی تھی۔اگر ریلوے کا یہ ایک عرصے بعد ہونے والا اجتماعی مظاہرہ پہلے مذاکراتی مرحلے سے آگے نکل جاتا ہے تو پھربھی ان محنت کشوں کا صرف ریل میں ہی جرأت مندانہ پیش قدمی تک ہی محدود رہ کر کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگی۔صرف ایک شعبے میں محدود رہنے سے بڑی بڑی تحریکوں کو شکستوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ پچھلے سال کی پی آئی اے کی شاندار ہڑتال کی بعدازاں پسپائی کا سبق ہمارے سامنے ہے۔ ریلوے کی اس جدوجہدمیں سرکاری اور نجی ‘ہر شعبے کے مزدوروں کو اس طبقاتی لڑائی میں متحد اور متحرک کرنااہم ترین فریضہ ہے ۔ اگر غو ر کریں تو ہر شعبے میں مزدور معاشی وسماجی ذلتوں کابھی شکار ہے اور ان حالات کو بدلنے کے لیے بھی ٹرپ رہا ہے۔ اس تڑپ کو ایک جرأت اور ایک جڑت دینے کا فریضہ اس معاشرے کو آزادی دلانے کا فریضہ بن چکا ہے۔