پچھلے کچھ عرصے میں جہاں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھائو اور دوستی دشمنی کے بیانات میں شدت آرہی ہے، وہاں افغانستان سے آئے ہوئے (1979ء کے بعد والے عرصے میں) مہاجرین کی واپسی کا عمل اتنا ہی پیچیدہ اور متضاد نظرآرہا ہے۔ ہزاروں واپس بھی گئے ہیں لیکن لاکھوں جانے سے انکاری ہیں کیونکہ آج کے افغانستان میں ان کا گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ۔ اس پر بھی سیاست ہو رہی ہے کیونکہ جب کوئی مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو تو اس پر ہمارے حکمران صرف سیاست ہی کرسکتے ہیں۔ یہ عملی طور پر اس قدر لاغر اور نااہل ہو چکے ہیں کہ عوام کے کسی بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کی نہ صرف صلاحیت کھو چکے ہیں بلکہ ان مسائل کے دیو ہیکل حجم اور اپنی ریاستی واقتصادی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان مسائل پر صرف تبصرے تو کرسکتے ہیں، کسی سنجیدہ حل کی ہمت ہار چکے ہیں۔ لیکن یہ مسائل چاہے وہ اقتصادی وسماجی ہوں یا خارجی اور داخلی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہوں ان کے ذمہ دار وہ حکمران ہی ہوتے ہیں جو ان پالیسیوں کو مرتب کرتے ہیں اور اپنے بالادست طبقات کے مفادات کے لیے ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا عذاب عوام کو نسلوں بھگتنا پڑتا ہے۔
ایسی ہی ایک پالیسی سے اس جرم کا ارتکاب ہوا جس سے تین نسلیں گزر جانے کے باوجود آج بھی افغانستان، پختونخوا اور بلوچستان کے عام انسانوں کی زندگی دشواریوں اور اذیتوں کی شکار ہے۔ جب لسانی، ثقافتی اور تاریخی اقدار ہی ایک ہوں تو پھر ان عام انسانوں میں بیرونی یا مقامی کی تفریق تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ پختونخوا اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے کیمپوں میں جو ''افغان‘‘ رہتے ہیں وہ زیادہ تر مظلوم اور ستائے ہوئے عام انسان ہی ہیں۔ دولت مند اور کاروباری''افغان‘‘ نہ تو ان کیمپوں میں رہتے ہیں اور نہ ہی ان کو پاکستان یا افغانستان میں رہنے کے لیے کسی اجازت نامے یا سرکاری کاغذ کے حصول میں کوئی دشواری ہوتی ہے۔ آج کے دور میں سب سے بھاری اور فعال سفارش پیسے کی سفارش ہی ہوتی ہے۔ وہ دور بھی گزرگیا جب برادری، علاقے، زبان یا مذہبی فرقے کی بنیاد پر سفارش کسی حد تک کارگر ہوا کرتی تھی۔ یہ تو وہ دور ہے جس میں سرمائے کی جارحیت نے ہر رشتے اور ناتے کو منڈی کی جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ افغانستان کی حکومت کے پاس نہ صلاحیت نہ طاقت اور نہ ہی اتنی ریاستی نظم ونسق کی وسعت ہے کہ وہ افغانستان کے اندر کوئی فیصلہ کن اقدام یا کردار ادا کرسکے۔ سامراجی سنگینوں کے سائے تلے پلنے والی یہ گماشتہ حکومت بھی یہاں کے حکمرانوں کی طرح اس مسئلہ پر صرف سیاسی بیان بازی تک ہی اکتفا کرتی ہے۔ ایک نحیف سا افغان قوم پرستی کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کابل اور چند دوسرے شہروں کے درمیانے طبقات تک محدود ہے۔ اس حکومت کی حاکمیت بھی انہی علاقوں تک محدود ہے جہاں سامراجیوں کی فوجی طاقت سے اس کاتسلط قائم ہوا ہے۔ یا پھر بہت سے ایسے جنگجو سردار ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قومی ونسلی بنیادوں پر مختلف علاقائی حاکمیتیں قائم کی ہوئی ہیں، جیسے قبائلی نظام میں مختلف قبیلوں کی جاگیریں ہوا کرتی تھیں۔ فرق یہ ہے کہ آجکل کے سردار''رشید دوستم‘‘ جیسے قبائلی سردار ہونے سے زیادہ مافیا ڈان بن چکے ہیں، جو منشیات کے کاروبار سے لے کر دہشت گردوں کے گروہ پالتے ہیں۔
ان افغان مہاجرین کو در بدرکرنے اوران کی نسلوں کو برباد کرنے کا ذمہ دار کون تھا؟ افغانستان کی تاریخ میں حکومتیں بدلنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ لیکن 1978ء کے ثَور (بہار) انقلاب کے بعد جس جارحیت سے امریکی سامراج نے اس انقلابی حکومت کے خلاف ڈالر جہاد کی یلغار کروائی تھی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ روسی تو انقلاب کے 19 ماہ بعد افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور وہ افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی حمایت کرنے نہیں بلکہ اس کوگرانے کے لیے افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے بائیں بازو کی حکومت کے صدر حفیظ اللہ امین (جن کا تعلق خلق پارٹی سے تھا) کو قتل کروایا۔ اس سے پیشتر افغان انقلاب کے بانی اور قائد نور محمد ترکئی کو قتل کروایا گیا۔ اس لیے یہ سوائے رجعتی پراپیگنڈے کے اور کچھ نہیں ہے کہ افغان انقلاب ماسکو نے کروایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلق پارٹی کی قیادت نے ماسکو کی حمایت اور اس کی پالیسی کے خلاف ماسکو کے حلیف محمد دائود کا تختہ الٹ کر یہاں ایک انقلاب کے ذریعے دولت اور جہالت کے ظلم و استحصال کے خاتمے کا جرأتمندانہ آغاز کردیا تھا۔ سامراج نے یہ مداخلت اس انقلاب کی اصلاحات سے خطے کے دوسرے ممالک میں عوام کی بغاوتوں کے ابھرنے کے خوف اور یہاں پر امریکی تسلط کو لگنے والی کاری ضرب سے کی تھی۔ پاکستان کی ریاست اور سرزمین کو اس میں ایک ڈسپوزیبل آلے کی طرح استعمال کیا گیا تھا۔ ضیاء الحق نے اپنی بربریت پر اسلامی خول چڑھا کر یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے خلاف ایک وحشت ناک آمریت مسلط کی، جس کا مقصد شریف خاندانوں جیسے سرمایہ داروں کو ان کی قومیائی ہوئی فیکٹریاں واپس دلوا کر اپنے ٹولے کے لیے بھاری رقوم اینٹھنے کا کاروبار چلانا تھا۔ جس طرح امریکی سامراج نے افغانستان میں اس خونریزی کو اپنے جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا اسی طرح ضیاء الحق نے اسی ڈالر جہاد کو مالیاتی اور طاقت کے اجتماع کے لئے استعمال کیا تھا۔ لیکن جہاں اس خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ مارے گئے وہاں لاکھوں بے گھر ہو کر ملک بدر ہوئے اورآج تک انہی اذیتوں کا شکار ہیں۔ گلبدین حکمت یار سے لے کر اسامہ بن لادن اور ملا عمر تک وہ نام ہیں جن کو سامراجیوں اور ضیائی آمریت نے عوام کے خلاف استعمال کیا تھا۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ ضیاء کے جرائم کی ایک طویل فہرست میں سے ایک کڑی ہے۔ پاکستان کا آئین ضیاء کی سیاہ کار ترامیم سے داغدار ہے۔ مذہب کے نام پر اور دوسری پسی ہوئی پرتوں کے خلاف قوانین آج بھی جاری ہیں۔ سیاست اور ریاست کی پالیسیوں میں تیس سال بعد بھی ضیاء الحق کا گھنائونا سایہ منڈلا رہا ہے۔ تمام پارٹیوںپر اس کی باقیات کا غلبہ ہے۔ سماجی قدروں میں اس کی مسلط کردہ رجعتیت آج بھی جاری ہے۔ لیکن یہ مسائل اب اتنے بگڑ چکے ہیں کہ افغان مہاجرین کے مسئلہ سے لے کر عائلی قوانین اور مزدور دشمن پالیسیوں تک کا خاتمہ اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔ اگر افغان مہاجرین کو اتنی خستہ حالی کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے تو پختونخوا اور بلوچستان میں کونسی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ بھوک، ننگ، افلاس، محرومی اور مظلومی کا رشتہ‘ ان افغان مہاجرین اور مقامی عوام کا ایک ہے۔ اسی ذلت کے بندھن میں ان کے پاس اپنی محنت کے صلاحیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہر چیز لوٹ لی گئی اور لٹ رہی ہے۔ ان کو ایک طبقاتی یکجہتی میں جڑنے اور نظام کے خاتمے کی لڑائی لڑنا ہوگی۔ ملکیت کے مروجہ رشتوں کے انفرادیت سے اشتراکیت میں بدلنے سے اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے حصول سے ان کو سانس لینے اور کچھ سہل ہونے کا موقع تو ملے گا۔ پھر ان کی مرضی ہے کہ وہ کس ملک میں کیسے رہیں ،کیونکہ پھر ان کے پاس صرف ایک دیس نہیں، ایک کھیت نہیں، جیتنے کو سارا جہان ہوگا۔