تمام تر تجزیوں اور پیش گوئیوں کے برعکس امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے پہلے سے ہلچل کی شکار دنیا ایک مزید گہرے خلفشار میں مبتلا ہو گئی ہے۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت رکھنے والی سلطنت 'امریکہ‘ کی جو بنیادی کیفیت آج ہے، اس میں اس تبدیلی کے انتشار کا، پہلے سے خستہ حال نظامِ زر کی سیاست‘ سفارت اور صحافت میں، شدت اختیار کرنا شاید ناگزیر تھا۔ تقریباً ایک صدی سے عالمی سامراجی حاکمیت رکھنے والا امریکہ آج معاشی طور پر زوال، سماجی طور پر منتشر اور سیاسی طور پر بے یقینی اور اضطراب کے عالم میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ ایک طرف اس کے حکمرانوں کا دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور ہر طرف اپنا غلبہ قائم رکھنے کی قوت کا زعم جاتا ہی نہیں‘ تو دوسری جانب اس کی معاشی اوقات اتنی ہے نہیں کہ اس قوت کو برقرار رکھ سکے۔
لیکن جیسے امریکی حکمرانوں کو اس برتری کی عادت سی ہو گئی ہے‘ اسی طرح دنیا بھر میں اس کے حواری بھی اسی کے بل بوتے پر ظلم و جبر جاری رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں امریکہ میں ٹرمپ صدارت کے عجیب و غریب اثرات سامنے آئے ہیں‘ وہاں دنیا بھر میں ان رجعتی قوتوں کو اس صدارت سے تقویت کا مصنوعی تاثر دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اظہار مقبوضہ فلسطینی خطے میں انتہا پسند یہودی مذہبی جنونیوں اور ان کی پارٹیوں میں نظر آتا ہے۔ اسرائیل میں بنیامین نیتن یاہو کی سربراہی میں لیکوڈ پارٹی کی دائیں بازو کی حکومت ایک مخلوط کردار رکھتی ہے۔ اس میں لیکوڈ سے بھی زیادہ یہودی بنیاد پرست پارٹیاں شامل ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت آنے کے بعد انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اب ان کو کھلی چھٹی مل گئی‘ اور وہ جو چاہیں بے دریغ کر ڈالیں۔ وہ قبضے اور فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کی جس انتہا پر بھی چلے جائیں، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ نیتن یاہو خود پھنس گیا ہے۔ وہ ان بنیاد پرست یہودی جنونی سیاست دانوں سے زیادہ گھاگ کھلاڑی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ ٹرمپ کے صدر بن جانے سے کوئی اتنی بڑی تبدیلی نہیںآئی کہ اس پورے خطے کے تناظر کو یکسر اور انتہائوں میں بدل دے۔
مغربی کنارے میں 29 لاکھ فلسطینیوں پر اس کو یہی ترجیح حاصل ہے کہ اُن (فلسطینیوں) کے پاس کوئی مکمل ریاست نہیں‘ اور فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کا جبر پوری طرح قائم ہے۔ 1948ء میں قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست سے مزید تجاوز کر جانے والے نوآبادکار یہودیوں کے ماضی بعید کے تخیلاتی تصورات پر مبنی عزائم ہیں۔ وہ تورات میں کسی الہامی ''جوڈیا اور سمارا‘‘ ریاست کے قیام کا خواب دیکھتے ہیں جس کا کوئی سائنسی یا تاریخی ثبوت موجود ہی نہیں ہے۔ یہ رجعتی وحشت جہاں فلسطینیوں پر مزید ظلم اور ان کو انہی کی سرزمین سے مزید بے دخل کرنے پر تلی ہوئی ہے، وہاں یہ موجودہ لیکوڈ حکومت کے لیے بھی درد سر بن رہی ہے۔ نیتن یاہو حکومت اس تنائو سے شدید عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے۔ اس نے ان یہودی بنیاد پرستوں کو سہلانے کے لیے 3000 نئے مکان بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے‘ لیکن یہ تمام آبادکاری یہودی آبادی اور مشرقی یروشلم کے ساتھ منسلک ہے۔ دوسری طرف یہودی بنیاد پرست پارٹیاں فلسطینی علاقے کی گہرائی میں، فلسطین کے نام نہاد دارالحکومت ''رملا‘‘ تک کئی بستیاں تعمیر کرنے پر بضد ہیں۔ 24 جنوری کو ماضی کی حکومتوں کے برعکس ٹرمپ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے اس نئی آباد کاری کے مسئلہ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اوباما حکومت کے دوران اس قسم کی آبادکاری کو پھیلانے اور نئے مکانات تعمیر کرنے کے خلاف وائٹ ہائوس کے ترجمان منافقانہ مخالفت کے سفارتی بیان دیا کرتے تھے۔ اس مخالفت کو نیتن یاہو اپنی مخلوط حکومت کے رجعتی یہودیوں کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا‘ لیکن اب تو ان کو وائٹ ہائوس سے چھوٹ مل گئی ہے۔
اسی طرح ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کئی مرتبہ اسرائیل میں قائم امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ٹرمپ نے امریکہ میں یہودیوں کے سرکردہ شخص ڈیوڈ فرائیڈمین کو اسرائیل میں امریکی سفیر مقرر کیا ہے۔ ان اقدامات سے بنیاد پرست یہودیوں نے مزید شدت پکڑی ہے اور ان کی وحشت کو تقویت ملی ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اندھا دھند جارحانہ پالیسیوں اور اقدامات کے جو اعلانات کرتا جا رہا ہے وہ امریکی ریاست کے اپنے خارجی اور سفارتی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ ان کو مسلسل جاری رکھ سکے۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا اسٹیبلشمنٹ سے ایسا تصادم ہو جائے جس میں اس کو اپنی صدارتی مدت ختم ہونے سے پیشتر ہی سبکدوش ہونا پڑے۔
پہلے سے بحرانوں میں گھرے امریکہ میں یہ انتشار ایک سنگین صورتحال پیدا کر سکتا ہے‘ لیکن جہاں ٹرمپ اور اس کے حواریوں پر ان جارحانہ پالیسیوں کو بڑے جوش سے لاگو کرنے کا جنون سوار ہے‘ وہاں امریکہ کے متوقع وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن جیسے گھاگ سرمایہ دار اور سیاسی کھلاڑی بھی ہیں۔ ٹلرسن اس قسم کے اقدامات کی اندر سے مخالفت کر رہا ہے اور اس کی امریکی اجارہ داریوں کے مالی مفادات کے لیے درکار زیادہ متوازن خارجہ پالیسی ٹرمپ کے ایسے اقدمات کو روک سکتی ہے‘ لیکن جہاں فلسطین کے عوام محکومی اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ وہاں اسرائیل کی صہیونی ریاست اور لکھود حکومت بڑے پیمانے پر
اسرائیلی نوجوانوں اور محنت کشوں کے خلاف سہولیات میں کٹوتیاں اور معاشی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ جہاں اس آباد کاروں کے
مسئلہ پر حکومت لرز رہی ہے وہاں ایک طویل عرصے سے عام اسرائیلیوں کو مذہبی قوم پرستی کے جنون میں مبتلا رکھ کر ان پر معاشی حملے کرکے ان کی زندگیوں کو تلخ کرتی جا رہی ہے۔ ان میں بغاوت پھوٹ سکتی ہے۔ لیکن فلسطینیوں کے لیے عذاب کہیں گہرے اور کئی قسم کے ہیں۔ فوجی اور دہشت گردی کی خونریزی ہو، معاشی و سماجی بدحالی ہو، قبضے کی محکومی ہو، عرب حکمرانوں کی طرف سے فلسطینی مسئلہ کا اپنی حکمرانی کے لیے عیارانہ استعمال ہو یا ان کے فلسطینی لیڈروں اور پارٹیوں کی غداریاں ہوں‘ ان سب نے عام فلسطینیوں پر گہرے زخم لگائے ہیں۔ ان میں بغاوت اور جدوجہد کی روش نہ کوئی ختم کر سکا‘ نہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت کر سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اس معاشی اور قومی آزادی کا راستہ اور لائحہ عمل کیا ہے؟ کئی نسلوں کے تجربات نے ظلم اور بربریت برداشت کرکے بہت سے اسباق ضرور اخذ کیے ہوں گے۔ ان کے لیے طبقاتی لڑائی کے ساتھ قومی جبر کے خلاف بغاوت کی توانائی کو جوڑنا بنیادی فریضہ ہے۔ اگر فلسطینیوں کا ایک نیا ''انتفادہ‘‘ یعنی بغاوت کی تحریک ابھرتی ہے اور اس کا بھڑکنا اس چنگاری کا کام کرتا ہے جس سے اسرائیل کے عام انسانوں میں طبقاتی جبر کے خلاف بغاوت کا لاوا اُبل رہا ہے‘ تو پھر یہ پورے خطے میں ایسی انقلابی آگ کو بھڑکا دے گی‘ جس سے یہاں کی آمریتیں‘ جابرانہ جمہوریتیں‘ بادشاہتیں اور حکمرانی کی مختلف قسم کی مسلط حاکمیتیں بھسم ہو سکتی ہیں۔ اگر ٹرمپ اس جارحیت کو جاری رکھتا ہے تو اس کے خلاف امریکہ اور دنیا بھر میں سامراج کی اصلیت زیادہ واضح انداز میں کھل کر بے نقاب ہو گی اور اس کے خلاف بغاوت کی سمت بھی واضح ہو گی۔ یہ ایک ایسا اشتعال بن سکتی ہے جو محنت کشوں کی تحریک کے ابھرنے کا باعث بن جائے۔ آج ظاہری طور پر باطل اور ظالموں کا راج جاری نظر آتا ہے لیکن یہ کھوکھلا اور سطحی ہے۔ یہ جتنا بڑھے گا‘ اس کے خلاف بغاوت بھی اتنی ہی شدید ہو گی۔ فلسطینی اور دنیا کے دوسرے مظلوم عوام اور محنت کش طبقات کو اپنی بقا کے لیے جینا بھی ہے اور لڑنا بھی ہو گا۔ ساحر نے کیا خوب کہا تھا؛ ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا