بعض اوقات معاشروں کا ارتقا رکاوٹ کا شکار ہو کر بگڑ جاتا ہے۔ایسے میں ناگزیر طور پر ماضی کے رجعتی اور تاریک تعصبات عود آتے ہیں۔ذات پات، برادریوں اور نسل کے تعصبات بھی مذہبی فرقہ واریت اور تنگ نظر قوم پرستی کے تعصبات سے کم زہریلے اور جان لیو انہیں ہوتے۔ جس صنعتی اورمعاشرتی 'ترقی‘ کا پچھلے 70 سال سے واویلا ہے، اِس سے یہ تعصبات کم ہونے کی بجائے زیادہ اذیت ناک ہی ہوئے ہیں۔ برصغیر کے دوسرے ممالک میں بھی یہ تعصبات گل سڑ کر معاشرے کی اِن غیر انسانی تقسیموں اور تفریقوں کو بڑ ھاتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں تمام تر مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے نعروں اور برابری کے قوانین اور آئینی ضمانتوں کے باوجود یہ معاشرے کی روح اور احساس کو گھائل کر رہے ہیں۔ نچلی ذاتوں، اقلیتی مذاہب اور فرقوں، خواتین اور ماضی کے تعصبات کی ماری دوسری سماجی پرتوں کی تفریق معاشرے کی طبقاتی کشمکش اور نجات کی جدوجہد کو مزید کاٹتی اور کھوکھلا کرتی ہے۔
3 فروری کی صبح کو ہر دل کمار نامی انسان نے گمنامی میں مبینہ خود کشی کر لی۔ ہر دل ایک سندھی، ایک ہندو اور پھر ایک موچی تھا۔غر بت نے ہردل کو بچپن سے ہی چائلڈ لیبر کا شکار کردیا۔ وہ سند ھ سے پشاور اورپھر واپس ٹرینوں میں بوٹ پالش کرکے روٹی کماتا تھا۔ اگر ہم اس کے انہی پس منظروں کو دیکھیں تو اس کا جرم صرف ایسے گھرانے میں پیدا ہونا تھا جو پاکستان جیسے سماج کی محکوم اور مظلوم ترین پرتوں سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن ہر دل کمار ان تمام پہچانوں کے علاوہ ایک مخلص اور سچا انسان بھی تھا۔ وہ واقعی ہردل تھا۔ ہر محفل میں خوشیوں اور رونقوں کا محور تھا۔ سب کو خوش رکھتا تھا ۔ شاید خود معاشرے کے ان تعصبات کا شکار ہو کردکھی رہتا تھا لیکن کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیتا تھا۔ ان تمام شناختوں سے بڑھ کر وہ ایک روشن خیال انسان اور امارت کے خلاف غربت کی طبقاتی جنگ کا ہراول سپاہی بھی تھا۔ انقلابی شاعری پر جہاں اس کو عبور تھا وہاں اس کی انوکھی آواز میں پسے ہوئے طبقات کے لوگ اس کے گیت سن کر محظوظ بھی ہوتے تھے۔ وقتی طور پر طبقاتی جبرو استحصال کے درد کو بھلا بھی لیتے تھے اور جذبے سے سرشار بھی ہوتے تھے جس میں انکو جرأت اور ہمت بھی ملتی تھی۔اس ناانصافی کو مسترد کرنے کی، استحصال اور ظلم سے بغاوت کرکے اور اس ذلتوں سے چھٹکارے کی جدوجہد میں ایک کردار ادا کرنے کی ہمت! لیکن یہ معاشرہ پھر ہردل کو کہاں معاف کرنے والا تھا۔ اس کی نچلی ذات ، اس کے اقلیتی مذہب اور اس کے غریب ہونے کے جرم کو اس دولت کے معاشرے نے سزا تو دینا تھی۔ لیکن مذہبی اقلیتوں اور'' کمّیـ‘‘ پرتوں میں جو ایک تنگ سماجی حلقہ تشکیل پایا جاتا ہے وہ ان سے تعلق رکھنے والے ایسے ترقی پسند افراد کے اعصاب کو مجروح کرتا چلا جاتاہے۔اپنے ساتھیوں سے دور، زخموں کے درد سے مجروح ہر دل ذہنی تنائو کی شدت سے ایک کلینیکل ڈپریشن میں چلا گیا۔اندرون سندھ کے اس پسماندہ قصبے میں جسمانی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں تھا تو اس ڈپریشن کا بھلا کیسے علاج ہو سکتا تھا۔اپنی جدوجہد کے ساتھیوں سے دور وہ اپنے آپ کوتنہا محسوس کرتا تھا لیکن رجعتی خاندانی ڈھانچوں کی جکڑ سے وہ آزاد نہیں ہو سکا۔ اس کے ساتھیوں کی کاوشیں بھی پسماندہ اور قدامت پرست ڈھانچوںکے جبر سے اس کو آزاد نہ کروا سکیں۔ ہردل اس معاشرے کی منافقانہ اقدار کے حوالے سے کوئی ''بڑا‘‘ آدمی نہیں تھا جس کی موت کا ذکر میڈیا میں ہوتا، اس پر حکمرانوں کے بیانات آتے اور اس کے لئے تعزیتی کالم اور پروگرام ہوتے۔جس طبقے اور سماجی پس منظر سے اس کا تعلق تھا اُس کے لوگ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں ہر روز غربت اور ذلت میں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ شاید انہی کے بارے میں مجید امجد نے لکھا تھا:
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے؟
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا ، کون دیکھے گا؟
لیکن جو سوچ اور نظریہ ہردل کمار لے کر چل رہا تھا وہ تو حکمران اشرافیہ بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اس کا خوف ان کو دولت کے پرتعیش محلات میں بھی بے چین ہی رکھے گا۔
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو معاشرے ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیب کے آثار ظاہر کرتے ہیں کہ
بالخصوص اس خطے میں ہمیشہ یہ تفریق اور انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کی تمیز نہیں تھی۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب میں جو معاشرتی مساوات تھی وہ کم از کم ان گروہی، ذات پات، مذہبی اور طبقاتی تعصبات سے آزاد تھی اور اس دور کے عام انسانوں کو ان بنیادوں پر تضحیک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد کے چند ہزار سال تک اس برّصغیر میں جو معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ تھا وہ چھوٹے چھوٹے دیہات پر مبنی تھا جن میں محنت کی تقسیم تھی اور جہاں دہقانوں سے لے کر موچی اور نائی تک، سب اپنے اپنے کام کرکے ان چھوٹے چھوٹے کمیونوں کی زندگی کو رواں دواں رکھتے تھے۔ ایک اشتراک کی کیفیت میں کام کرنے میں کوئی عار، کوئی تعصب اور کوئی تضحیک نہیں پائی جاتی تھی۔ کارل مارکس نے ایسے معاشروں کی کیفیت کو 'ایشیائی طرزِ پیداوار‘ (Asiatic Mode of Production) قرار دیا تھا ۔ اونچ نیچ کے یہ تصور نہیں تھے، کم از کم سماج کی نچلی سطح پر دولت اور طاقت کی بنیاد پر سماجی حیثیت کا تعین نہیں ہوتا تھا۔ مارکس اس موضوع پر تفصیل سے اس لئے نہ لکھ پایا کہ ''سرمایہ‘‘ کی تحریر کا بوجھ اس کی زندگی کی کئی دہائیاں کھا گیا۔ لیکن مارکس نے ان معاشروں کا المیہ اور تضاد یہ لکھا کہ گو یہ 'کمیون‘ یا خود انحصاری پر مبنی دیہات اپنے تئیں کم و بیش خود کفیل تھے لیکن ہزاروں سال تک اس خود کفالت کی کیفیت میں رہتے ہوئے وہ باقی دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ ان کی اپنی ایک چھوٹی اور محدود سی دنیا آبادتھی، جس میںوہ اپنے شعور کی
سطح کے مطابق مطمئن بھی تھے۔ لیکن اس عمل میں ان کا تکنیکی اور اقتصادی ارتقا رک گیا تھا اور پھر جب دوسرے زیادہ ترقی یافتہ خطوں، خصوصاًـ برطانوی سامراج نے برصغیر پر جارحیت کے ذریعے قبضہ کیا تو یورپی صنعتی انقلاب کی تکنیک، شعور اور اسلحے کے ذریعے ان جنوب ایشیائی خطوں کو زیر تسلط لانا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔ لیکن انگریز سامراج نے یہاں جو صنعت کاری کی وہ معاشرے کو مساوی بنیادوں پر ترقی دینے کے لئے نہیں بلکہ سامراجی استحصال کیلئے تھی۔انگریز سامراج کے بعد ان کے پیوندکردہ مقامی حکمرانوں نے بھی وہی نظام اور پالیسیاں جاری رکھیں اور برصغیر میں کوئی صنعتی انقلاب برپا کرنے سے بھی قاصر رہے۔ اس بے ہنگم اور متضاد طرز ارتقاسے سے معاشرے کے پرانے ڈھانچے تبدیل ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئے اور سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ان کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ یہ بگاڑ ہمیں آج بھی ذات پات اور اچھوت رویوں کی صورت میں ملتا ہے۔ اگر کوئی نچلی ذات والا چار پیسے کما لیتا ہے تو وہ بھی معاشرے کے انہی تعصبات کا شکار ہو کر اپنے اس مصنوعی احساس برتری میں چوہدری، ملک، قریشی وغیرہ جیسے القابات لگا لیتا ہے۔ اس سے یہ ذات پات کا زہریلا تعصب ختم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تعصبات ہمیشہ سے تھے نہ رہیں گے۔ محنت کشوں کی انقلابی لہر ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر ہی دم لے گی۔
ہر دل کمار کے دوست اور ساتھی پُر ملال تو ہیں لیکن ہردل کی ہر دلی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے انہیں اس طبقاتی جدوجہد کی لڑائی کو تیز تر کرنا ہوگا۔ ہردل کی زندگی کے مقصد کو اس کے ساتھیوں کی انقلابی جدوجہد ہی پورا کرے گی۔