"DLK" (space) message & send to 7575

داغدار کرکٹ

دبئی میں جاری حالیہ کرکٹ سیریز کے آغاز پر ہی ''فکسنگ‘‘ کا ایک اورسکینڈل ''پکڑا‘‘ گیا۔ عوام کی ذلتوں سے بے خبر ذرائع نے اس سکینڈل کو شہ سرخیوں کی زینت بنایا ۔ یہ نہ تو کرکٹ میں جوئے بازی کی گہری سرائت کاکوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی اس لالچ اور ہوس کے دور میںکبھی آخری سکینڈل ہوسکتا ہے۔ ایسے سکینڈلز سے سنسنی بھی پیدا ہوتی ہے ،مختلف کھلاڑیوں اور کرکٹ ماہرین کی بدنامی اور نیک نامی کے تاثر بھی پھیلتے اور پھیلائے جاتے ہیں۔ لیکن عوام کو ہمیشہ اس کھیل کے سحر میں مبتلا رکھ کر جہاں حکمرانوں نے اپنے اقتصادی اور سماجی جبر کو گہرا اور جاری رکھنے کے لیے استعمال کیا ہے وہاں میڈیا نے بھی ریٹنگ کے لیے بھرپور دوڑیں لگائی ہیں۔لیکن کرکٹ جو کبھی ایک کھیل، ایک تفریح ہوا کرتی تھی آج وہ کاروباربن گیا ہے اور اس میںجوئے کا کھیل بالکل اس طرح کا بڑھتا ہوا ناسور ہے جس طرح کالا دھن پاکستان کی سرکاری معیشت کے کل حجم سے بھی تجاوز کرگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کرکٹ کے کبھی صرف شوقین اور مہارت رکھنے والے کھلاڑی ہوا کرتے تھے وہاں آج کے عہد کی کرکٹ میں کھلاڑی کے ساتھ جواری ہونا بھی عام ہوگیا ہے۔ 
جوں جوں اس کھیل کی کمرشلائزیشن ہوتی چلی گئی ،جوئے کا کرکٹ میں آنا بھی ناگزیر ہوگیا تھااور اسی طرح اس سے ہونے والی بھاری منافع خوری میں سرکاری حصہ داروں کی طرح کرکٹ کی متوازی معیشت کے بڑے انویسٹر اوران داتا یہی جوئے کے ماہرین ہیں جن کا یہی کاروبار اور یہی پیشہ ہے۔ جس طرح جسم فروشی کے کاروبار میں پورے کے پورے نیٹ ورک ملوث ہوتے ہیں اسی طرح کرکٹ میںجوئے کی معیشت بھی بہت ہی زیادہ وسعت اختیار کرگئی ہے۔ پاکستان کی معیشت سے کالا دھن اورکرپشن اس لیے نہیں نکالے جاسکتے چونکہ ان کے خاتمے سے ساری معیشت کا ہی دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اسی طرح سے اس نظام میں رہتے ہوئے کرکٹ، کھیل یا کسی بھی شعبہ زندگی اور عوام میں سے بدعنوانی اور ہیرا پھیری نہیںنکالی جاسکتی۔کرکٹ بنیادی طور پر انگریز اشرافیہ کا کھیل تھا۔ وہی اسکو برصغیر جنوبی ایشیا میں لائے تھے۔ پاکستان میں 70ء کی دہائی تک ہاکی کا کھیل کرکٹ سے کہیں زیادہ عوامی دلچسپی کا باعث تھا۔ پھر کرکٹ ابھری اور ابھاری گئی۔ جنرل ضیا نے جہاں مذہبی فرقہ واریت کو استعمال کیا وہاں کرکٹ کوڈپلومیسی سے لیکر اس کو روم کے قدیم شہنشاہوں کے غلاموں کو شیروں سے مروانے کے کھلواڑ کی طرح یہاں کے عوام کو غیر سیاسی کرنے کے لیے استعمال کیا۔پھر یہ کھیل حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جواریوں کے ہاتھوں چڑھ گیا۔
انڈین سپرلیگ کے اجراء سے کرکٹ کا کھیل جس حد تک کمرشلائز ہوگیا ہے برصغیر میں شاید ہی کسی کھیل میں اتنا بھاری سرمایہ ملوث ہو اورجس میں اتنے بڑے پیمانے پر انویسٹمنٹ کی جارہی ہو۔ پاکستان سپرلیگ بھی اسی کی ایک نسبتاً کم سرمائے پر مبنی ایک کاروباری انٹر پرائینیر ہی ہے۔ اس قسم کی لیگوں یا ٹورنامنٹوں میں سرمایہ کاری صرف کھلاڑیوں کو منڈی میں بولیاں لگا کر اپنی ٹیموں کے لیے خریدنے تک ہی محدود نہیں ہوتی۔ بلکہ اتنے ہی پیسے ان پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے صرف ہوتے ہیں جو ان لیگوں کی سیریز کو زیادہ پرکشش بنانے کے لیے ساری آرائش اور زیبائش پر خرچ ہوتے ہیں۔ جب کوئی بڑا سرمایہ دار یا ساہوکار یہ ٹیمیں بناتا اوران کی خریدوفروخت کرتا ہے تو وہ اس میں زیادہ نمائشی اخراجات کرکے ان کی ویلیو اور قدروقیمت میں اضافے کے لیے مزید سرمایہ کاری بھی کرتاہے ۔ پھر ان کی کمائی میں چینلوں کی طرح اشتہاروں اور وردیوں پر مختلف کمپنیوں کے نشانات سے بھی بھاری رقوم حاصل کی جاتی ہیں۔ ان میچوں کو مختلف میڈیا کی اجارہ داریوں کو فروخت کرکے مال بنانے کا ایک مزیداہم ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ چینل پھر ان میچوں کو ٹیلی 
کاسٹ کرکے اشتہاروں اور ریٹنگ کے ذریعے اپنی لگائی ہوئی رقوم پرایک اورمنافع خوری حاصل کرتے ہیں۔ اب تو ہر چوکے، چھکے کے بعد بعض سیریز میں خوبصورت نیم برہنہ دوشیزائوں کے رقص بھی ہوتے ہیں اور وکٹ گرنے پر جہاں رقص زیادہ بھرپور ہوجاتا ہے وہاں آتش بازی کے مظاہرے بھی ہوتے ہیں ۔ ہر سیریز کی افتتاحی اور اختتامی تقریبات پر جو موسیقی ،رقص و سرود کی محفلیں لائٹنگ اور رنگ برنگا جشن منایا جاتا ہے اس سے بھی منافعے حاصل ہوتے ہیں۔ اب جہاں کرکٹ کی یہ صنعت کھربوں کا کاروبار بن جائے تو اس میں جواری بھلا کیسے مداخلت نہ کریں۔ جوأ ہر گیند اور ہر اوور پر لگتا ہے،یہ ہر کھلاڑی کے اسکور اور رن ریٹ پر بھی چلتا ہے اور ہر وکٹ گرنے اور ہر بائولر کی بائولنگ کی رفتار پر بھی لگایا جاتا ہے۔ لیکن جو ں جوں دولت کا جبر اس کھیل میں بڑھتا جاتا ہے لالچ اور ہوس صرف ان بکیوں کے ریٹوں پر دائو لگانے والے عام افراد تک محدود نہیں رہتی، اس میں بہت سے منتظمین ،سیاستدان، ساہوکار اور کاروباری حضرات کے بھی بھاری دائو لگے ہوتے ہیں ۔ اس سے یہ جوئے کے بادشاہ نہ صرف بہت بھاری رقوم لوٹتے ہیں بلکہ انکی سیاسی طاقت بھی بڑھ جاتی ہے۔دولت سے وہ قانون کو خریدنے کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ان کو جوأ کرانے کی جو جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل ہے اورسب سے نئی ایجاد انہی جواریوں نے خریدنی اور استعمال کرنی ہوتی ہے،ا س سے نہ صرف جوئے کا نیٹ ورک وسیع ہوتاہے بلکہ ان کو پکڑنااتناہی پیچیدہ اورمشکل ہوجاتاہے کہ ان کاکاروبارایک قانونی شکل ہی اختیار کرجاتا ہے۔لیکن تما م بورڈ، انویسٹر اور جوئے کے بادشاہ اس کھیل کی تشہیر بھی اسی لیے ہی کرتے ہیں کہ اس سے ان کے اس کاروبار کو وسعت اورمزیدشرح منافع حاصل ہوسکیں۔یہ کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ زر کی ہوس کی اندھی دوڑ میں ہوتا ہے جو اس نظام میں بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کے پورے کھیل کو ہی اس کاروبار کے تقاضوں کے مطابق یکسر بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔اب جواری یا انویسٹر کسی ٹیسٹ میچ کے پانچ دنوں کا انتظار تو نہیں کرسکتا اس کو تو جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ منافع چاہیے ہوتا ہے۔ اسی منافع خوری کی ضرورت اورنظام کے بحران کی شدت کی وجہ سے ہی کرکٹ کو پہلے تو ون ڈے کیا گیا پھر اب یہ20-20 تک جا پہنچی ہے۔اب آگے دیکھیں کہ یہ دولت کی ہوس کرکٹ کا کیا حشر کرتی ہے! 
اب سٹائل یا کرکٹ کے کھیل کو ایک فن کے طور پر نہیں کھیلا جاتا بلکہ مار دھاڑ کے ایک دنگل جیسا سماں ان میچوں میں ملتا ہے۔کرکٹ کبھی بڑا مہذب کھیل ہوا کرتا تھا ۔سماجی اور ثقافتی زوال کی طرح فن اور کھیل میں تنزلی، اس نظام کے بحران کی عکاسی کرتی ہے ۔ آج کرکٹ میں بھی اس کے بگاڑکا اظہارہو رہاہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہر طرف مالیاتی کاروبار اور قانونی ونیم قانونی جوئے چل رہے ہوں، دولت کی ریل پیل ہو، تو کھلاڑی بھلا اس بہتی گنگا میں نہائے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ۔ وہ بھی کوئی مریخ کی مخلوق تو نہیں یا کسی دولت کے کردار سے پاک اقتصادیات کے نظام پر مبنی معاشرے سے تو نہیں آئے ہوئے ۔ کچھ پکڑے جاتے ہیں ،کچھ پکڑوائے جاتے ہیں تاکہ بھاری جوئے اور مقبول اور بڑے کھلاڑی اپنا کھیل اور کھلواڑ جاری رکھ سکیں۔اس نظام میں جوئے اور فکسنگ کے خاتمہ کے معنی یہی ہیں کہ پانی میں سے مچھلی کو نکال دیا جائے۔ کرکٹ تو برباد ہو ہی گئی ہے لیکن اس ہوس اور لالچ کے نظام نے کھیل کی ثقافت کی جو بربادی برپاکی ہے ا س نے معاشرے کی جمالیاتی اور نفاست کی حسیات اور رونقوں کو بھی بدنما اور داغدار بنا دیا ہے۔ کرکٹ اس دولت کی سرایت سے داغدار ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے فن کو بھی یہ زہر دے کر قتل کردیا گیا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں