معمول کے عہد اور ادوار میں معاشرے پرحاوی سوچ، ثقافت، قدریں اور اخلاقیات حکمران طبقات کے کردار اور معیارات پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں سیاست پر انہی کے نظریات ہی حاوی ہوتے ہیں اور بالادست طبقے اور ان کے نظام کے تحفظ اور تسلط کو برقرار رکھنے کی تدابیر سے ہی سیاست اور دانش کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک کے حکمران طبقات رجعتی بدعنوانی، دھوکا اور فریب سے اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں معاشرے میں بھی یہ اقدارکثرت سے پائی جاتی ہیں۔ فرقہ وارانہ دھڑے بازی سے لے کر قومی تنگ نظری پر مبنی منافرتوں کے رجحانات بھی عام ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ نظریات اسی نظام سرمایہ کی حدود وقیود تک محدود ہوتے ہیں اس لیے ان سے بالاست طبقے کے اقتدارکو کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوتا، چاہے ان رجحانات کی شدت سے معاشرے کو ٹوٹ پھوٹ،گہرے انتشار اور تباہی سے ہی دوچار نہ ہوناپڑے۔ جہاں یہ منافرتیں مڑکر حکمرانوں کے خلاف بھی سرکشیوں اور بغاوتوں کوبھڑکا کر حکمران ریاست کو بڑی مزاحمتوں سے دوچارکرتی ہیں، وہاں نظام کی نامرادی سے مایوس ہونے والے یہ حکمران خود بھی ان کو اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے ابھارتے اور ان کو محنت کشوں میں باہمی تصادم کی جانب موڑ دینے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس نظام کے بحران کے زیادہ اذیت ناک ہونے سے ان کا جنم اور ان کی شدت بھی بہت حد تک بڑھ جاتی ہیں۔
پاکستان میں پچھلے 70 سالوں میں جہاں سب سے کلیدی اور بھاری استحصال، طبقاتی بنیادوں پر عمومی طور پر معاشرے میں بڑھتا ہی چلاگیا ہے، وہاں اس نظام نے انتہائی ناہموار اور متضاد طرز کی علاقائی ترقی سے مختلف علاقوں، صوبوں اور قومی بنیادوں پر آبادیوں کے درمیان بہت زیادہ تفریق پیدا کی ہے۔ اس سے جہاں طبقاتی جبر کے خلاف ایک احساس جنم لیتا ہے وہاں مختلف قومیتوں میں مظلومیت اور استحصال کا ادراک اور تکلیف بھی شدت اختیار کرجاتے ہیں ۔ لیکن جہاں علاقائی بنیادوں پر اس غیر مساوی اور مختلف معیاروں پر مبنی صنعت کاری اور سروسزکی معیشتوں کو ابھارا گیا ہے وہاں روزگار اور روٹی روزی کی تلاش میں وسیع پیمانے پر بین الصوبائی اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہجرتیں بھی ہوئی ہیں۔ اپنے علاقوں میں بیروزگاری اور غربت سے تنگ آکر نوجوان محنت کشوں نے نسل درنسل بڑے شہروں اور زیادہ صنعت یافتہ علاقوں کی جانب رخ کیا۔ اس سے آبادی کے تناسب اور مختلف شہروں میں قومی شناخت میں بڑی تبدیلیاں واضح ہوئی ہیں۔ پہلے1947ء کے بٹوارے میں لاکھوں لوگوں کی ہندوستان میں سامراجیوں کے مختص کردہ صوبوں اور علاقوں سے پاکستان کے شہروں اور دیہات میں ہجرت ہوئی۔ اس ایک ہجرت نے شہری آبادیوں کی پہچان ہی بدل کر رکھ دی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ پختونخوا، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ سے بہت بڑی تعداد میں غریب محنت کشوں کی کراچی میں آمدشروع ہوئی۔ اسی طرح دیہاتوں اور''پسماندہ‘‘ علاقوں کی پسماندگی ختم کرنے میں حکمرانوں کی ناکامی کی وجہ سے بیشتر لوگوں نے لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں اور صوبوں کی جانب اپنی محنت کی بہتر اجرت کے لیے سفر کیا ، جو اب بھی جاری ہے۔ لاکھوں مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور دنیا کے بے شمار ممالک کی جانب روانہ ہوگئے۔ یہ مفروضہ زیادہ غلط نہیں کہ دنیا کے کسی ملک یا بڑے شہروں میں چلے جائیں وہاں پاکستانی ضرور ملیں گے۔ لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران طبقات نے پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے کو کتنا کھوکھلا کر دیا ہے۔
سندھ اور پنجاب میں یہ مہم شروع ہے کہ یہاں پہلے افغانوں اور اب پشتونوں کے انخلا کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان پر عملدرآمد تو ممکن نہیں لیکن اس مہم سے قومی تعصبات اور منافرتوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں یہ سوچ اب زیادہ پھیل رہی ہے کہ بلوچستان کے نہ صرف وسائل کو لوٹا جا رہا ہے بلکہ اس کی زمین پر قبضوں اور اس کی آبادی کے تناسب کو ہی ' سی پیک‘ اور دوسرے منصوبوں سے بدلا جا رہا ہے۔کراچی کافی عرصہ پہلے ہی پشتونوں اور بلوچوں کا سب سے بڑا پاکستانی شہر بن چکا تھا۔ اب مختلف آبادی اور مردم شماری کے ماہرین یہ تاثر دے رہے ہیں کہ لاہور پشتونوں کا دوسرا بڑا شہر بن رہا ہے۔ پنجاب کے رجعتی حکمران طبقات اس مفروضے کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک ناکام کوشش کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پنجاب سے پشتونوں کو نکالنے کی مہم سے پختونخوا میں قومی منافرت کسی حد تک بڑھی ہے۔ حکمرانوں کی ان سیاسی چالبازیوں کے جرائم کے خمیازے کے طور پر عام غریب اور محنت کشوں کو ان حقارتوں کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ محرومی ہر طرف بڑھ رہی ہے لیکن چونکہ جنوبی پنجاب، بلوچستان او رپختونخوا کے بیشتر علاقے زیادہ پسماندہ رہ گئے ہیں اس لیے ان میں قومی محرومی کااحساس بھی بڑھ گیا ہے۔ محرومی کی بنیادی وجہ یہ اقتصادی نظام ہوتا ہے جس میں شرح منافع کے حصول اور ہوس میں محنت کشوں کو غریب سے غریب ترکیا جاتا ہے لیکن معمول کے ادوار میں یہ وجہ ایک طبقاتی تفریق کے طور پر منظرعام اور عمومی ادراک میں نمایاں نہیں ہوتی۔
اگر حکمرانوں کے مطابق پاکستان ایک آزاد اور خود مختار اور اب جمہوری ملک ہے تو پھر اس کے ہرشہری کو اس کے کسی بھی خطے میں جانے، رہنے اورکام کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ قومی بنیادوں پر روزگارکے حصول کے لیے تفریق پیدا کرنا حکمرانوں کی قومی آزادی اور سالمیت کو ہی نفی کرتی ہے۔ لیکن ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان ہجرت کرنے والے مختلف مظلوم قومیتوں کے افراد کی بھاری اکثریت اگرچہ مزدوروں پر مشتمل ہے لیکن زیادہ مسئلہ اس لیے ابھرا ہے کہ کاروباری اور بالادست یا درمیانے طبقے کی پرتوں کو اس قومی تضاد کی وجہ سے مقابلہ بازی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لیکن جہاں معیشت اورمنڈی سکڑ رہی ہو وہاں کاروبار میں منافعوں کی شرح تو گرے گی ہی، جس سے مقابلہ بازی کی اندھی دوڑ میںطبقے کے مختلف دھڑوں کا تصادم ابھرتا ہے۔ مزدوروں کو تعصب کے ذریعے کم اجرت پر زیادہ محنت نچوڑنے کے عذاب کا شکار ہونا پڑتا ہے، اصل آواز اس کے خلاف اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسے خواتین مزدوروں کو مرد مزدوروں سے اسی کام کی کم اجرت دے کر ان کی جنس کو ایک تعصب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ویسے ہی مظلوم قومیتوں کے محنت کشوں کے ساتھ بھی متعصبانہ برتائو کیا جاتا ہے۔
برصغیر او ردنیا بھر میں تمام استحصالی نظاموں کے ادوار میں یہ معاشی ہجرتیں مسلسل ہوتی رہی ہیں ۔ برصغیر پر درجنوں حملہ آوروں کا آنا بنیادی طور پر انہی اقتصادی وجوہات پر مبنی تھا۔1947ء میں لاہور میں بہت ہولناک خونریزی ہوئی۔ امرتسر میں بھی کسی طرح کم مذہبی قتل وغارت نہیں ہوئی بلکہ پوراپنجاب لہولہان تھا۔ لاہور کی تقریباً آدھی آبادی یہاں سے ہجرت کر گئی۔ آج پنجاب اور لاہور کے حکمران خود بھی پنجابی یا لاہوری نہیں لیکن اس کا تاثر دے کر اس شاونزم کو ابھارتے ضرور ہیں۔ اگر غور کریں توآج لاہور کی 15 فیصد کے قریب آبادی کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہی لاہوری ہیں، باقی بعد میں آئے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک پشتون کا لاہور کا ڈپٹی میئر بن جانا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پشتون ووٹ بینک لاہور میں کس قدر بڑھ گیا ہے۔ وہ اب لاہور اور پنجاب کے شہری ہیں۔ یہاں بسنا ان کا حق ہے۔ یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ لیکن حکمران جب اتنی بڑی آبادی کو بنیادی ضروریات اور انفراسٹرکچر فراہم نہیں کرسکتے ، علاج اور تعلیم سے عوام کو محروم کر دیتے ہیں، سڑکیں جام ہو جاتی ہیں،گٹر ابلنے لگتے ہیں اور مسائل ایک سماجی اذیت بن جاتے ہیں تو حکمران ان تعصبات اور منافرتوں کو ابھار کر طبقاتی جڑت اور بغاوت کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر نہ یہ عہد ہمیشہ رہ سکتا ہے اور نہ اس کی غلام سوچوں کو ہمیشہ گمراہ کیا جاسکے گا۔ یہ عہد اپنے اختتام کے قریب نظر آرہا ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ عہد بدلا، تحریکیں ابھریں، محنت کشوں کی سیاست میں مداخلت شروع ہوئی تو یہ تعصبات کی تاریکی اس انقلابی روشنی سے چھٹ جائے گی۔ یہی تحریک فتح مند ہو کر پیداوار اور وسائل کو منافع کی بجائے انسانی ضروریات کا مقصد دے کر نہ صرف محرومی اور ذلت کا خاتمہ کرسکے گی بلکہ یہ ماضی کی منافرتیں آج کے انقلابی دور میں صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائیں گی۔حکمرانوں کی داستاںتک نہ ہوگی داستانوں میں!